ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پانی زندگی ہے کیونکہ یہ اس حیاتِ کارواں کا بنیادی جزو ہے۔ انسانی جسم 70 فیصد پانی پر مشتمل ہے اور اس میں کمی سے صحت کے حوالے سے کئی مسائل پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ انسان کو اسی وقت ہوتا ہے جب اسے کافی دیر تک پانی میسر نہ آئے۔ پانی کی کمی کا نتیجہ تھکاوٹ اور الجھن کے ساتھ ساتھ پریشانی کا باعث بھی بن سکتا ہے
ماہرین کے مطابق مَردوں کو روزانہ 3.7 لیٹر پانی کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ خواتین کو یومیہ 2.7 لیٹر پانی لینا لازمی ہے۔
عام طور پر پانی کی آٹھ فیصد ضروریات سیال اشیا اور مختلف کھانوں سے پوری ہو جاتی ہیں
سعودی عرب کے الرجل میگزین نے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ رمضان میں طویل روزے کے دوران انسان پانی کی بڑی مقدار گنوا بیٹھتا ہے
خاص طور پر گرم علاقوں میں پانی کی زیادہ مقدار انسانی جسم سے نکل جاتی ہے۔ اسی لیے افطار کے بعد پانی کی گنوائی جانے والی مقدار کی تلافی کرنا پڑتی ہے تاکہ انسانی جسم کو سیال مادے کی جتنی ضرورت ہوتی ہے، وہ پوری ہو سکے اور انسانی اعضا متوازن طریقے سے اپنا کام انجام دے سکیں
سوال مگر یہ ہے کہ پانی کے ایک گلاس میں کتنی مقدار ضروری ہے اور اس کی کیا شرائط ہیں
انسان کی عمر، اس کا وزن اور اس کی تگ و دو کی روشنی میں ہی یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کس کو کتنا پانی لینا ضروری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان جتنی بھاگ دوڑ کرتا ہے اس سے اس کے جسم کا سیال مادہ خرچ ہوجاتا ہے، ایسے انسان کو پانی کی زیادہ مقدار لینا ہوتی ہے
بچے کو ایک بالغ شخص کے مقابلے میں کم پانی درکار ہوتا ہے۔ بہرحال کسی بھی شخص کو ہر روز آٹھ گلاس پانی ضرور لینا چاہیے۔ تین لٹر کے لگ بھگ پانی انسانی جسم کے لے ضروری ہے
ماہرینِ خوراک کا کہنا ہے کہ پانی رفتہ رفتہ پیا جائے، تاکہ جسم اس سے فائدہ اٹھا سکے
ماہرینِ خوراک بتاتے ہیں کہ پانی کا درجہ حرارت نظام ہضم پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اہم یہ نہیں کہ آپ گرم پانی پئیں ضروری یہ ہے کہ آپ پانی پئیں
کم وقت میں زیادہ مقدار میں پانی نہ پیا جائے۔ ایسا کرنے سے جسم میں پانی سے زہر خورانی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
میراتھن کے دوران یہ بات خاص طور پراس وقت ریکارڈ پر آتی ہے، جب دوڑنے والے زیادہ مقدار میں پانی پی لیتے ہیں اور اسی طرح جب پانی پینے کا مقابلہ ہوتا ہے، تب بھی یہ خطرہ ابھر کر سامنے آجاتا ہے
یہی وجہ ہے کہ ماہرین افطار کے بعد مناسب مقدار اور مناسب انداز میں پانی پینے کی سفارش کرتے ہیں۔