خصوصی عدالت (فلسطینی کہانی)

توفیق معمر (ترجمہ: ڈاکٹر محمد افتخار شفیع)

حکومتی اعلان کے مطابق عدالت نے چند مشہور مقدمات کی سماعت کے لیے شہرمیں اجلاس منعقد کیا۔اجلاس میں طے ہوا کہ منتخب دیہات میں عدالتیں لگائی جائیں تاکہ انصاف قائم ہو۔ علاقے کے لوگ اس فیصلے پر حیران تھے۔ انہیں اس بات کی خوشی بھی تھی کہ چلیں ان کے بارے میں بھی کسی نے سوچا تو سہی۔۔ اعلیٰ حکام کا کہنا تھا کہ ہم انصاف کو عوام کی دہلیز تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ عدالت کی گاؤں میں منتقلی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ عام آدمی کی مشکلات کا ازالہ ہوگا اور وہ شہر آنے جانے کے اخراجات سے بھی بچ جائے گا۔ اب لوگوں کو ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ لمبے سفر کی ضرورت نہیں۔ عدالت کے لیے گاؤں کے گیسٹ ہاؤس کی عمارت مختص کی گئی تھی۔عدالتی کارروائی کے لیے گیسٹ ہاؤس کا ٹی وی لاونج، جج کے آرام کے لیے باورچی خانہ اور عدالتی اہل کاروں کے قیام اور مجرموں کے لیے عارضی جیل خانے کے لیے گیسٹ ہاؤس کا گودام استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

گیسٹ ہاؤس کے داخلی صدر دروازے اور عمارت کے درمیان اونچے اونچے یوکلپٹس کے درخت تھے۔ توجہ نہ دینے کی وجہ سے درختوں میں ایک خاص قسم کی بے ترتیبی دیکھی جا سکتی تھی۔ گھاس میدان اور کیاریاں بھی ویرانی کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے مدت سے کسی نے اس کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔گیسٹ ہاؤس کی چاردیواری کے اندر داخل ہوتے ہی کسی بھوت بنگلے کا گمان ہوتا تھا۔

مقدمات کی جانچ پڑتال کے لیے جمعرات کا دن مقرر کیا گیا۔ اس روز علاقے کے لوگ ٹولیوں کی شکل میں عدالت کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک ہجوم تھا، جو اس طرف امڈ آیا تھا۔ لوگ آتے گئے اور صحن میں اکٹھے ہوتے گئے۔ یہ شدید سردی اور کہرے کا موسم تھا، اس دوران میں بادل گرجے اور بارش شروع ہو گئی۔سردیوں کی بارش آہستہ آہستہ ہڈیوں میں سرایت کرنے لگی۔ بارش سے بچنے کے لیے کوئی پناہ گاہ تو تھی نہیں، لوگ بھیگتے رہے، مسلسل بارش کی وجہ سے چند گھنٹوں میں عمارت کا مرکزی میدان کیچڑ کا تالاب بن کے رہ گیا۔

عدالت کا عملہ ایک جج پر مشتمل تھا۔ یہ ایک پولش نسل کا اسرائیلی تھا۔ نام تھا خروشا فش لِسکی، اس کا شمار سخت مزاج افسروں میں ہوتا تھا۔ اسے عدالت کے دائرہ کار اور اختیارات کا بہ خوبی علم تھا اور وہ اکثر اوقات اس کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتا رہتا تھا۔ استغاثہ کے وکیل کے طورپر جنوبی افریقا سے نقل مکانی کر کے آئے ہوئے ایک اسرائیلی نے اپنی ڈیوٹی سنبھالی۔ عدالت کا سپاہی اور کلرک دونوں عراقی تھے۔ یہ عدالت طریقہِ کار کے لحاظ سے عام عدالتوں سے قدرے مختلف تھی۔ اس میں ججوں کے سیاسی نظریات اور مجرموں کے مقاصد کو سمجھنے پر زیادہ زور دیا گیا تھا، یعنی موقع کی مناسبت سے عوامی مفاد میں فیصلہ کرنا

دروازہ کھلتے ہی عوام کا سیلاب مرکزی دفترکی طرف لپکا۔ میں بھی اس عوامی ریلے میں شامل تھا۔ مجھے وہاں کوئی کام تو نہ تھا، بس آج کل فراغت تھی، اسی لیے وقت گزاری کے لیے اپنے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ عدالت میں جا پہنچا تھا۔ ہال میں پہنچتے ہی لوگ ایک ایک کر کے ہال میں حاضرین کے لیے رکھے گئے لکڑی کے بنچوں پر بیٹھنے لگے۔ میری نظر دور کونے میں رکھی ایک بنچ پر پڑی اور میں اس پر جا کر بیٹھ گیا۔

