آئے دنوں انٹرنیٹ سکیورٹی اور ڈیٹا پرائیویسی قوانین کی خلاف ورزی جیسے معاملات کی وجہ سے صارفین کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’فیس بُک‘ اکثر تنازعات کی زد میں رہتا ہے۔ اس حوالے سے فیسبک پر بڑے جرمانے بھی عائد کیے جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں لوگوں کی بڑی اکثریت فیسبُک استعمال کرتی ہے
فیسبک کی ابتدا کے بارے میں ہاورڈ یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی اور میڈیا کی سیینئر محقق اور میڈیا ماہر جوڈٹ ڈوناتھ کہتی ہیں ”ہاورڈ یونیورسٹی کے پانچ طالب علموں نے فیس بُک کا آغاز کیا، جس نے ڈرامائی طور پر سوشل میڈیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ یہ طلبا کی معلومات کی ایک پیپر ڈائریکٹری کے طور پر شروع ہوئی جس میں طلبا کی تصاویر اور سی ویز شامل تھیں اور اس ڈائریکٹری کا نام تھا، فیس بک۔ اور آگے چل کر اُن طلبا نے اپنے نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا نام بھی یہی منتخب کیا“
ان کا کہنا ہے ”پیپر ڈائریکٹری میں لوگوں کو تلاش کرنا مشکل تھا اور آپ اس پر تبصرہ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ان طلبا نے ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کی جس میں لوگوں کو تلاش کرنا آسان ہو“
فیس بک کے سفر کے بارے میں جوڈٹ ڈوناتھ نے کہا ”انہوں نے اپنی یونیورسٹی سے شروعات کی، لیکن بعد میں اسے دوسری یونیورسٹیوں تک پھیلا دیا گیا۔ یہ ایک ایسی چیز تھی کہ جتنے زیادہ لوگ اس میں شامل ہوں گے، اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ دوسری یونیورسٹیوں کے طلبا اس سے منسلک ہوئے، آگے سے اُن کے اپنے دوست اور نیٹ ورک تھا، پھر ان کے رشتہ دار بھی اس میں شامل ہو گئے, یوں یہ نیٹ ورک پھیلتا گیا“
اور بالآخر سنہ 2006ع میں فیسبک ایک بڑا سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن کر سامنے آیا، جس نے اس وقت موجود دوسرے پلیٹ فارمز کے ساتھ مقابلہ کرنا شروع کر دیا
اس وقت دیگر مقبول اور بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورکس تھے جیسے ’مائی اسپیس‘ اور ’فرینڈسٹر‘ جہاں لوگ اپنے جاننے والوں کے پروفائل دیکھ سکتے تھے اور اپنے دوستوں کے بارے میں جان سکتے تھے
لیکن ایک طرح سے وہ ’جامد‘ ویب سائٹس تھیں اور وقت کے ساتھ وہاں کچھ زیادہ نہیں بدلا، جبکہ دوسری جانب فیس بک نے اس جمود کو توڑنے کے لیے اپنے پلیٹ فارم پر نیوز فیڈ کا فیچر لانچ کر دیا
جوڈٹ ڈوناتھ کہتی ہیں ”فیسبک نے نیوز فیڈ فیچر لانچ کیا اور اب لوگ اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کے بارے میں بتا سکتے تھے۔ ان کی زندگی میں کیا ہو رہا ہے، وہ کہاں جا رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں“
اور جب یہ پہلی بار شروع ہوا تو لوگوں کے لیے یہ بالکل نئی چیز تھی، جس نے ان کی توجہ کھینچ لی۔ جوڈٹ ڈوناتھ کا خیال ہے کہ مارک زکربرگ نے فیسبک کا ابتدائی ڈیزائن بناتے وقت یہ محسوس کیا ہوگا کہ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کے لیے بہت بے تاب رہتے ہیں
اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’کانٹیکٹ کوآپٹ‘ ایک تصور ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہم نہ صرف اپنے دوستوں کے بارے میں بلکہ اُن کے دوستوں کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں ”بعض اوقات ہم ایک بات دوسروں سے نہیں کہتے جو ہم کسی خاص شخص سے کہنا چاہتے ہیں۔ لیکن فیسبک پر جو کہا جاتا تھا وہ اب ایک بڑے نیٹ ورک تک پہنچ رہا تھا، اس کی وجہ سے معلومات دینے کے طریقے کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات کی مساوات بھی بدلنے لگی“
