بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔۔۔ عمران خان کی گھڑی اور اشرافیہ کی اوقات

ویب ڈیسک

عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ سے معزولی اور نواز لیگ کی قیادت میں کثیر الجماعتی اتحاد پی ڈی ایم کی حکومت کے قیام کے بعد توشہ خانہ سے عمران خان کی گھڑی خریدنے اور بیچنے کا معاملہ نہ صرف خبروں کی زینت بنا رہا بلکہ اب یہ معاملہ الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کے عوامی عہدے رکھنے کے حوالے سے نااہلی اور ان کے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے پر منتج ہو چکا ہے، لیکن دوسری جانب گھڑی سے شروع ہونے والے اس معاملے نے پاکستانی اشرافیہ کی اوقات بھی بتا دی ہے

گزشتہ روز سرکاری ویب سائٹ پر بیس سال کے دوران توشہ خانہ میں آنے والے تحائف کا ریکارڈ پبلک کر دیا ہے جاری کی جانے والی چار سو چھیالیس صفحات پر مبنی فہرست سے تمام ہی پاکستانی اشرافیہ کے توشہ خانے کی گنگا میں نہانے کا پتہ چلتا ہے

واضح رہے کہ 2002 سے پہلے کا ریکارڈ اس فہرست میں نہیں دکھایا گیا، جب باری باری پیپلز پارٹی اور نواز لیگ برسرِ اقتدار رہتی آئی تھیں

توشہ خانہ کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی تفصیلات کے مطابق بہت سی امیر اور بااثر حکومتی شخصیات پچھلے دو عشروں کے دوران بغیر کوئی پیسہ ادا کئے کم قیمت اشیا حاصل کرتی رہی ہیں۔ توشہ خانے سے مفت کے تحائف جاری کروانے والوں میں آصف علی زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، عارف علوی، عمران خان، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی اور جنرل پرویز مشرف بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شاہ محمود قریشی، حنا ربانی کھر، بلاول بھٹو زرداری، سرتاج عزیز، عرفان صدیقی، ثمینہ جنجوعہ، نذر محمد گوندل، سلمان فاروقی، انعام الحق اور میاں محمد سومرو بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ مفت تحائف پانے والوں میں صدر عارف علوی، پرویز مشرف اور نواز شریف کی بیگمات کا نام بھی درج ہے

حیرت انگیز طور پر فری تحائف وصول کرنے کی اس گنگا میں سابق وفاقی محتسب، ایڈیٹر جنرل پاکستان، سابق ججز، کئی فیڈرل سیکریٹری اور ان ادوار کے وفاقی وزرا بھی نہاتے نظر آتے ہیں

حتیٰ کہ توشہ خانے کی بہتی گنگا سے فیض یاب ہونے والوں میں پاکستان کے صدر، چیف ایگزیکیٹو اور وزرائے اعظم کے اسٹاف کے لوگ بھی شامل ہیں۔ سیکورٹی افیسرز، سینئر اور جونئیر کلرک، گن مین، ملٹری سیکرٹری اور پروٹوکول کے ارکان تک اس فہرست کا حصہ ہیں

فہرست کے مطابق پی ٹی وی اور اے پی پی کے لیے کام کرنے والے صحافیوں نے بھی توشہ خانے سے مفت تحائف حاصل کئے

تفصیلات کے مطابق ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، کاریں، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کتابیں، اسٹیشنری آئٹمز، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ توشہ خانے کی سرکاری لسٹ کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ با اثر سیاست دان قیمتی گاڑیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کے لیے سب سے مرغوب تحفہ گھڑیوں کا ہی رہا ہے۔ کئی کروڑ پتی اہل علم نے کتابوں، آرٹ کے نمونوں، اور ڈیکوریشن کی اشیا کو بھی بغیر کسی معاوضے کے قبول کیا ہے۔ سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے توشہ خانے سے ریوالور خریدنا پسند کیا تھا

ان کے علاوہ کچھ سربراہان مملکت و حکومت کے ساتھ جانے والے صحافی اور غیر سرکاری شخصیات بھی نے بھی تحائف وصول کیے ہیں

