مسلم لیگ ن، تحریک انصاف پر پابندی کا مطالبہ کیوں کر رہی ہے؟

ویب ڈیسک

پاکستان کا سیاسی اکھاڑہ نت نئے موضوعات جنم دے رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے گذشتہ چند روز سے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کی باتیں ہو رہی ہیں

مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائز مریم نواز نے حال ہی میں پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح مسلم لیگ ن کے دیگر راہنما بھی اس سے ملتی جلتی باتیں کر رہے ہیں

مریم نواز نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ دہشتگردوں جیسا سلوک ہونا چاہیے

اس تاثر کو مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے گزشتہ دنوں ایک وڈیو بھی ٹویٹ کی۔ پی ٹی آئی پر تنقید کے غرض سے ٹویٹ کی گئی وڈیو کے ساتھ مریم نواز نے لکھا کہ ’زمانت پارک (زمان پارک) میں دہشت گردوں کے ستائے ہوئے لوگ۔۔ گیدڑ کی بزدلی کی قیمت بیچارے عوام کو چکانی پڑ رہی ہے۔‘

مریم نواز کی جانب سے شیئر کی جانے والی وڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ عمران خان کے گھر زمان پارک کے اطراف میں رہائش پذیر دو خواتین کی ایک رپورٹر سے بات چیت کی ہے، جو کہ وہاں پولیس کے آپریشن کے بعد بنائی گئی تھی

لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں خواتین زمان پارک کی نہیں، بلکہ اس سے متصل دھرم پورہ میں میاں میر کالونی کی رہائشی ہیں اور ان کا براہراست زمان پارک سے کوئی تعلق نہیں ہے

‏میاں میر کالونی میاں میر دربار کی وجہ سے جانی جاتی ہے اور وڈیو میں بات کرنے والی ایک خاتون ن لیگ کی جانب سے یونین کونسل ممبر کا الیکشن بھی لڑ چکی ہیں

لیکن ایک اور وجہ سے بھی اس وڈیو کے حوالے سے نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز پر سوشل میڈیا پر تنقید کی جا رہی ہے

وڈیو میں نظر نہ آنے والے رپورٹر نے خواتین سے پوچھا ’کس قسم کے لوگ دیکھے آپ نے جو یہاں آئے ہوئے تھے؟‘ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک خاتون نہیں کہا ’جتنے بھی ہمارے دروازے سے گزرتے تھے وہ سب پشتو بولنے والے تھے۔‘ اسی سوال کے جواب میں دوسری خاتون نے کہا ’پٹھان تھے۔ مجھے تو طالبان سے لگتے تھے‘

مریم نواز کی جانب سے یہ وڈیو شیئر کرنے پر لوگ ان پر پختون قوم کے خلاف ’تعصب‘ برتنے کا الزام لگا رہے ہیں

صحافی و کالم نویس عفت حسن رضوی نے لکھا کہ ’ایک خاتون جو کہ خود پاکستان کی وزارت اعظمیٰ کی امیدواروں میں سے ایک ہیں وہ پشتونوں کے خلاف نسلی تعصب میں ملوث ہیں۔‘

حکومت کے اتحادی اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ نے ن لیگ کی رہنما پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ’نہایت افسوس کی بات ہے کہ مریم نواز اس قسم کے تعصب کو فروغ دے رہی ہیں۔ جن قوتوں نے عمران خان اور طالبان کو مسلط کیا ہے ان کی قومیت کے بارے میں کیا کہنا چاہیے؟‘

دوسری جانب گزشتہ روز اسی مطالبے کو تقویت دینے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے خلاف بیرون ملک مہم کو ’غلیظ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور بیرون ملک پاکستانیوں سے حصہ نہ بننے کا مطالبہ کر دیا

وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ’وزیر اعظم شہباز شریف نے فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف بیرون ملک غلیظ مہم کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ آرمی چیف کے خلاف مہم ناقابلِ برداشت اور اداروں کے خلاف سازش کا تسلسل ہے‘

بیان میں کہا گیا ’بیرون ملک محب وطن پاکستانی فارن فنڈڈ مہم کے خلاف آواز بلند کریں، زہریلی سیاست کو بیرون ملک پاکستانیوں کے ذریعے پھیلا رہے ہیں، بیرون ملک پاکستانی اس سازش کا حصہ نہ بنیں‘

وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ’عمران خان اداروں اور ان کے سربراہان کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹ کر آئین شکنی کر رہے ہیں، وزیر داخلہ ملک کے اندر اداروں کے خلاف غلیظ مہم چلانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں افراتفری، فساد اور بغاوت کو ہوا دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے، تاریخ میں پہلی بار میرٹ پر لگنے والے آرمی چیف کے خلاف مہم ملک دشمنوں کا ایجنڈا ہی ہو سکتا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’قوم اپنے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے اور شرپسندوں کے خلاف متحد ہے‘

بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ ’پی ٹی آئی، عمران نیازی کی ایما پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رہی ہے، جو پرزور مذمت کے قابل ہے‘

وزیراعظم کے دفتر سے یہ بیان امریکا میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے ایک روز قبل وائٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کے بعد آیا ہے۔ امریکا میں احتجاج میں شامل پی ٹی آئی کے حامی اسٹیبلشمنٹ سے سول بالادستی کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ احتجاج میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ عمران خان کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کرے

واضح رہے کہ اس وقت حکومت عمران خان پر سو کے قریب مقدمات درج کروا چکی ہے۔ تین روز قبل جب عمران خان عدالت میں حاضری کے لیے روانہ ہوئے تو ان کے گھر پر پولیس نے دھاوا بول دیا اور گھر کا داخلی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئی۔ ساٹھ سے زائد پی ٹی آئی کارکنوں کو گرفتار کءا گیا اور بعد ازاں اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ بھی کیا۔ لیکن سوشل میڈیا پر اس کی سامنے آنے والی وڈیوز میں ایک مضحکہ خیز رخ دیکھنے میں آیا

وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار عمران خان کے گھر سے پنکھے، صوفے چاول کی بوریاں، جوس کے ڈھبے تک اٹھا کر پولیس کی گاڑیوں میں لاد رہے ہیں

عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مزاحمت کے بعد ن لیگ کے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے مطالبے میں شدت آئی ہے

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک سیاسی جماعت کو دوسری سیاسی جماعت پر پابندی کا مطالبہ کرنا چاہیے؟ غیر جانبدار سیاسی مبصرین اس مطالبے کو کسی صورت جائز نہیں سمجھتے

سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں ”کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی ایک ناقابل عمل بات ہے۔ تحریکِ انصاف پر پابندی کا مطالبہ جھنجھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔ سیاسی حملے کا جواب سیاسی ہی ہونا چاہیے آپ کسی کو اکھاڑے سے باہر نہیں کر سکتے۔ اگر آپ کی مخالف سیاسی جماعت نے آپ کے ناک میں دم کر رکھا ہے تو اس کے مقابلے میں آپ کو اپنی حکمت عملی بہتر کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ پابندی لگانے کا مطالبہ کرنا چاہیے“

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”فرض کیا پابندی لگا بھی دی جائے تو کیا اس سے تحریک انصاف ختم ہو جائے گی؟ جب ذوالفقار علی بھٹو نے نعپ (نیشنل عوامی پارٹی) پر پابندی لگائی تو اس کے بعد اسی جماعت نے اے این پی کے نام سے اپنی شناخت بنا لی۔ اور پھر ایک وہ دور بھی آیا جب انہوں نے اسی اے این پی نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر خیبرپختونخواہ میں حکومت بنائی اور اب بھی وفاقی حکومت کا حصہ ہے“

مجیب الرحمن شامی کی رائے میں سیاسی جماعت پر پابندی ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی سپریم کورٹ نے اس پابندی کو اڑا دیا تھا۔ تو اب بھی حکومت کوئی ایسا طریقہ اختیار کرتی ہے تو، بقول ان کے، سپریم کورٹ ایسا نہیں ہونے دے گی

پاکستان میں جمہوری عمل پر نظر رکھنے والے نجی ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ کسی بھی جماعت کو سیاسی عمل سے باہر کرنے سے جمہوری عمل کو ٹھیس پہنچتی ہے

احمد بلال کہتے ہیں ”سیاست کرنا اور سیاسی جماعت بنانا اس کی گارنٹی آئین دیتا ہے اور یہ بنیادی حق ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے ایسی سیاست کو فروغ دیا گیا ہے جس نے عدم برداشت پیدا کی ہے اس کے نتیجے میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگنا بھی عدم برداشت کی واضح مثال ہوگا“

مبصرین کے مطابق مسلم لیگ ن کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کی باتیں تو ہو رہی ہیں۔ کل کلاں اگر تحریک انصاف کی حکومت آتی ہے تو پھر اسی طرح کی صورت حال کا سامنا خود مسلم لیگ ن کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کو اکھاڑے سے باہر نکالنے کی سیاست کو رواج نہیں دینا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close