بہرحال اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے بہت تیزی سے کامیابی سمیٹتے ہوئے مقبولیت حاصل کی ۔ فیسبک نے چار سالوں میں اس وقت کے مقبول ترین ’مائی اسپیس‘ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ بعد میں سوشل نیٹ ورکنگ کی بہت سی سائٹیس آئیں، لیکن فیس بک پھر بھی پہلے نمبر پر رہا
لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ فیس بک کماتا آخر کیسے ہے؟
کلکس کے عوض کیش
ابتدا میں فیسبک ’فیسبک‘ نامی کمپنی کی ہی ملکیت تھی، لیکن 2021ع میں اس کی پیرینٹ کمپنی کا نام بدل کر ’میٹا‘ کر دیا گیا
برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا اسٹڈیز کی سیینئر محقق ڈاکٹر مارلن کومورووسکی کہتی ہیں ”اس کا بنیادی کاروبار اشتہارات یعنی ایڈورٹائزنگ ہے۔ فیسبک کی کمائی کا 98 فیصد حصہ اشتہارات سے حاصل ہوتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کو شروع سے ہی اشتہاروں کی حکمت عملی کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ یعنی ہم جتنا وقت فیسبک پر گزارتے ہیں یہ کمپنی اتنا ہی کماتی ہے“
لوگ اور کمپنیاں فیسبک پر اشتہارات لگاتی اور دیکھتی ہیں۔ لیکن اب میٹا نے واٹس ایپ اور انسٹاگرام جیسی بہت سی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس بھی خرید لی ہیں
ڈاکٹر مرلن کا کہنا ہے ”یہ تمام کمپنیاں اپنے سوشل میڈیا صارفین کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اپنا فیسبک اکاؤنٹ بہت سی ویب سائٹس پر رجسٹر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ معلومات اشتہارات کے موثر استعمال کے لیے کارآمد ہوتی ہیں۔ اشتہاری کمپنیاں ان ویب سائٹس پر اشتہارات دیتی ہیں۔ اور اس کے لیے وہ فیسبک کو ادائیگی کرتی ہیں“
وہ کہتی ہیں ”فیسبُک پر کمپنیوں کے اشتہارات دیکھ کر لوگ اُن کمپنیوں کی ویب سائٹ پر جاتے ہیں اور اُن کی مصنوعات خریدتے ہیں۔ جتنے زیادہ لوگ ان اشتہارات پر کلک کرتے ہیں، فیس بک کو اتنا ہی زیادہ پیسہ ملتا ہے۔ یعنی اگر فیسبک پر ہر روز کم لوگ سائن اپ کرتے ہیں، تو اس کی کمائی بھی کم ہوتی ہے۔‘
اُتار چڑھاؤ اور بھاری جرمانے
سنہ 2022ع میں فیسبُک کی آمدنی مسلسل تین سہ ماہیوں تک گرتی رہی۔ لیکن چوتھی سہ ماہی میں اس نے بتیس ارب ڈالر کمائے، یہ آمدن تجزیہ کاروں کے اندازوں سے بھی بڑھ کر تھی
فیسبک نے 2022ع میں کل ملا کر ایک سو سولہ ارب ڈالر کمائے۔ اربوں لوگ فیسبک استعمال کرتے ہیں لیکن حالیہ سروے کے مطابق تیرہ سے انیس سال کی عمر کے نوجوان اب اسے استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں، جو مستقبل میں اس کی کمائی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے
ڈاکٹر مرلن کا کہنا ہے ”فیسبک استعمال کرنے والے سب سے بڑے عمر کے گروپ میں پچیس سے چونتیس سال کی عمر کے لوگ ہیں، جو اس کے صارفین کا ایک چوتھائی حصہ بنتے ہیں۔ لیکن ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسے استعمال کرتی ہے۔ دیگر سوشل میڈیا کے مقابلے میں اس عمر کے لوگ فیسبک پر سب سے زیادہ ہیں“
