انتظار (انگریزی افسانہ)

ارنسٹ ہیمنگوے (ترجمہ: عقیلہ منصور جدون)

وہ کمرے میں کھڑکیاں بند کرنے کے لیے آیا، جب ہم ابھی بستر میں ہی تھے اور میں نے دیکھا کہ وہ بیمار نظر آ رہا تھا۔ وہ کانپ رہا تھا، اس کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا اور وہ آہستہ آہستہ چل رہا تھا، گویا ہر حرکت کے ساتھ اسے درد ہوتا تھا

”شاز، کیا کوئی مسئلہ ہے؟“

”میرے سر میں درد ہو رہا ہے“

”تمہارے لئیے بستر میں رہنا ہی بہتر ہوگا“

”نہیں ، میں بہتر ہوں۔۔“

”تم جا کر بستر میں لیٹو ، میں کپڑے پہن کر تمہیں دیکھتا ہوں“

لیکن جب میں نیچے اترا تو وہ پہلے ہی لباس پہن کر آتش دان کے پاس بیٹھا تھا ، وہ نو سال کا بہت بیمار اور دُکھی لڑکا دکھائی دے رہا تھا ۔ جب میں نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو مجھے معلوم ہو گیا کہ اسے بخار ہے ۔

”تم اپنے بستر میں جاؤ ، تم بیمار ہو“ میں نے اسے کہا

”میں ٹھیک ہوں“ اس نے جواب دیا

جب ڈاکٹر آیا تو اس نے لڑکے کا درجہِ حرارت چیک کیا

”کتنا ہے؟“ میں نے پوچھا

”ایک سو دو“

نیچے اتر کر ڈاکٹر نے تین مختلف دوائیاں مختلف رنگ کے کیپسول میں لڑکے کو دینے کے لیے دیں ۔ ایک بخار کم کرنے کے لیے، دوسری جلاب لانے کے لیے، اور تیسری تیزابیت ختم کرنے کے لیے۔۔

”انوفلوئنزا کے جراثیم صرف تیزابیت میں زندہ رہ سکتے ہیں“ اس نے وضاحت کی

لگتا تھا کہ اسے انوفلوئنزا کے بارے میں سب معلومات تھیں ۔ اس نے بتایا کہ اگر بخار ایک سو چار ڈگری سے اوپر نہ جائے تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ نزلے کی ہلکی سی وبا تھی۔ اگر آپ نمونیہ کی احتیاط کر لیں تو کوئی خطرہ نہیں

لڑکے کے کمرے میں واپس جا کر میں نے اس کا درجہِ حرارت لکھا اور مختلف کیپسول دینے کا وقت بھی لکھ دیا

”کیا میں تمہیں کچھ پڑھ کر سناؤں؟“

”بہت بہتر، اگر آپ چاہیں تو۔۔“ لڑکے نے جواب دیا

اس کا چہرہ بہت سفید ہو رہا تھا اور آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے بن رہے تھے ۔ وہ بستر پر ساکن لیٹا تھا اور ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ گرد و پیش سے بالکل لا تعلق ہو

میں نے ہاورڈ پائلز کی کتاب ’بحری قزاق‘ سے باآواز بلند پڑھنا شروع کیا ، لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ وہ، جو میں پڑھ رہا تھا، اسے بالکل نہیں سن رہا تھا

”تم کیسا محسوس کر رہے ہو، شاز؟“ میں نے اس سے پوچھا

”پہلے جیسا ہی۔۔“ اس نے جواب دیا

میں بستر کے پائنتی بیٹھ کر خاموشی سے کتاب پڑھنے اور دوسرے کیپسول کے وقت کا انتظار کرنے لگا ۔ اس کے لئے سو جانا بالکل فطری تھا ، لیکن جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بستر کے پائنتی دیکھ رہا تھا ، بہت عجیب سا دکھائی دے رہا تھا

”تم سونے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ میں تمہیں دوائی کے لئے جگا دوں گا“

”میں جاگتے رہنا پسند کروں گا“ کچھ توقف سے اس نے مجھے کہا ”پاپا ، اگر آپ کے لئیے مشکل ہے تو آپ کو یہاں میرے ساتھ بیٹھے رہنے کی ضرورت نہیں“

”نہیں یہ میرے لئیے قطعاً مشکل نہیں“

”نہیں، میرا مطلب ہے، اگر آپ کے لئے مشکل ہو تو آپ مت بیٹھیں“

میں نے سوچا، شاید وہ غنودگی میں ہے، اس لیے اسے گیارہ بجے کیپسول کھلا کر کچھ دیر کے لیے باہر نکل گیا۔

یہ ایک روشن چمکدار دن تھا. زمین پر پڑا کہرا منجمد ہو کر ایسے لگتا تھا، جیسے سارے ننگے درختوں، جھاڑیوں، ساری گھاس اور ننگی زمین پر برف سے ملمع کاری کی گئی ہو۔ میں نوجوان آئرش سیکٹر (کتوں کی ایک نسل) کو لے کر تھوڑی چہل قدمی کے لیے سڑک اور ایک منجمد کباری (قدرتی چشمہ ) کی طرف چلا گیا ۔ لیکن اس برف کی شیشے جیسی سطح ہر کھڑا ہونا یا چلنا بہت مشکل تھا ۔ سرخ کتا پھسلا اور میں دو مرتبہ گرا ۔ ایک دفعہ تو میری بندوق گر کر برف پر دور تک پھسل گئی ۔

