پاکستان کے مرکزی بینک نے شرح سود 17 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط کو مانتے ہوئے اسٹاف لیول معاہدے سے قبل شرح سود کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ آئی ایم ایف کا قرض پروگرام بحال ہو سکے
وفاقی حکومت اس سے قبل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سمیت آئی ایم ایف کی متعدد شرائط مان لی ہیں
قرض پروگرام کی بحالی کے لیے عوام پر 170 ارب روپے کے ٹیکسوں کا بوجھ بھی ڈال دیا گیا ہے
سابق سیکریٹری خزانہ یونس ڈھاگہ جنہوں نے آئی ایم ایف سے موجودہ قرض پروگرام کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا تھا
یونس ڈھاگہ کا کہنا ہے ’ایسا دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی تمام شرائط آنکھیں بند کر کے مان رہی ہے، آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کو معاشی بد حالی سے نہیں نکال سکتا، ارجنٹائن اور مصر کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں، جنہوں نے ایک کے بعد ایک قرض پروگرام لیا مگر وہ قرضوں میں جکڑتے گئے“
انہوں نے کہا ”آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ایک عارضی ریلیف ہوسکتا ہے مگر پاکستان کو اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرنا ہوگی“
معاشی ماہر عبدالرحمٰن نجم کا کہنا ہے کہ ’بنیادی طور پر یہ آئی ایم ایف کی شرط ہے۔ ملک میں مہنگائی کی شرح 31.5 فیصد تک ہوچکی ہے، آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ملک میں طلب کو روکنے کے لیے شرح سود بڑھائی جائے تاکہ درآمدات کم ہوسکیں
سابق سیکریٹری خزانہ یونس ڈھاگہ کا کہنا ہے ’حکومتی نمائندے آئی ایم ایف کے ساتھ تکنیکی طور پر بات چیت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کو یہ بتانے میں ناکام رہی ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں شرح سود بڑھانے سے مہنگائی کم نہیں ہوتی
دنیا بھر میں پالیسی ناکام ہورہی ہے، برازیل، چلی، ہنگری، نیوزی لینڈ، ناروے، پیرو اور جنوبی کوریا نے بھی شرح سود بڑھا کر مہنگائی کو قابو کرنے کی کوشش کی ہے جو ناکام ہوگئی ہے۔‘
یونس ڈھاگہ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں مہنگائی کاسٹ پش ہے، اس کا ڈیمانڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے، ڈیمانڈ روکنے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی۔ اسٹیٹ بینک اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔‘
یونس ڈھاگہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے ایڈوائزری بورڈ کے سربراہ ہیں۔ مرکزی بینک کو لکھے جانے والے خط میں انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک کا شرح سود بڑھا کر مہنگائی کم کرنے کی پالیسی بے فائدہ ہے
اسی پالیسی کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ حالی کا شکار ہے اور کاروباری برادری بھی شدید مشکلات کا شکار ہے۔ شرح سود بڑھانے سے ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی جسے پالیسی ریٹ سے قابو کرنا مشکل ہوگا
پاکستان میں مہنگائی روپے کی بے قدری، عالمی مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں میں اضافے اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے ہوئی ہے
جنوری 2022 سے جنوری 2023 تک ملک میں شرح سود 9.75 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کیا گیا مگر اس دوران مہنگائی 13 سے فیصد سے بڑھ کر 27.6 فیصد تک جا پہنچی جس سے سٹیٹ بینک کی پالیسی پر سوالات اٹھتے ہیں
اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر زاہد ملک، جو تیل و گیس کے شعبے میں کام کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ ہر صنعتکار، سرمایہ دار، مینو فیکچرر اور کاروباری طبقہ بینک سے قرض لیتا ہے، بد قسمتی سے شرح سود ہر دو مہینے کے بعد بڑھ رہی ہے اور توقع ہے کہ اگلے ایک دو ماہ میں شرح سود 24 فیصد تک ہوجائے گی
’ان حالات میں ملک میں مزید سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی، کون سا کاروبار ہے جو 24 فیصد منافع دے گا؟ انہوں نے کہا کہ حکومت کاروباری طبقے کو سانس لینے کی مہلت دے، حکومت کا کوئی معاشی پلان نظر نہیں آرہا ہے، حکومت کے یہ تمام اقدامات عارضی نہیں بلک مستقل ہیں۔ کم از کم حکومت یہ امید تو دلائے کہ ملکی معاشی حالات کب ٹھیک ہوں گے۔‘