لیکن کیا یہ اشتہاری کمپنیوں کے لیے اچھی چیز ہے یا بری چیز؟ ڈاکٹر مرلن بتاتی ہیں ”یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اشتہاری کمپنی کس عمر کے لوگوں میں دلچسپی رکھتی ہے۔ لیکن اگر نوجوان صارفین آپ سے رابطہ نہیں کر رہے ہیں، تو مستقبل میں آپ کی مطابقت خطرے میں پڑ سکتی ہے“
”دوسری بات یہ ہے کہ فیسبک کا انحصار صرف اشتہارات سے ہونے والی آمدنی پر ہے جو کہ کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر گوگل فون کے ساتھ ساتھ متعدد فیچرز بھی فروخت کر رہا ہے کیونکہ آمدنی کے کسی ایک ذریعہ پر انحصار کرنا قدرے مشکل ہے“
حالیہ دنوں میں میٹا نے بھی اپنی کمپنی کی برانڈنگ تبدیل کر دی ہے۔ اس نے ’میٹاورس‘ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ میٹاورس کا مطلب ہے ایک ڈجیٹل دنیا، جس میں آپ معلومات سیکھنے، کھیلنے یا شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی ڈجیٹل شکل میں ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے۔ لیکن ایسا ہونے میں کافی وقت لگے گا
ڈاکٹر مرلن کا کہنا ہے ”سنہ 2023 کے لیے میٹا کا ہدف کمپنی کو کفایت شعار بنانا ہے، اس لیے وہ اخراجات میں کمی کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارک زکربرگ نے گذشتہ سال کے آخر میں تیرہ ہزار افراد کو نوکری سے نکال دیا۔ کیا یہ صحیح طریقہ ہے؟ یہ کہنا ابھی مشکل ہے“
نیو ہیمپشائر یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں اسسٹنٹ پروفیسر ٹفنی لی کا خیال ہے کہ فیسبک بین الاقوامی سطح پر کئی مسائل میں گھرا ہوا ہے
وہ کہتی ہیں ”میرے مطابق سب سے بڑا کیس 2018ع میں کیمبرج اینالیٹیکا کا تھا، جس میں کمپنی نے بہت سے تھرڈ پارٹی ڈویلپرز کو فیسبک صارفین کی ذاتی معلومات استعمال کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ دوسری کمپنیاں اپنے اشتہارات ان لوگوں تک پہنچا سکیں۔ ’کیمبرج اینالیٹیکا‘ ایسا ہی ایک تھرڈ پارٹی ڈویلپر تھا اور اس نے یہ معلومات لوگوں کی اجازت کے بغیر اور فیسبک کے قوانین کے خلاف استعمال کیں“
دراصل ’کیمبرج اینالیٹیکا‘ ایک سیاسی مشیر کمپنی تھی، جس کی خدمات ڈونلڈ ٹرمپ کی 2016ع کی انتخابی مہم میں لی گئی تھیں۔ ٹرمپ نے یہ الیکشن جیتا تھا، جس کے بعد 2018 میں یہ معاملہ سامنے آیا تھا
اس وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ ساڑھے آٹھ کروڑ سے زیادہ ووٹروں کی معلومات ان کی اجازت کے بغیر انتخابی مہم میں استعمال کی گئیں۔ اس کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کو تشہیری اشتہارات بھیجے گئے
ٹفنی لی کا کہنا ہے ”اس سے عالمی سطح پر ایک تنازع کھڑا ہو گیا۔ کوئی نہیں چاہتا کہ ان کی معلومات ان ہی کے خلاف استعمال ہوں۔ خاص طور پر جب اسے استعمال کرنے والوں کی نیتیں ٹھیک نہ ہوں۔ اس کے علاوہ کئی اور مسائل بھی سامنے آئے۔ پرائیویسی کا مسئلہ، غلط معلومات پھیلانے اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے جیسے مسائل سامنے آئے، ساتھ ہی فیس بک اور اس کے دیگر پلیٹ فارمز پر بھی کورونا سے متعلق سازشی افواہیں پھیلائی گئیں، نفرت آمیز بیانات اور انٹرنیٹ پر لوگوں کو ہراساں کرنے کے واقعات ہوتے رہے ہیں“
اگر یہ کوئی عام کمپنی ہوتی تو شاید اتنا بڑا معاملے سامنے آنے کے بعد زمیں بوس ہو جاتی، لیکن فیسبُک نہیں رُکا