میرے بالکل سامنے عدالت کا چبوترہ تھا۔ ایک بڑی سی لکڑی کی میز کے پیچھے آرام دہ کرسی جج کے لیے رکھی تھی۔ اس کے ایک طرف رکھی دو چھوٹی میزیں کلرک اور مترجم کے لیے مخصوص تھیں۔ ایک طرف کچھ فاصلے پر پراسیکیوٹر بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے کاغذات اور فائلوں کا ایک ڈھیر تھا۔ پولیس افسران کا ایک گروہ عدالت کی داہنی دیوار کے ساتھ موجود تھا، کچھ افسر الرٹ کھڑے تھے اور کچھ نے اپنی کمریں دیوار کے ساتھ ٹیک دی تھیں۔ ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ جج کے عدالت میں آنے پر نظم وضبط قائم رکھ سکیں، وہ اس کی آمد کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ عوام اور عدالتی عملے کے درمیان ایک خالی جگہ تھی جہاں ملزمان کے لیے لکڑی کی ایک مستطیل میز رکھی تھی۔ہال کے ایک کونے میں خطرناک مجرموں کے لیے لوہے کا پنجرہ بھی موجود تھا۔

سیشن مکمل ہو چکا تھا، چاروں طرف ایک پراسرار قسم کی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ باہر نہ رکنے والی تیز بارش کا سلسلہ جاری تھا، گاؤں کے تنگ اور پیچ دار راستے کیچڑ سے بھر گئے تھے۔ندی نالے پوری شدت سے بِہ نکلے تھے، پانی کے ریلے عدالت کی دیواروں کے ساتھ آ آ کر ٹکرا رہے تھے۔

سخت سردی کی وجہ سے میں اپنی جگہ پر سکڑ کر بیٹھا تھا، میں نے ایک بھورے رنگ کا وزنی کوٹ پہن رکھا تھا۔ اس دوران میں بے اختیار میری نظر کھڑکی سے باہر پڑی تو مجھے یوکلپٹس کے اونچے اونچے درخت بارش میں بھیگتے ہوئے دکھائی دئیے۔ ہوا میں دھندنے درختوں کے اوپری حصوں کو چھپا لیا تھا۔ ابھی چند منٹ گزرے تھے کہ نئے ماڈل کی ایک لگژری کار عدالت کے صحن میں داخل ہوئی، اس میں سے جج باہر نکلا اور پروقار انداز میں چلتا ہوا عدالت کے صدر ہال کی جانب بڑھا۔ جج کے ہال میں داخل ہوتے ہی حاضرین اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے، ان کی گردنیں احترام سے جھکی تھیں۔ سب کنکھیوں کے ساتھ سر سے لے کر ایڑی تک جج کی نقل وحرکت کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ دھیمی دھیمی چال چلتے ہوئے جج اپنی کرسی کی جانب بڑھا اوراس پر ٹک گیا۔ اس نے اشارے سے احترام میں کھڑے حاضرین کو بیٹھنے کا کہا۔ جج نے استغاثہ کو مقدمات پیش کرنے کا حکم دیا۔

سب سے پہلے تیرہ چودہ سال کا کم سِن اور دبلا پتلا سا ایک لڑکا بہ طور ملزم عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس کانام احمد حسن برکات تھا۔اور عرفی نام تھا، زیکو۔۔۔ ملزم بالکل اکیلا تھا،اس کے ساتھ کوئی رشتہ دار یا سرپرست نہ تھا۔ اس نے انتظامی گرفتاری کے تحت دو دن حوالات میں گزارے تھے۔ وہ پولیس والوں کی حراست میں تھا۔ اطلاع کے مطابق اس نے کرفیو میں بغیر اجازت کے رملہ سے جافا تک کا سفر کیا تھا۔ سپاہیوں نے اسے لوہے کے پنجرے میں بند کرنا چاہا تو جج نے نرمی سے منع کر دیا۔ ”نہیں نہیں ایسا مت کرو، میں کسی بچے کے ساتھ یہ برا سلوک نہیں دیکھ سکتا“

دونوں سپاہی اسے قریب لائے اور جج کی کرسی کے سامنے چبوترے کے نیچے رکھی اسٹینڈ والی کرسی پر بٹھا دیا

”بیٹے! فکر نہ کرو، تمہیں قانون سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا“

”ہم تمہیں جیل کی سزا نہیں دے سکتے نہ ہی جرمانا کرنے کے مجاز ہیں، قانون ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم ایک جمہوری فلاحی ریاست کے شہری ہیں۔ ہمیں نابالغوں کے ساتھ خصوصی شفقت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔“

