ناسا نے حال ہی میں اپنی ایک ٹویٹ میں ایک نئے دریافت کیے جانے والے سیارچے کے بارے میں مبہم امکان ظاہر کیا ہے کہ یہ سنہ 2046ع میں زمین پر اثر انداز ہو سکتا ہے
سائنسدانوں نے اس سیارچے کو 2023 ڈی ڈبلیو کا نام دیا تھا۔ ان کے مطابق ”تقریباً ایک اولمپک سوئمنگ پول کے رقبے جتنا یہ سیارچہ اگر زمین سے ٹکرایا تو ممکنہ طور پر وہ سنہ 2046ع کو 14 فروری ہوگا، تاہم ناسا کے مطابق ڈی ڈبلیو 2023ع کے زمین سے ٹکرانے کا امکان 560 میں سے محض ایک فیصد، یعنی لگ بھگ نہ ہونے کے برابر ہے
ناسا کے مطابق یہ سیارچہ زمین سے قریب ترین تقریباً گیارہ لاکھ میل کے فاصلے تک آ جائے گا، تاہم محققین اب بھی اس حوالے سے مزید ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ پیشگوئی حتمی نہیں اور اس میں رد و بدل بھی ہو سکتا ہے
ناسا کی خطرے کی فہرست میں یہ واحد خلائی چٹان ہے، جو ’ٹورینو امپیکٹ ہیزرڈ اسکیل‘ پر اول درجہ پر موجود ہے
واضح رہے’ٹورینو امپیکٹ ہیزرڈ اسکیل‘ ایک ایسا پیمانہ ہے، جس سے خلا میں پائے جانے والی اشیا کے ممکنہ زمینی اثرات کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ یہ خلائی اشیا کے زمین سے ٹکرانے کے خطرے کی پیمائش کرتا ہے اور اس میں ان خطرات کی صفر سے دس تک کی درجہ بندی کی جاتی ہے
اس پیمانے کے مطابق اسکیل پر صفر کی درجہ بندی کا مطلب، اُس خلائی شے کو زمین کے لیے بے ضرر سمجھا جاتا ہے
ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری نے پیمانے پر ایک کی درجہ بندی سے متعلق وضاحت میں بتایا ”اس کا مطلب یہ ہے کہ سیارچے کا زمین سے ٹکرانے کا امکان بہت کم ہے اور اس میں زمین پر بسنے والوں کے لیے تشویش کی کوئی بات نہیں ہے“
جے پی ایل کے نیویگیشن انجینئر ڈیوڈ فارنوچیا نے خبر رساں ادارے سی این این کو بتایا ”اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں“
امریکہ کے سائنسی جریدے ’سائنٹیفک امریکن‘ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ڈی ڈبلیو 2023 زمین سے ٹکرا بھی جاتا ہے تو اس کا اثر ہر گز ویسا نہیں ہوگا، جیسا قیامت خیز 66 ملین سال پہلے زمین سے ٹکرانے والے اس سیارچے کا ہوا تھا، جس نے ڈائنوسارز کا نام و نشان مٹا دیا تھا کیونکہ اس سیارچے کی چوڑائی بارہ کلومیٹر تھی
سائنسدانوں نے اگرچہ ڈی ڈبلیو 2023 کے زمین پر اثرات کو ممکنہ طور پر بے ضرر قرار دیا ہے، تاہم اگر یہ کسی بڑے شہر یا گنجان آبادی والے علاقے کے اوپر اترا تو بھی وہاں بسنے والوں کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے
یاد رہے کہ ڈی ڈبلیو-2023 کے نصف سے بھی کم سائز کی ایک خلائی چٹان دس سال پہلے روس کے شہر چیلیابنسک میں پھٹی تھی اور اس ایک جھٹکے کی لہر نہ صرف دو سو مربع میل تک پھیل گئی تھی، بلکہ اس کی زد میں آ کر تقریباً پندرہ سو افراد زخمی ہو گئے تھے
اگرچہ اس سیارچے کا زمین سے ٹکرانے کا امکان نہ ہونے کے برابر بتایا جا رہا ہے، تاہم سائنسدان عرصہِ دراز سے زمین سے کسی بھی خلائی چٹان یا سیارچے کے تصادم ہونے کی صورت میں اس کے اثرات سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں
اسی طرح کی ایک کوشش میں گزشتہ سال اکتوبر میں ناسا نے ڈارٹ مشن (ڈبل ایسٹرائڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ) کے تحت اپنے ایک خلائی جہاز کے ذریعے ایک چھوٹے سیارچے کا راستہ کامیابی سے تبدیل کر دیا تھا
ناسا کے انجینئیر ڈیوڈ فارنوچیا نے اس تجربے کے حوالے سے کہا ”یہی وجہ ہے کہ ہم نے خلائی جہاز کے ذریعے اس مشن کو کامیابی سے مکمل کیا تھا اور ہم اس میں شاندار طریقے سے فتح یاب ہوئے۔“