محققین نے بتایا ہے کہ ’اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ‘ کے ذریعے ایچ آئی وی کے مہلک مرض کا شکار ایک مریض شفایاب ہو گیا ہے، یوں ٹرانسپلانٹ کے ذریعے اس بیماریِ سے ’صحتیاب‘ ہونے والا یہ تیسرا مریض ہے۔ اس کی شناخت کو صیغہِ راز میں رکھنے کے لیے اسے ’ڈوسلڈورف کا مریض‘ کا نام دیا گیا ہے
واضح رہے کہ اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ بنیادی طور پر مریض کے مدافعتی نظام کو اس طرح تبدیل کر دیتا ہے کہ وہ ایچ آئی وی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے
دوسری جانب برطانوی دوا ساز کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی جانب سے تیار کی گئی ایچ آئی وی ویکسین کی آزمائش کے پہلے مرحلے کے نتائج حوصلہ افزا نکلے ہیں۔ ویکسین کا ذکر ہم اس رپورٹ کے آخر میں کریں گے، پہلے کچھ تذکرہ ’ڈوسلڈورف کے مریض‘ کا، جس نے ایچ آئی وی سے نجات پائی
موقر سائنسی جریدے نیچر میں پیر 20 فروری کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں ایک تریپن سالہ مرد مریض کے کیس کی تفصیلات بیان کی گئیں ہیں، جس کے لیوکیمیا کے علاج کے لیے بون میرو (اسٹیم سیل) کی پیوندکاری کی گئی
جرمنی کے یونیورسٹی ہسپتال بون میں متعدی امراض کے پروفیسر اور سربراہ یورگن راکسٹرو نے بتایا ”یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ طریقہِ علاج امید افزا ہے اور اسے دہرایا بھی جا سکتا ہے۔‘‘ تاہم، محققین نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ یہ علاج کئی دوسرے مریضوں کے لیے کامیاب ثابت نہیں ہوا
’ایچ آئی وی کے ٹھیک ہونے‘ کا کیا مطلب ہے؟ اگرچہ، اس پر ابھی بھی بحث جاری ہے، لیکن ایچ آئی وی کے علاج کے اس تازہ کیس نے اب اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے ذریعے صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد کو تین تک پہنچا دیا ہے
ایچ آئی وی کے مرض کی ایک ماہر شیرون لیون اور ان کی ساتھی جینیفر زرباٹو نے 2020ع میں جریدے ’دی لانسیٹ‘ میں لکھا کہ حتمی طور پر یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ کوئی شخص ایچ آئی وی سے ٹھیک ہوا ہے کیونکہ یہ وائرس بہت طویل عرصے تک مدافعتی خلیوں کے اندر چھپا رہ سکتا ہے اور ان کا پتہ لگانے کے لیے دستیاب طریقے محدود ہیں
واضح رہے کہ ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہونے والے خلیوں میں ایک ریسیپٹر ہوتا ہے، جسے CCR5 کہتے ہیں۔ صحتیاب ہونے والے تینوں کیسز میں HIV-1 کے مریض تھے۔ ان تینوں مریضوں نے ایسے عطیہ دہندہ کا اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کروایا، جس میں نایاب لیکن قدرتی طور پر پیدا ہونے والے CCR5 کی دونوں اقسام موجود تھیں۔ ان اقسام کے حامل افراد میں CCR5 ریسیپٹر کا اظہار کم یا بالکل نہیں ہوتا ہے، جو کہ HIV وائرس کی بعض اقسام کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ بنیادی طور پر مریض کے مدافعتی نظام کو اس طرح تبدیل کر دیتا ہے کہ وہ ایچ آئی وی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے
صحتیاب ہونے والے اس تیسرے مریض کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ وہ ایچ آئی وی ٹائپ ون (HIV-1) کا شکار تھا اور فروری 2013ع میں اس کے ٹرانسپلانٹ کے بعد ڈوسلڈورف یونیورسٹی ہسپتال کے محققین نے نو سال سے زائد عرصے تک اس کی نگرانی کی
یہ مریض لیوکیمیا کی ایک قسم مائلیوڈ لیوکیمیا کا شکار تھا۔ لیوکیمیا کینسر کی ایک قسم ہے، جو ہڈیوں کے گودے کو متاثر کرتی ہے۔ اس مریض نے نومبر 2018ع تک ایچ آئی وی کے لیے اینٹی وائرل دوا لینا جاری رکھی۔ اس موقع پر محققین نے اس کا علاج بند کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان محققین کے بقول مریض کی صحتیابی سے متعلق جاننے کے لیے علاج کی بندش ہی واحد راستہ تھا
اینٹی ریٹرو وائرل تھیراپی کو روکنے کے چار سال بعد یہ محققین اس مریض میں ایسے کسی ایچ آئی وی وائرس کے نشان کا پتہ نہیں لگا سکے جو انفیکشن کا سبب بن سکتا ہو۔ ایچ آئی وی وائرس کا جینیاتی مواد زیادہ تر ناقابل شناخت تھا۔ اس کے بعد ہی محققین نے کہا کہ یہ نتائج اس بات کا مضبوط ثبوت ہیں کہ ایچ آئی وی ون کا علاج ہو چکا ہے
