ہم جانتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں جب باغ میں جا کر واپس آتی ہیں تو چھتے کے پاس 8 کی شکل میں رقص کرتی ہیں، جس سے وہ رس سے بھرے پھول کی نشاندہی کرتی ہے۔
تاہم یہ عمل صرف اسی مقصد تک محدود نہیں، کیونکہ بچہ مکھیاں ڈانس کا یہ عمل اپنے بڑی بوڑھی مکھیوں سے سیکھتی ہیں
ایک تازہ تحقیق کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھیاں اپنے چھتے کی بزرگ ساتھیوں کی بہترین خوراک تلاش کرنے میں مدد کرنے کے لیے ان سے ناچنا سیکھتی ہیں
’ویگل ڈانس‘ یا مکھیوں کا رقص پیچیدہ مواصلات کی ایک شکل ہے، جسے وہ سیکھتی اور اپناتی ہیں، جو ان کے لیے بہت کام آتا ہے۔ اس سے وہ نہ صرف پھولوں کا رخ، فاصلہ اور دیگر تفصیلات ظاہر کرتی ہیں بلکہ رس کے لذیذ ہونے کی اطلاع بھی دیتی ہیں
شہد کی مکھیاں یہ رقص اپنے جسم کو حرکت دیتے ہوئے انتہائی تیز رفتاری سے انجام دیتی ہیں، کیونکہ ہر مکھی ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں جسم کی لمبائی کو حرکت دیتی ہے۔ یہ حرکات کھانے کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرتی ہیں، بشمول سمت، فاصلے، قسم اور کھانے کا معیار
’سائنس‘ نامی جرنل میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مکھیوں کے بارے میں عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ وہ پیدائشی طور پر رقص جانتی ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ بچہ مکھیاں پہلے شہد کی بڑی مکھیوں کو دیکھ کر ناچ کے ہنر سیکھتی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ اس مشترکہ علم کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنا ’ثقافت کی پہچان‘ ہے – ایک ایسا رویہ، جسے انسانوں میں اچھی طرح سے پہچانا جاتا ہے لیکن جانوروں میں بھی دیکھا جاتا ہے
کیلیفورنیا یونیورسٹی سان ڈیاگو کے پروفیسر جیمز سی نائہی اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ غلطیوں سے بچنے کے لیے نئی مکھیاں اپنے بڑوں سے سیکھتی ہیں۔ عموماً سماجی طور پر سیکھنے کا یہ عمل بڑے دماغ والے جانوروں مثلاً بندروں اور پرندوں میں دیکھا جاسکتا ہے، اگرچہ مکھیوں کا دماغ چھوٹا ہوتا ہے لیکن ساتھ مل کر وہ غیرمعمولی کام انجام دیتی ہیں۔ جن میں رقص جیسا پیچیدہ عمل بھی شامل ہے
سائنسدانوں نے یورپی شہد کی مکھیوں کی دس کالونیوں یا چھتوں کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ چھتے میں بڑی عمر کی مکھیاں ناچ رہی ہیں اور چھوٹی مکھیاں انہیں دیکھ رہی ہیں۔ کبھی وہ آگے اور پیچھے حرکت کرتی ہیں تو کبھی چلتے ہوئے 8 کا ہندسہ بناتی ہیں۔ اس سے وہ بتاتی ہیں کہ کس رخ پر اڑنا ہے، جبکہ دائرے کی گنتی سے ظاہر ہوتا ہے کہ رس کا ذخیرہ کتنی دور ہے
شہد کی مکھیوں کی کالونیوں کی نگرانی اس وقت تک کی جاتی رہی، جب تک کہ نوجوان شہد کی مکھیوں نے اپنے پہلے ’ویگل ڈانس‘ میں حصہ نہیں لیا۔ محققین نے پھر بیس دن بعد انہی شہد کی مکھیوں کا مشاہدہ کیا، دریافت کیا کہ ان کا رقص کہیں زیادہ درست تھا اور اس میں ان کی ابتدائی کوششوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم غلطیاں تھیں
ماہرین نے دیکھا کہ دس روز کی عمر والی شہد کی مکھیاں بڑی مکھیوں سے رقص سیکھتی ہیں اور اس کے بعد خود رقص کی ماہر بن جاتی ہیں
اس رجحان کا موازنہ انسانوں میں زبان کی نشوونما سے کیا گیا ہے، جہاں مکمل نشوونما کے لیے ابتدائی نمائش ضروری ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو میں ماحولیات، رویے اور ارتقاء کے پروفیسر جیمز نائیہی نے کہا ”ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہماری طرح جانور بھی اپنی بقا کے لیے اہم معلومات کمیونٹیز اور خاندانوں کے ذریعے منتقل کر سکتے ہیں
ہماری نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اب ہم کیڑوں کو شامل کرنے کے لیے اس طرح کی سماجی تعلیم کو بڑھا سکتے ہیں۔“
یہ دریافت اس وقت سامنے آئی جب لندن میں محققین کو شہد کی مکھیوں کی ایک اور نسل ملی ہے، بومبلبی، جو اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر پہیلیاں حل کرنا سیکھتی ہے
شہد کی مکھیوں کے مطالعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے، لندن کی کوئین میری یونیورسٹی میں حسی اور طرز عمل کے ماحولیات کے پروفیسر لارس چٹکا نے کہا: "ویگل ڈانس کو جانوروں کے رابطے کی سب سے قابل ذکر اختراعات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے – ایک کیڑے کی علامتی زبان
”لیکن اسے پہلے ‘صرف فطری عمل’ کے طور سمجھ کر مسترد کر دیا گیا تھا – اور اس وجہ سے بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ اتنا متاثر کن نہیں تھا“
پروفیسر چٹکا نے مزید کہا: ”یہ دریافت کہ – کم از کم جزوی طور پر – اس طرز عمل کو سیکھنا ضروری ہے ایک مکمل طور پر نیا نقطہ نظر واضح کرتا ہے: کہ شاید رقص کی زبان اپنی ابتدائی ارتقائی جڑوں میں، انفرادی اختراعات پر مبنی تھی جو پہلے سماجی تعلیم کے ذریعے پھیلی تھی۔ ، بعد میں جزوی طور پر سخت وائرڈ، زیادہ فطری معمولات میں شامل کیا جائے گیا۔“