”جلدی سے اپنا نام بتاؤ بیٹا“ جج نے پوچھا

”زیکو“ لڑکے نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا

”بڑا عجیب نام ہے تمہارا۔۔ ہے نا؟“

”گاؤں کے لوگ مجھے اسی نام سے پکارتے ہیں، یہ میرا عرفی نام ہے، میرے باپ کا نام حسن ہے“

”تمہارا باپ کہاں ہے؟ وہ تمہارے ساتھ عدالت میں حاضر کیوں نہیں ہوا؟“

”میں پانچ سال کی عمر میں یتیم ہو گیا تھا جناب“

”اور تمہاری ماں؟“

”وہ بھی اللہ کو پیاری ہو چکی ہے“

”پھرتم کہاں رہتے ہو، تمہارا سرپرست کون ہے؟“جج نے حیرانی سے کہا

”میری دادی سعدہ الموسیٰ ہے می لارڈ!! وہ فالج کا شکار ہونے کی وجہ سے بستر پر ہے۔ اس لیے میرے ساتھ نہیں آ سکی“

جج کے چہرے پر افسردگی اور عدم اطمینان کے آثار نمایاں تھے۔ اس نے آنکھیں موند لیں اور کرسی پرٹیک لگا کر گہری سوچ میں گم ہو گیا

”تمہاری عمر کے کم سن لڑکے کو اس حالت میں دیکھ کر مجھے دلی افسوس ہو رہا ہے۔۔ آخر ہم ایک مہذب جمہوری ریاست کے ذمہ دار افسران ہیں۔ ہمارا ملک مشرقِ وسطیٰ کے صحراؤں میں ایک نخلستان کی طرح ہے۔ یہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ ہم اس خطے میں ایک روشن چراغ کی طرح ہیں، جس کی روشنی سے آس پاس کے لوگ بھی فائدہ اٹھائیں گے۔“

جج بڑی شفقت اور نرمی کے ساتھ زیکو سے مخاطب ہوا، ”بیٹا! ذرا ہال میں موجود مجمعے پر نظر دوڑاؤ۔ کیا تمہیں وہاں کوئی اپنا رشتے دار یا قریبی تعلق والا دکھائی دے رہا ہے؟ چھوٹا سا تو گاؤں ہے، شاید کوئی آ گیا ہو۔“

لڑکے نے منہ پھیر کر مجمع پر نظر ڈالی، غیرمتوقع طور پر اسے مجمعے میں اپنے رشتے میں ایک دور کے چچا نظر آئے ”حاضرین کی پچھلی رو میں مجھے میرے چچا دکھائی دیے ہیں۔ ان کانام ہے طہیش۔۔۔“

”واقعی؟ وہ کون سے ہیں، انہیں اشارے سے ذرا اپنے قریب تو بلاؤ“ جج نے کہا

طہیش کے عدالت کے کٹہرے میں پہنچتے ہی جج کے چہرے پرموجود افسردگی غائب ہو گئی تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا ”کیا تم اس لڑکے کے چچا ہو؟ اپنا تعارف کراؤ“

”میرانام طہیش ہے، میں پیشے کے اعتبارسے ٹھیکہ دار ہوں“

’‘ اچھا، تو تم ٹھیکہ دار ہو، بھئی تم تو خوب کمائی کرتے ہوگے“

”جی لیکن میری کمائی ایک بڑا حصہ تو مجھے ٹیکس کے طور پر جمع کروانا پڑتا ہے“ طہیش بولا

”یہ معاملہ تو سب کے ساتھ ہے، میں بھی اپنی تنخواہ پر لگائے گئے ٹیکس کی وجہ سے بہت تنگ ہوں، مہینے کا ایک ایک دن گزارنا مشکل ہے“ جج کے چہرے پر ایک پراسرار سی مسکان ابھری

اب احمد حسن برکات عرف زیکو کے کیس پر بحث شروع ہوئی

”لڑکے! الزام ہے کہ تم سرکاری اجازت کے بغیر رملہ شہر میں موجود پائے گئے۔ تم نے ایمرجنسی ایکٹ ۱۶۹۲ کے پیراگراف سی کی کھلی خلاف ررزی کی گئی ہے۔“ جج نے فردِ جرم پڑھ کر سنائی

”لیکن جنابِ من! میں رملہ میں زیتون کے باغ میں مزدوری کرنے جاتا ہوں۔۔ میرے پاس اس کا سرکاری اجازت نامہ بھی ہے۔“ ملزم نے التجائیہ اندازمیں کہا۔ یہ کِہہ کر اس نے اجازت نامے کی کاپی جج کو پیش کی