تاہم بعض محققین کے خیال میں اگرچہ یہ مطالعہ ایچ آئی وی کے کامیاب ‘علاج‘ کے دو سابقہ واقعات میں اضافہ کرتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ ایچ آئی وی کے علاج کا ایک محفوظ اور قابل عمل متبادل ہیں
یاد رہے اس سے قبل شفایاب ہونے والے ’برلن کے مریض‘ کے نام سے مشہور موتھی رے براؤن کو 2007ع میں لیوکیمیا کے علاج کے لیے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کروانے کے بعد ایچ آئی وی سے پاک قرار دیا گیا ٹھا۔ وہ 2020ع میں لیوکیمیا سے مرنے تک ایچ آئی وی سے بچا رہا
پہلی بار ایچ آئی وی ویکسین کی آزمائش کے حوصلہ کن نتائج
دوسری جانب برطانوی دوا ساز کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی جانب سے تیار کی گئی ایچ آئی وی ویکسین کی آزمائش کے پہلے مرحلے کے نتائج حوصلہ افزا نکلے ہیں
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی دوا ساز کمپنی کی ایچ آئی وی کی ویکسین کی آزمائش کے نتائج حوصلہ کن آئے ہیں
اس سے قبل متعدد ویکسینز کی آزمائش کے نتائج ناکام ہوگئے تھے، تاہم بعض ویکسینز کے ابتدائی نتائج حوصلہ بخش آئے تھے
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق برطانوی دوا ساز کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی ایچ آئی وی ویکسین کی آزمائش کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن آئے ہیں اور رضاکاروں نے دیگر ادویات کے مقابلے انجکشن کے استعمال کو ترجیح دی
رپورٹ کے مطابق کمپنی نے ویکسین کی آزمائش کے لیے 670 رضاکاروں پر ایک سال تک آزمائش کی اور تمام رضاکاروں کو ہر دو ماہ بعد ویکسین کا ایک ڈوز دیا گیا
جن رضاکاروں پر تحقیق کی گئی تھی وہ تمام ایچ آئی وی کے مریض تھے اور ایک سال بعد ان کے مرض کا جائزہ لیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ ان کی بیماری کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا تھا
کمپنی کے مطابق جن رضاکاروں نے تحقیق میں حصہ لیا، انہوں نے ایچ آئی وی کی دیگر ادویات کے مقابلے ویکسین کو ترجیح دی اور بتایا کہ انجکشن لگوانا آسان ہے
رضاکاروں کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی سے تحفظ کے لیے وہ یومیہ گولیاں لیتے ہیں جو کہ مشکل کام ہے، کیوں کہ بعض اوقات وہ گولی لینا بھول جاتے ہیں، اس لیے ہر دو ماہ بعد ویکسین لگوانا آسان کام ہے
کمپنی نے اپنے بیان میں ویکسین کی آزمائش کے پہلے مرحلے کے نتائج کو حوصلہ بخش قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس کا دوسرا مرحلہ بھی کامیاب جائے گا
ویکسین کی آزمائش کے دوسرے مرحلے میں زیادہ افراد پر تجربہ کیا جائے گا، جس کے بعد اس کا تیسرا اور آخری مرحلہ شروع کیا جائے گا
ماہرین کو امید ہے کہ مذکورہ ویکسین کے باقی آزمائشی مراحل بھی کامیاب جائیں گے اور دنیا میں جلد ایچ آئی وی سے تحفظ کی پہلی ویکسین دستیاب ہوگی
اس سے قبل گزشتہ ماہ جنوری میں امریکی دوا ساز کمپنی ’جانسن ایںڈ جانسن‘ کی ایچ آئی وی سے تحفظ کی ویکسین کی آزمائش ناکام ہوگئی تھی
اس سے پہلے فروری 2020ع میں امریکی حکومت کی جانب سے مختلف طبی اور دوا ساز اداروں کے اشتراک سے بنائی گئی ویکسین کی آزمائش بھی ناکام ہوگئی تھی
اس وقت ایچ آئی وی کے مریضوں کا علاج مختلف ادویات کے ذریعے کیا جا رہا ہے، تاہم ان کی حفاظت کے لیے کسی طرح کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں
خیال رہے کہ ایچ آئی وی وائرس کی پہچان 1980 کے بعد ہوئی تھی، اس وائرس سے متاثرہ افراد ایڈز کا شکار بن جاتے ہیں
اس وائرس یا مرض سے بچاؤ کے لیے اب تک کوئی بھی ویکسین دستیاب نہیں ہے تاہم امریکی سائنسدانوں نے دنیا کے دیگر ممالک کے ماہرین کے اشتراک سے 1997 میں ویکسین تیار کرلی تھی
1997 میں تیار کی جانے والی ویکسین پر مزید کئی سال تحقیق کرنے کے بعد سائسندانوں نے اسے مکمل تیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور 2016 میں اس کی آزمائش شروع کی گئی تھی مگر اس کی آزمائش بھی ناکام گئی تھی۔