ہم نے بٹیروں کا ایک غول، جو مٹی کی اونچی ڈھیری میں ان جھاڑیوں میں چھپا تھا، جو اوپر سے نیچے کی طرف لٹک رہی تھیں ، کو اڑایا ۔ کچھ درختوں میں نظر آۓ ، باقی بکھر گئے ۔ میں نے ان میں سے دو کو اس وقت مار گرایا، جب وہ بکھر کر پہاڑی کی اوٹ میں غائب ہو رہے تھے ۔ اور انہیں اڑانے کے لیے بہت دفعہ برف سے ڈھکے ٹیلوں پر چڑھنا پڑتا ، جس کی وجہ سے انہیں شوٹ کرنا مشکل تھا ۔ میں نے دو مار لیے اور پانچ سے چُوک گیا ۔ لیکن خوشی خوشی واپس ہوئے کہ گھر کے اتنے قریب بٹیر موجود ہیں، جنہیں کسی بھی دن شکار کیا جا سکتا ہے ۔
گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ لڑکے نے ہر کسی کو اپنے کمرے میں داخل ہونے سے روک دیا تھا ”آپ اندر نہیں آ سکتے، آپ کو بھی وہ نہ ہو جائے جو مجھے ہے“ لڑکے نے انہیں کہا تھا

میں اوپر اس کے پاس پہنچا اور اسے اسی حالت میں پایا، جس میں اسے چھوڑا تھا ۔سفید چہرہ لیکن رخسار بخار سے تپے ہوئے اور اسی طرح بستر کی پائنتی پر نظریں جمائے ہوئے

میں نے اس کا درجہِ حرارت چیک کیا

”کتنا ہے؟“

”سو کے قریب“ میں نے کہا۔ درجہ حرارت ایک سو دو سے ذرا اوپر تھا

”یہ ایک سو دو تھا“

”کس نے کہا؟“

”ڈاکٹر نے“

”تمہارا ٹیمپریچر بالکل درست ہے ، پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں“

”میں پریشان نہیں ہوں ، لیکن میں سوچے بغیر نہیں رہ سکتا“

”مت سوچو ، پرسکون رہو“

”میں پرسکون ہوں“ اس نے کہا اور سیدھا دیکھنے لگا

وہ یقیناً کسی بات کو اپنے اندر مضبوطی سے دبائے ہوئے تھا

”یہ پانی سے لے لو“

”آپ کا کیا خیال ہے، اس کا کوئی فائدہ ہوگا؟“

”بالکل، یہ فائدہ دے گی“

میں نے بیٹھ کر بحری قزاق والی کتاب کھول لی اور پڑھنے لگا، لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ وہ سن نہیں رہا، چنانچہ میں نے پڑھنا بند کر دیا

”میں آپ کے خیال میں کب مروں گا؟“ اس نے پوچھا

”کیا!؟“

”میرے مرنے میں کتنا وقت رہ گیا ہے؟“

”تم مر نہیں رہے، کیا مسئلہ ہے؟“

”جی، بالکل میں مر رہا ہوں۔۔ میں نے خود اسے ایک سو دو کہتے سنا ہے“

”کوئی بھی ایک سو دو درجے بخار سے نہیں مرتا، یہ بےوقوفانہ سوچ ہے“

”مجھے معلوم ہے۔۔ اس سے لوگ مر جاتے ہیں۔ فرانس میں مجھے لڑکوں نے بتایا تھا کہ چوالیس ڈگری پر کوئی زندہ نہیں رہ سکتا۔ جب کہ میرا ایک سو دو ہے۔“

وہ سارا دن صبح نو بجے سے مرنے کا انتظار کرتا رہا تھا۔

”تم بے چارے شاز“ میں نے کہا ”اوہ، ارے بھئی شاز۔۔ یہ بالکل میل اور کلومیٹر کی طرح ہے ۔ تم مر نہیں رہے ۔یہ مختلف تھرما میٹر ہے ۔ اس تھرمامیٹر پر 37 ڈگری نارمل ہے ، لیکن اس قسم کے تھرمامیٹر پر 98 نارمل ہے“

”کیا آپ کو یقین ہے؟“

”مکمل!“ میں نے کہا، ”یہ میل اور کلومیٹر کی طرح ہے۔۔ تم جانتے ہو کہ ہم کتنے کلومیٹر کرتے ہیں جب ہم کار میں ستر میل کرتے ہیں“

”اوہو…“ اس نے کہا

لیکن اس کی نگاہ بستر کی پائنتی سے بہت آہستگی سے ہٹنے لگی ۔ اس کا اپنے اوپر سے دباؤ بھی کم ہونے لگا۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close