ٹفنی لی کہتی ہیں ”کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل کے بعد، بہت سی کمپنیوں نے فیسبک پر اشتہار دینا بند کر دیے۔ کچھ نے عوامی طور پر کہا کہ وہ ایسے پلیٹ فارم کو سپورٹ نہیں کر سکتے جو انتخابات کو غیر منصفانہ طریقے سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لیکن کچھ کی رائے یہ ہے کہ سارا دارومدار صارفین پر ہے، اگر صارفین اس پلیٹ فارم پر رہیں گے تو اشتہاری کمپنیاں بھی رہیں گی“
گذشتہ برسوں کے دوران فیسبک نے قانونی معاملات کو طے کرنے کے لیے اربوں ڈالر کے جرمانے ادا کیے ہیں۔ دسمبر 2021ع میں اس نے ’کیمبرج اینالیٹیکا‘ کیس میں سات سو ملین ڈالر سے زیادہ کا جرمانہ قبول کیا تاہم کوئی غلط کام کرنے کا اقرار نہیں کیا
اسی طرح یورپی یونین نے ڈیٹا پرائیویسی کی خلاف ورزیوں پر فیسبک اور انسٹاگرام پر چار سو ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا
جواب دہی
لیکن اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ یہ کہ فیسبک کس کے سامنے جوابدہ ہوگا اور اس پر سوال کون کرے گا؟ اس کے بارے میں ٹفنی لی کا کہنا ہے ”بڑی ٹیک کمپنیوں کا کوئی احتساب نہیں ہوتا اور یہی بڑا مسئلہ ہے. دنیا میں مختلف نظام ہیں۔ امریکہ میں ان کمپنیوں کو چلانے والے قوانین بہت نرم ہیں اور ان کمپنیوں کو بہت زیادہ آزادی حاصل ہے۔ یورپی یونین اور برطانیہ میں قوانین زیادہ سخت ہیں“
’موو فاسٹ، بریک تھنگز‘
ابتدائی دنوں میں یہ رجحان تھا کہ بڑی کمپنیوں کے اپنے نعرے ہوتے ہیں، جیسے فیسبک کا نعرہ تھا کہ ’موو فاسٹ، بریک تھنگز‘
ٹفنی لی کہتی ہیں ’یہ سلیکون ویلی کا منتر ہے۔ اب وہ سمجھ گئے ہیں کہ یہ طریقہ کام نہیں کرے گا۔ جب ان کی کمپنی ترقی کر رہی تھی تو وہ بہت باتیں کرتے تھے لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ اب انہیں قوانین کی پاسداری کرنا ہو گی تاکہ وہ صارفین کی حمایت کو برقرار رکھ سکیں“
◼️نیا دور نئے چیلنجز
گذشتہ چند سالوں میں بہت سی نئی سوشل میڈیا کمپنیاں مارکیٹ میں آئی ہیں، جو فیسبک کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر رہی ہیں۔ لیکن کیا فیسبک ان کمپنیوں کو شکست دے سکتا ہے؟
اس سوال پر ڈیووس میں سینٹر فار اینالیسس آف سوشل میڈیا کے ریسرچ ڈائریکٹر کارل ملر کا کہنا ہے ”سوشل میڈیا کی دنیا میں فیسبک کو دوسرے پلیٹ فارمز سے سخت چیلنج کا سامنا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ مثال کے طور پر وڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک۔ پچھلے سال اس ایپ کو زیادہ سے زیادہ بار یعنی تقریباً سات سو ملین بار ڈاؤنلوڈ کیا گیا اور یہ نوجوانوں میں بہت مقبول ہے“
تاہم ٹک ٹاک کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک چینی کمپنی کی ملکیت ہے اور کئی ممالک نے اس پر ڈیٹا پرائیویسی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے
بھارت نے اس پر پابندی عائد کی، امریکہ کی حکومت اور یونیورسٹی کیمپس سے جڑے کمپیوٹر اور موبائل فونز میں اس پر پابندی ہے۔ کئی ارکان پارلیمنٹ اس پر مکمل پابندی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ یوروپین یونین کے کئی ممالک بھی اس پر پابندی عائد کرتے جا رہے ہیں
یہ سمجھنا مشکل بھی ہے اور آسان بھی کہ ٹک ٹاک کے خلاف ان اقدامات کی بنیاد واقعی اصولی، اخلاقی اور قانونی ہے یا پھر یہ سب کچھ ٹک ٹاک کے ہاتھ باندھ کر فیسبک کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔۔ کیونکہ جہاں تک معاملہ لوگوں کے پرائیویٹ ڈیٹا کے فروخت کا ہے، تو اس پر فیسبک پر صرف جرمانہ عائد کیا گیا ، پابندی نہیں۔