کابینہ ڈویژن حکام کے مطابق جن غیرسرکاری شخصیات، صدر و وزیراعظم کے اہل خانہ یا صحافیوں کے نام فہرست میں موجود ہیں ان کو سرکاری طور پر وفد کا حصہ ظاہر کیا گیا تھا

توشہ خانہ ریکارڈ کے مطابق جنرل پرویز مشرف، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، ممنون حسین، عارف علوی سمیت متعدد سرکاری افسران اور اعلیٰ حکام کی بیگمات نے بھی بیرون ملک دوروں سے ملنے والے تحائف اپنے پاس رکھے

بیگم پرویز مشرف کو 15 جبکہ بیگم شوکت عزیز کو 40 تحائف ملے جو انھوں نے اپنے پاس رکھے۔ بیگم یوسف رضا گیلانی ایک، بیگم راجہ پرویز اشرف ایک، بیگم نواز شریف 12، بیگم شاہد خاقان عباسی اور بیگم عمران خان نے چار چار تحائف حاصل کیے

بیگم ممنون حسین کو 14 جبکہ بیگم عارف علوی کو 34 تحائف ملے جن میں سے دو انھوں نے توشہ خانہ میں جمع کرا دیے، 22 اپنے پاس رکھے

یوسف رضا گیلانی کی بیگم کے علاوہ بیٹوں، بیٹی، بھتیجے، بھتیجے کی بیگم، ان کے دوست اور دوست کی بیوی نے بھی توشہ خانہ کے تحفوں پر ہاتھ صاف کیے

نواز شریف کی بیگم، بیٹی مریم نواز، بیٹے حسین نواز، شاہد خاقان عباسی کے بیٹوں اور بہو نے بھی تحائف لے اڑے

سابق صدر آصف زرداری اور سابق صدر ممنون حسین کے بیٹے اور بیٹیوں نے بھی تحفے حاصل کیے

2002 سے 2022 تک ملنے والے تحائف سے مستفید ہونے والوں میں ایک درجن کے قریب صحافی بھی شامل ہیں

صحافیوں کے علاوہ ایم کیو ایم کے بانی سربراہ الطاف حسین کا نام بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جنھوں نے غیرسرکاری شخصیت ہونے کے باوجود توشہ خانہ سے کچھ تحائف حاصل کیے، تاہم ان کی قیمت محض 8 ہزار 400 روپے بنتی تھی۔ اس لیے وہ یہ تحائف اپنے پاس رکھنے کے مجاز تھے

توشہ خانہ ریکارڈ کے مطابق بہت سی شخصیات نے جہاں قیمتی تحائف اپنے پاس رکھنا مناسب سمجھا وہیں کچھ تحائف توشہ خانہ میں جمع بھی کرائے۔ اپ لوڈ ہونے والی ویب سائٹ کے مطابق سینیئر صحافی رؤف کلاسرا نے 2010 میں ایک لاکھ 20 ہزار روپے مالیت کی گھڑی توشہ خانہ میں جمع کرا دی۔ وہ چاہتے تو 22 ہزار روپے دے کر اپنے پاس رکھ سکتے تھے

سیاسی شخصیات کے علاوہ چار ججز کے نام بھی فہرست میں شامل ہیں، جن میں جسٹس شیخ ریاض احمد جو 2002 میں قائم مقام صدر تھے، ان کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بطور چیئرمین ایبٹ آباد کمیشن اور جسٹس محمد بشیر جہانگیری وفاقی محتسب شامل ہیں

ریکارڈ کے مطابق جسٹس شیخ ریاض احمد کو 2002 میں 10 ہزار مالیت کے دو تحائف ملے جو انھوں نے قواعد کے تحت اپنے پاس رکھے۔ جسٹس محمد بشیر جہانگیری کو بھی پانچ ہزار مالیت کے دو تحفے ملے اور قواعد کے مطابق انھوں نے اپنے پاس رکھ لیے

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو دو تحفے ملے جن میں ایک انھوں نے توشہ خانہ میں جمع کرایا۔ جس کی مالیت 10 ہزار روپے تھی