سابق چیئرمین ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ لینڈ ڈویلپرز محسن شیخانی کا کہنا ہے کہ ’کاروباری صنعتوں کو آج 22 فیصد سود پر قرضہ دیا جارہا ہے اب تاجراور صنعتکار صنعتوں سے اپنا پیسہ نکال لیں گے اور ان شعبوں میں سرمایہ لگائیں گے جہاں کوئی رسک نہیں ہے جیسا کہ ٹی بلز وغیرہ۔‘
دوسری جانب اسلام آباد کی ستارہ مارکیٹ میں خریداری کرنے والے شہری واجد علی مہنگائی سے خاصے پریشان ہیں انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ ایک ماہ میں بچوں کا خشک دودھ 600 روپے فی کلو اور پیمرز 500 روپے فی پیکٹ تک مہنگے ہوئے ہیں، پہلے ہر ماہ دودھ اور پیپمرز کے دو دو ڈبے لیتے تھا اب ایک ایک لے کر جارہا ہوں، اگلے مہینے خریداری کیسے کروں گا؟ کوئی پتہ نہیں۔‘
اقتصادی ماہر عبدالرحمٰن نجم کہتے ہیں کہ شرح سود بڑھنے سے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا زاہد ملک کا کہنا ہے کہ شرح سود بڑھنے کا اثر نچلے طبقات پر آئندہ ایک دو ماہ میں آئے گا، مہنگائی کہاں تک جائے گی اس کا اندازہ ہوجائے گا
محسن شیخانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شرح سود خطے کے تمام ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے، شرح سود بڑھنے سے مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آئے گا جسے قابو کرنا مشکل ہوگا
’ایک عام پاکستانی کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی لوگوں کی طاقت خرید ختم ہوجائے گی۔‘
اقتصادی ماہر عبدالرحمٰن نجم کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافے کا سب سے بڑا نقصان خود حکومت کو ہوگا، حکومت نے 30 سے 35 ہزار ارب روپے کا مقامی قرض ادا کرنا ہے
شرح سود میں تین فیصد اضافے سے مقامی قرضوں میں ایک ہزار ارب روپے کا مزید اضافہ ہوجائے گا اگر ایک سال تک 19 سے 20 فیصد تک شرح سود برقرار رہتی ہے تو حکومت صرف مقامی قرضوں پر سود کی ادائیگیوں پر سات ہزار ارب روپے سالانہ ادا کرے گی
سود کی ادائیگیاں وفاقی اور صوبائی پی ایس ڈی پی سے پانچ گنا ہیں۔ پاکستان وفاق اور صوبائی حکومتوں کا مجموعی ترقیاتی بجٹ 1500 ارب روپے کے لگ بھگ ہوتا ہے جب کہ سود کی ادائیگیاں سات ہزار ارب روپے تک ہوجائیں گی
عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ شرح سود بڑھنے سے سب سے زیادہ آٹو موبائیل انڈسٹری متاثر ہوگی۔ ملک میں 30 سے 40 فیصد لوگ بینک فنانس پر گاڑیاں خریدتے ہیں، شرح سود بڑھنے سے گاڑیاں اور موٹر سائیکل اور مہنگی ہوجائیں گی، شرح سود بڑھنے سے بجلی کا شعبہ بری طرح متاثر ہوگا، بجلی کے کارخانوں میں شرح سود ایک بڑا عنصر ہوتا ہے بجلی کے کارخانوں کی لاگت میں 75 فیصد بینکوں کا قرضہ ہوتا ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بجلی کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے کے لیے تین روپے 40 پیسے فی یونٹ سرچارج لگا دیا یے اور بجلی صارفین اس مد میں 335 ارب روپے کی اضافی ادائیگیاں کریں گے۔ اس سے سٹیل انڈسٹری بری طرح متاثر ہوگی، سریے کی قیمت بڑھنے سے تعمیراتی شعبے کو دھچکا لگے گا، سابق چیئرمین آباد محسن شیخانی کہتے ہیں کہ عمران خان کے دور میں غریب طبقہ کو پانچ فیصد شرح سود پر 60 لاکھ روپے کا قرضہ دیا جا رہا تھا، آج ہاؤس فنانس کے لیے سود کی شرح 22 فیصد تک پہنچ چکی ہے
عبدالرحمٰن نجم نے بتایا کہ جب بینک سے اچھا منافع ملنا شروع ہوجائے تو لوگ ڈالرز خریدنا چھوڑ دیتے ہیں حال ہی میں حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی بینک پاکستان کے بانڈز اور ٹی بلز میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اسے انکم ٹیکس کی چھوٹ ہوگی اس سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی ہاٹ منی آئے گا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا
2019 میں بھی حکومت نے شرح سود 13.25 فیصد تک بڑھا دی تھی جس سے تین ارب ڈالرز تک ہاٹ منی پاکستان آیا تھا اس وقت بیرون ممالک میں بھی معاشی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں اس لیے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں اگلے تین سے چھ ماہ کے دوران ایک سے دو ارب ڈالرز ہاٹ منی آئے گا
شرح سود بڑھنے سے لوگ اپنے پیسے کو خرچ کرنے کی بجائے بینکوں میں جمع کراتے ہیں، اس سے طلب میں کمی آتی ہے درآمدات کم ہوجاتی ہیں جس سے ایکسچینج ریٹ میں استحکام آتا ہے
پاکستان میں شرح سود سب سے زیادہ ہوچکی ہے، تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق ایران میں شرح سود 18 فیصد، سری لنکا 14.5 فیصد، نیپال میں 8.5 فیصد، مالدیپ میں 7 فیصد، بنگلہ دیش میں چھ فیصد اور بھارت میں 6.5 فیصد ہے۔