یورپ کے متوالے پاکستانیوں کے نام کھلا خط

ڈاکٹر عرفان مجید راجہ

دو ہفتے ہوئے کہ کچھ تصاویر موصول ہوئیں، جن میں مردہ جوان تھے، منہ سے جھاگ نکلی رہی تھی، بال بکھرے ہوئے اور جسم سیاہ ہوتے ہوئے

دن کے وقت سوشل میڈیا پر ماتم بپا تھا۔ ہمارے جی میں آیا کہ میڈم نورجہاں کی قبر پر جا کر ان سے پوچھا جائے کہ یہ ہیں وہ بیٹے جو دکانوں پر بکنے نکلے تھے، جن کے پاس پاسپورٹ اور عربی میں بنے اقامے موجود تھے مگر وہ یورپی بننے اس راستے پہ چلے تھے جہاں موج و منجدھار نے اپنے پرائے میں آج تک فرق نہیں کیا

جی میں آیا کہ ان میں سے ایک کو جگا کر بتایا جائے کہ تیرے لیے تیرے باپ نے پچیس، تیس، پچاس یا ساٹھ لاکھ بھر دیا اور تو نے خود کو سمندر کی حوالے کر دیا

اب تیرا والد سر میں خاک ڈالے گا، تیرا ماتم کرے گا اور وہ قرض اتارے گا، جو تیرے لیے اس نے صرف اس لیے لیا کہ تجھے یورپی بننا تھا

جی میں آیا کہ ان میں سے ایک کو بتایا جائے کہ یورپ وہ جنت نہیں، جس کے تمہیں خواب دکھائے جاتے ہیں

یہاں پہلے تو آنا جان جوکھم میں ڈالنا ہے، اگر بچ بچا کر پہنچ بھی گئے تو تمہیں کم از تین سال غیر قانونی رہنا پڑے گا اور کسی دکان پرچار گھنٹے کے کنٹرکٹ پہ تیرا اپنا کوئی پاکستانی بھائی ہی تیری کھال کے نیچے چربی تک پگھلا دے گا

چار گھنٹے کام کے لالی پاپ پر جب تو 14 گھنٹے بعد کام سے نکلا کرے گا تو تجھ پہ کھلے گا کہ اس نے جو تیرے نرخ طے کیے تھے تجھے وہ بھی پورے نہیں ملے

یوں تجھ پر جب کئی مہینے بیت جائیں گے تو تو حقیقت جان جائے گا کہ مگر تیرے پاس کوئی راستہ نہیں ہوگا

خدا خدا کر کے تین سال پورے کرنے کے بعد تو دس بار پندرہ ہزار یوروز جمع کرے گا جس کا اکثر مانگے تانگے کا ہو گا کہ تیرے مغربی پاکستانی مالک نے تجھے جو رزق دیا اس سے تو پیٹ بھر سکتا تھا یا کسی چھڑوں (خاندان کے بغیر، کنوارے، جان اور ادھیڑ عمر مل کر رہنے والے) کے اپارٹمنٹ میں کرایہ دے سکتا تھا

وہی فلیٹ، جہاں تین کمروں میں چھ سات یا دس دوسرے چھڑوں کے ساتھ صرف اس لیے رہے گا کہ تجھے کاغذ بنوانے تک بہر حال زندہ رہنا ہے

حد ہو گئی تو تجھے کسی دور دراز گاؤں میں سبزیاں بونے اور پھل توڑنے کے لیے سخت سردی یا جان لیوا گرمی میں کام کرنا پڑے گا

کام جتنا مشکل ہوگا، وہ تو نے کرنا ہی ہے کہ تیرے ساتھ پیچھے سات آٹھ مشرقی جانیں بھی جڑی ہیں جو تجھے سونے نہیں دیں گی

تیری قسمت یاوری کرے گہ تو کسی یورپی پاکستانی کی تعمیراتی کمپنی میں مزدور بھرتی کر لیا جائے گا مگر تیرا استحصال ہر جگہ ہوتا رہے گا کہ تیرے اصل مالکوں اور تیرے درمیان یورپ میں مقیم پاکستانی تیرے بھائی بند واسطہ ہیں

جی میں آیا کہ اسے بتایا جائے کہ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں ہر شے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں

مکان میں رہنے کی رجسٹریشن سے لے کر معمولی سی درخواست کے لیے رقم دینا پڑے گی

تین سال دھکے اور استحصال برداشت کر کے جب تو اِس قابل ہو گا کہ قانونی طور پر خود کو منوا سکے تو تیرسے سامنے اپنا ہی کوئی پاکستانی بھائی کھڑا ہو گا جو تجھے کام کا کانٹریکٹ دے گا اور اس کے عوض تجھ سے دس بارہ ہزار مزید یوروز اینٹھ لے گا

پچیس، تیس، پچاس لاکھ روپے دے کر آنے والے بچے، دیکھ آج کا ریٹ دیکھ، پاکستان میں 12 ہزار یوروز کا مطلب 34 لاکھ روپے ہے

یعنی تو اگر یہاں پہنچ گیا ہوتا تو تمام مصائب، دھکوں اور ٹھڈوں کے ساتھ تین سال میں اپنے والدین کو 60 لاکھ سے ایک کروڑ میں پڑ چکا ہوتا جو ابھی تک زیادہ تر قرضہ ہی ہوتا اور یہ قرض تجھے ان موسموں میں اتارنا ہے جن کی تجھ سمیت کسی کو خبر نہیں کیسے تند ہوں گے اور کاغذات بن جانے کے بعد وہ تجھ پر گزریں گے