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 2022 میں غیرملکی دورے کے دوران تین لاکھ 30 ہزار روپے مالیت کا ایک شو پیس ملا جو انھوں نے توشہ خانہ میں ڈیکلیئر کیا اور ریکارڈ کے مطابق اسے سپریم کورٹ میں آویزاں کر دیا گیا

کئی سیاسی مبصرین کے مطابق ریاست پاکستان کو ملنے والے بیش قیمت تحائف کو اشرافیہ کے مفاد میں بنائے گئے قوانین کے ذریعے کوڑیوں کے مول ہتھیا لیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں توشہ خانہ کے قوانین کے مطابق کم قیمت اشیا کو بغیر کسی قیمت کی ادائیگی کے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے

تجزیہ کار خالد محمود رسول کے مطابق توشہ خانہ کے قوانین اشرافیہ کے وفاداروں نے اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائے ہیں۔ ریاست کو ملنے والے قیمتی تحائف کو یوں کم قیمتوں پر صرف اشرافیہ کی ملکیت بنا دینا بہت نا انصافی کی بات ہے

ممتاز دانشور قیوم نظامی کہتے ہیں کہ توشہ خانے کی منظر عام پر آنے والی فہرست نے پاکستانی قوم کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ کہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں تمام بڑی جماعتوں اور اداروں کے لوگ موجود ہیں اور کسی نے بھی یہ فائدہ اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے اس نا انصافی کے خلاف مزاحمت نہیں کی۔ ان کے بقول لیڈروں کی کرپشن سے بے زار پاکستانی قوم کا توشہ خانے کی اس فہرست سے ملکی نظام پر سے اعتماد متزلزل ہوا ہے اور اس تاثر کو تقویت مل ہے کہ یہاں ’چیک اینڈ بیلنس‘ کا نظام درست کام نہیں کر رہا ہے۔ ان کے مطابق ان اشیا کی کھلی نیلامی کرکے حاصل ہونے والی رقم کو بہبود کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا

انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ صحافی احمد فراز خان کا کہنا ہے کہ ان کو توشہ خانے کی یہ فہرست دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ بقول ان کے اشرافیہ کے لیے سارا پاکستان ہی توشہ خانہ ہے اور وہ پچھلے پچھتر سالوں سے ملک اور ملکی وسائل کو بھی توشہ خانے کی طرح ہی استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے بقول اشرافیہ کے لیے ہی اشرافیہ قانون سازی کرتی ہے پاکستان عوام ان کی بڑی ترجیح نہیں ہیں

احمد فراز کو یقین ہے کہ یہ صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔ ایک تو عوام میں ابھی اس صورتحال کی تبدیلی کے لیے اتفاق رائے نہیں ہے، دوسرا اشرافیہ پر ہاتھ اس لیے بھی نہیں ڈالا جا سکتا کہ پارٹی اختلافات کے باوجود یہ سب اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں

معروف کالم نگار رؤف کلاسرا کچھ عرصہ قبل ’توشہ خانے کے ڈاکے‘ کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ میں کئی برسوں سے توشہ خانے پر خبریں اور اسکینڈل فائل کر رہا ہوں۔ یہ لیگل کرپشن کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ دنیا بھر کے سیر سپاٹوں کے دوران ہمارے حکمرانوں، بیوروکریٹس یا ان کے ساتھ دورے پر گئے لوگوں کو گفٹ ملتے ہیں۔ انہی حکمرانوں نے قانون بنایا ہے کہ وہ اس گفٹ کا دس فیصد دے کر گھرلے جا سکتے ہیں۔ مطلب آپ کو ایک کروڑ روپے کا تحفہ ملا تو دس لاکھ روپے دے کر باقی نوے لاکھ گھر لے جائیں۔ اس قانونی لوٹ مار سے پرویز مشرف‘ نواز شریف‘ زرداری اورشوکت عزیز نے سب سے زیادہ فائدہ اُٹھایا۔ پرویز مشرف نے تو 2004ء کے بعد یہ رپورٹ کرنا ہی بند کر دیا تھا کہ انہیں کس ملک سے کیا تحائف ملے ہیں۔ شوکت عزیز گیارہ سو سے زائد تحائف جن کی مالیت کروڑوں روپے بنتی تھی اپنے ساتھ بکسوں میں بھر کر لندن لے گئے۔ زرداری صاحب کو بطور صدر پاکستان 14 کروڑ مالیت سے زائد کے تحائف ملے۔ انہوں نے صرف دو کروڑ 10 لاکھ روپے ادائیگی کی اور تحفوں میں ملنے والی تین قیمتی گاڑیاں بھی لے گئے۔ 2009ء میں یو اے ای کے صدر کی جانب سے تحفے میں دو قیمتی گاڑیا ں ملی تھیں، بی ایم ڈبلیو اور ٹویوٹاLexus، جن کی مجموعی مالیت 10 کروڑ 78 لاکھ روپے بنتی ہے۔ سابق صدر دونوں گاڑیاں صرف ایک کروڑ 61 لاکھ روپے میں لے گئے۔ 2009ء میں معمر قذافی کی طرف سے تحفے میں دو کروڑ 73 لاکھ روپے کی بی ایم ڈبلیو ملی۔ معمر قذافی سے تحفہ میں ملنے والی وہ گاڑی آصف زرداری صرف 41 لاکھ روپے میں جبکہ مختلف ممالک سے ملنے والے 120 تحائف مفت لے گئے۔ 1997ء سے 1999ء تک کے دورِ حکومت میں نواز شریف توشہ خانے سے 67 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے تحائف صرف نو لاکھ روپے میں اپنے ساتھ لے گئے۔ قیمتی تحائف کے علاوہ جلا وطنی کے بعد انہیں سعودی عرب سے مرسڈیز گاڑی بھی ملی تھی۔ نواز شریف ساڑھے 42 لاکھ روپے مالیت کی یہ مرسڈیز چھ لاکھ 36 ہزار روپے میں لے گئے۔ مرسڈیز 67 لاکھ روپے کے تحائف میں شامل نہیں تھی۔ 1997ء میں ترکمانستانی وفد کی جانب سے کارپٹ کا تحفہ دیا گیا۔ نواز شریف تحفے میں ملنے والا یہ کارپٹ صرف 50 روپے ادائیگی کر کے لے گئے۔ 1997ء میں قطر کے ولی عہد کی جانب سے بریف کیس تحفہ میں ملا، نواز شریف یہ بریف کیس صرف 875 روپے ادا کر کے لے گئے۔ نواز شریف 1999ء میں سعودی حکومت سے تحفے میں ملنے والی ایک لاکھ 5 ہزار روپے کی ایم پی رائفل سوا 14ہزار روپے کی ادائیگی کے بعد اپنے ساتھ لے گئے‘ جبکہ ابو ظہبی کے حکمران کی جانب سے نواز شریف اور کلثوم نواز کو گھڑیاں تحفے میں ملی تھیں، نواز شریف تین لاکھ روپے مالیت کی گھڑی سوا 45 ہزار روپے ادا کر کے لے گئے۔ پرویز مشرف پونے چار کروڑ روپے مالیت کے تحائف صرف 55 لاکھ روپے میں لے گئے۔ سعودی عرب نے2007ء میں پرویز مشرف کی اہلیہ صہبا مشرف کو جیولری سیٹ‘ نیکلس اور بریسلٹ تحفے میں دیئے۔ اس جیولری کی مالیت ایک کروڑ 52لاکھ روپے تھی۔ پرویز مشرف مذکورہ جیولری صرف سوا 22 لاکھ روپے ادا کر کے لے گئے۔ سعودی حکومت کی جانب سے 2007ء میں صہبا مشرف کو ساڑھے 37لاکھ روپے مالیت کا جیولری سیٹ کا تحفہ دیا گیا‘ پرویز مشرف یہ تحفہ صرف پانچ لاکھ 60 ہزار روپے ادا کر کے لے گئے ۔ یواے ای کی جانب سے پونے 13 لاکھ روپے مالیت کا جیولری سیٹ کا تحفہ دیا گیا‘ جو پرویز مشرف سوا دو لاکھ روپے میں لے گئے۔ ترکمانستان کے صدر کی طرف سے تحفے میں ملنے والی پاکٹ واچ اور کارپٹ ‘آرٹ میوزیم آف شکاگو کی جانب سے ملنے والا سکارف‘ امریکی صدر کی جانب سے ملنے والا لیدر بیگ ‘ بنگلہ دیشی وزیر اعظم کی جانب سے بیگم صہبا مشرف کو ملنے والا نیکلس اور ساڑھی پرویز مشرف مفت میں لے گئے‘ جبکہ امریکہ کے سیکرٹری دفاع رمز فیلڈ کی جانب سے پرویز مشرف کو جو پستول تحفے میں دیا گیا مشرف وہ صرف سوا نو ہزار روپے میں اپنے اپنے ساتھ لے گئے اور ایک پستول امیر مقام کو بھی تحفے میں دیا ۔
اسی طرح شوکت عزیز25 کروڑ مالیت کے 1100 تحائف توشہ خانے سے صرف ڈھائی کروڑ میں لے اُڑے اور اپنی آٹو بائیو گرافی میں فرشتہ بھی بن گئے ۔ شوکت عزیز کی لندن‘ دبئی اور امریکہ میں رہائش گاہیں پاکستانی توشہ خانے کے تحائف سے سجی ہوئی ہیں۔ شوکت عزیز نے تو بنیان‘ جرابیں اور انڈروئیر تک نہیں چھوڑے۔ گورنر نیپال سے ملنے والے سکارف کی قیمت شوکت عزیز کی خاطر صرف 25 روپے لگائی گئی۔ شہزادہ چارلس کی جانب سے ملنے والا جیولری باکس شوکت عزیز نے صرف دو ہزار روپے میں لے لیا ۔ ٹونی بلیئر کی اہلیہ کیجانب سے ملنے والا ہینڈ بیگ شوکت عزیز صرف 300 روپے میں لے گئے۔ چینی وزیر اعظم کی جانب سے ملنے والے پانڈے کو صرف 15سو روپے میں اپنا بنا لیا۔ شوکت عزیز توشہ خانے سے ایک درجن نیکلس‘ طلائی سکے‘ موتی اور تاج بھی ہمراہ لے گئے۔ شوکت عزیز توشہ خانے سے ہیرے‘ رولیکس گھڑیاں‘ بریسلٹس‘ قالین اور چینی پانڈے بھی ساتھ لے گئے۔چین سے ملنے والے جیولری باکس کو شوکت عزیز صرف ساڑھے چھ ہزار روپے میں ساتھ لے گئے۔شوکت عزیز نے بنگلہ دیشی وزیر اعظم سے تحفے میں ملنے والا موتیوں کا ہار پانچ ہزار روپے میں رکھ لیا۔سری لنکن وزیر اعظم کی طرف سے ملنے والے نیکلس کی قیمت شوکت عزیز کیلئے صرف پانچ ہزار روپے اور بحرین کے ولی عہد کی طرف سے دی گئی تلوار کی قیمت شوکت عزیز کیلئے صرف نو ہزار روپے لگائی گئی

2017 ء میں سینیٹر کلثوم پروین نے کابینہ ڈویژن سے نواز شریف کے بیرونی دوروں میں ملنے والے تحائف کی تفصیلات مانگیں تو بیوروکریسی نے تفصیلات دینے سے انکار کر دیا ۔ تب پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد اور اُس وقت کے کابینہ سیکرٹری نے تحائف کی تفصیلات چھپانے کے لئے تاریخ میں پہلی دفعہ پارلیمنٹ کو یہ تفصیلات دینے سے انکار کیا کہ یہ قومی راز ہے، یوں توشہ خانے کو نیشنل سکیورٹی کا معاملہ قرار دے کو قوم کو یہ نہیں پتہ چلنے دیا گیا کہ نواز شریف‘ ان کے وزرا اور دوروں پر ساتھ جانے والوں کو کیا کچھ ملتا رہا اور وہ کیا کچھ توشہ خانے میں جمع کرواتے یا گھر لے جاتے رہے۔ سینیٹ کو بتایا گیا کہ اگر نواز شریف کو ملنے والے ان تحائف کی تفصیلات قوم کے ساتھ شیئرکی گئیں توقومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close