”نہیں، نہیں۔۔۔ یہ اجازت صرف حیفہ کے لیے ہے۔“ جج کے لہجے میں غصہ تھا ”تمہاری وہاں موجودگی عوامی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، یہ اصول وضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے“

اس دوران میں زیکو کا چچا طہیش کھڑا ہوا۔ اس نے بڑے ادب سے جھک کر عدالت سے کچھ کہنے کی اجازت چاہی

جج بولا ”ہم ایک فلاحی اور جمہوری ریاست کے فرد ہیں۔ ہمارے ہاں ہر کسی کو رائے دینے کی پوری آزادی ہے، اپنا دفاع کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔“

”جناب! ملزم کم سن ہے اور قانون سے ناواقف ہے۔ میری بہت سے وکلا سے قریبی دوستی ہے، میں اس قانون کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہوں، اگر کسی بھی شہر میں کام کرنے کا اجازت نامہ مل جائے تو پورے اسرائیل میں مزدوری کی جا سکتی ہے“ طہیش نے التجائیہ انداز میں کہا

”ممکن ہے تمہاری بات جزوی طور پر درست ہو، لیکن یہ قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے“ جج بولا ”ملزم زیکو اور اس کے چچا! اب تم دونوں کھڑے ہو جاؤ، اس سے پہلے کہ عدالت اپنا فیصلہ سنائے ،تم اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہتے ہو؟“

طہیش نے اپنے بھتیجے ملزم احمد حسن برکات کے کان میں سرگوشی کی ’رحم کی اپیل کرو، رحم کی اپیل کرو‘

اپنے چچا کے اشارے پر عمل کرتے ہوئے احمد نے کہا ”رحم جناب! میں ایک یتیم اور لاوارث ہوں“

”تم کیا کہتے ہو طہیش؟“جج نے کہا

طہیش ہکلایا، اس کے الفاظ لڑکھڑا رہے تھے ”میں سر!!؟“

”ہاں تم۔۔ دراصل عدالت نے ملزم کی کم سنی اور بھلائی کو بھی تو ذہن میں رکھنا ہے“

اس کے بعد عدالت نے ایمرجنسی ایکٹ ۱۶۹۲ کے پیراگراف سی (۲) کے تحت ملزم احمد حسن برکات عرف زیکو کو سو سےپاؤنڈ کی رقم بہ طور جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی۔ رقم ادانہ کرنے کی صورت میں اس کے چچا طہیش کو تین ماہ بامشقت کی سزادی جائے گی۔

یہ فیصلہ سن کر طہیش کے ہوش اڑ گئے، یوں محسوس ہوا جیسے اردگرد کی ہر شے کچھ لمحوں کے لیے رک سی گئی ہو، یا اس میں حرکت تو ہو لیکن سکتہ طاری ہو گیا ہو۔چند ثانیوں کے لیے اس کی زبان گنگ ہو گئی۔کیوہ اپنی تمام توانائیاں مجتمع کر کے چیخا ”دیکھو لوگو! سزا لڑکے کو سنائی گئی ہے اور جرمانہ مجھے ادا کرنا ہوگا۔۔۔ دنیا کا کون ساقانون اس طرح کی سزا دیتا ہےمل۔۔ کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے۔۔ میں محض عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیے یہاں آیا تھا،تومیں کوئی مشتبہ شخص یا مجرم تھوڑی ہوں“

”ہرصورت میں تمہیں ادائیگی کرنی ہوگی کیوں کہ تم ملزم کے چچا ہو۔ تم اس کے نگہبان ہو۔ کیا یہ یتیم نہیں ہے؟“جج بولا

”نہیں نہیں، یہ ظلم ہے؛ نسل پرستی ہے،کیتم سارے لوگ مسخرے ہو!“ طہیش کے اس زبانی حملے پر دو سپاہی تیزی سے آگے بڑھے اور اسے گرفتار کر لیا

”تمہیں جرمانہ ادا کرنا پسند ہے یاجیل جانا؟“

طہیش ساری بات سمجھ گیا تھا۔ںاس نے خاموشی سے کہا ”میں جرمانہ ادا کردوں گا، مجھے گرفتار نہ کرو“

وہ اس وقت کو کوس رہا تھا؛جب اس کے دل میں بارش کے موسم میں عدالتی کارروائی دیکھنے کا خیال آیا تھا۔ ’لعنت ہے مجھ جیسے تفریح پسند پر۔۔۔‘ اس نے خودسے کہا

باہر ابھی تک تیز بارش ہو رہی تھی اور تیز ہوا سے یوکلپٹس کے درختوں پر یالرزہ طاری تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close