تین سال میں اِسی ایک کروڑ کا آدھا ہی وطن میں لگایا ہوتا تو تیری حالت پتلی ہوتی، نہ تجھ پہ بھوک بیتی ہوتی نہ تو افلاس کا رزق ہوا ہوتا، ایک سے دوسرے ملک در بدر ہوا ہوتا، نہ کسی سرحد کو پار کرتے تجھے گولی کی فکر ہوتی

تو سمندروں کے کنارے پھول بیچتا، نہ شراب کے ٹِن۔۔ تو نے زندگی کے وہ مہ و سال جو سمندر کا لطف لینے کے تھے، وہ پھولوں کو سوکھنے سے بچانے اور ٹِن بیچنے میں گزار دیے

سینٹ سینٹ بچا کر تو نے جو پیسہ جمع کیا وہ کاغذات بنوانے کے بہانے کوئی اور لے گیا

ان میں سے وہ جِس کے لبوں پر جھاگ جمع ہے وہ آنکھیں نیم وا کرے تو اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر کر بتایا جائے کہ تو کن کاذب اور بھیڑیوں کی باتوں میں آ گیا

وہ جنہیں ایک ہاتھ میں نیا موبائل اور دوسرے میں سگریٹ پکڑے لش پش تو اپنی گلی کوچوں میں دیکھتا تھا، چھوٹے اور جھوٹے لوگ تھے

ان میں سے اکثر کا پیسہ تجھ جیسے بیسیوں کا استحصال کر کے کمایا ہوا ہے

یہ کروفر تجھ جیسے کئی جوانوں کے ماتھے کا پسینہ پی کر اپنے اوپر طاری کیا گیا ہے

اِن کے پاس اتنی دولت نہیں جتنی یہ تجھے بتاتے ہیں، اِن کے جسم سے آنی والی خوشبو سے تو دھوکہ کھا گیا

گھر سے نکلنے سے پہلے پوچھتا تو تجھے بتاتے کہ اِن میں سے اکثر کے جسم پر خوشبو تک چوری کی ہوتی ہے

یہ اپنی زندگیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے دھوکہ باز ہیں

یہ تیری آنکھوں میں وہ خواب بھرتے ہیں جو انہوں نے خود دیکھے اور چالیس چالیس سال بعد وہ خواب ہی پورے ہوئے، اِن کے پیٹ بھرے نہ ہی آنکھیں

جی میں آیا کہ ان میں سے ایک کو بتا جائے کہ دبئی سے لیبیا اور وہاں سے اٹلی جانے کے خواب دیکھنا چھوڑو اور واپس لوٹ جاؤ۔۔

جو ہے، جہاں ہے جیسی ہے، اپنی مٹی میں محنت کرو اوروہاں ہی پلو، بڑھو، پڑھو، جوان ہو، نکاح کرو، نوکری، کاروبار اور تجارت کرو

یقین کرو ہر مغربی کوتدفین کی خواہش پاکستان میں ہے جِس کی میت کو غسل دے کر یہاں سے روانہ کیا جاتا ہے تو اس سے پہلے قانونی ضابطے ہیں اور جب وہ مختلف جہازوں اور واسطوں سے ہوتی وطن پہنچتی ہے تو دوبارہ غسل دینے والی ہو چکی ہوتی ہے

کیا تم نے وہ شخص دیکھا ہے، جس کا کفن کھول کر دوبارہ غسل دیا گیا ہو؟ باکس کھول کر سونگھے کون، میاں؟ بس جیسا ہوتا ہے، ویسا دفنا دیا جاتا ہے

ایسی موت سے بچو! ہو سکے تو اپنے گھر کے قریب اپنا جہان پیدا کرو، وہاں جہاں تمہاری نال گاڑھی گئی

ہو سکے تو گھر کے قریب رہو، اور دور جانا ہی پڑے تو اتنا دور نہیں کہ قرض اٹھا کر جان گنوانی پڑے

ہماری طرف دیکھنا بند کرو، ہمیں تو یہاں آنکھ بھر کے کوئی نہیں دیکھتا اور پہنچ جاتے ہیں تمہیں آنکھیں دکھانے

ہم سے مرعوب ہونا چھوڑ دو، ہماری افسریاں وطن سے آئے کلرک کے آگے بچھتی ہیں، ہمارے بڑے بڑے سٹورز سے شاندار چوک جہلم میں چاٹ والا بہتر ہے، وہ بن جاؤ

ہماری باتوں پہ یقین نہیں تو ہسپانیہ، اٹالیہ اور یونان کے اردو سوشل میڈیا پیجز کا ایک چکر لگاؤ، سب دھندا ہے، میاں۔ مسائل میں کمر اور گلے تک دھنسے ہوئے ہجوم کا واویلا ہے بھائی، جس پہ کرونا کی افتاد پڑی تو یہ ہر حالت میں وطنِ عزیز پہنچنا چاہتا تھا۔ وجہ ہم سے بہتر کون بتا سکتا ہے؟

ڈر، موت کا ڈر، تدفین کی خواہش اور وطن میں دفن ہونے کی جستجو۔۔۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close