سابق فوجی افسر کے اہل خانہ نے سویلین بیٹے کے کورٹ مارشل پر خاموش توڑ دی

ویب ڈیسک

سابق فوجی افسر کے اہل خانہ نے عسکری اور عدالتی حکام سے حسن عسکری کیس میں انصاف یقینی بنانے کے لیے جذباتی درخواست کی ہے، جنہیں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو تنقیدی خط لکھنے پر کورٹ مارشل کر دیا گیا، جبکہ وہ سویلین ہیں

مقامی انگریزی روزنامہ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق حسن عسکری کے والد ریٹائرڈ میجرجنرل سید ظفر مہدی عسکری، والدہ وسیمہ اور بہن زہرا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے بعد جاری پریس ریلیز جاری کی اور اپنی مشکلات سے آگاہ کیا

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حسن عسکری کو نہ صرف غیرمنصفانہ انداز میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں پیش کیا گیا اور جرم بتائے بغیر سزا سنا دی گئی اور انہیں خطرناک دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے ساتھ جیل میں رکھا گیا ہے اور عدالتی احکامات کے باوجود اڈیالہ جیل نہیں بھیجا گیا

حسن عسکری کو اکتوبر 2020 میں ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا اور فوج کی حراست میں دیا گیا تھا، انہیں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں مجرم قرار دے کر پانچ سال قید بامشقت سزا سنادی گئی تھی

انہیں سزا سنادی گئی لیکن انہیں یا ان کے اہل خانہ کو جرم یا سزا کی نقل نہیں دی گئی، حالانکہ اس حوالے سے درخواستیں بھی کی گئی تھیں

حسن عسکری کے والد میجر جنرل ریٹائرڈ ظفر عسکری نے کہا کہ وہ ڈھائی سال سے فوجی قیادت سے ایک مختصر ملاقات کی کوشش کر رہے ہیں اور دو درجن سے زائد خطوط لکھ چکے ہیں، لیکن ان کے خطوط کا نہ تو کوئی جواب آیا اور نہ ہی آج تک کسی طرح آگاہ کیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ ان کی آزمائش کی وجہ مخصوص خطوط ہیں، جو ان کے بیٹے نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سرکردہ جنرلز کو بھیجے تھے اور اس میں انہوں نے مسلح افواج کی جانب سے پاکستان کی معاشی اور سیاسی صورت حال پر کیے گئے فیصلوں کے ممکنہ اثرات پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا

حسن عسکری کے والد نے کہا کہ میرے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، جس میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 131 یا ایک سپاہی، بحریہ یا فضائیہ کے اہلکار کو اپنے فرائض انجام دینے سے توجہ ہٹانے کے تحت جرم درج کیا گیا، لیکن پاکستان آرمی ایکٹ کی کوئی شق شامل نہیں کی گئی

انہوں نے مذکورہ اقدام کو انصاف کا قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک سویلین کو فوجی اہلکاروں کو اکسانے کے جرم کے شبہے میں کورٹ مارشل کیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ مبینہ خط میں ایک محب وطن پاکستانی نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، جس کا کسی ادارے یا سیاسی جماعت سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا اور نہ ہی تشدد پر اکسایا یا کسی قسم کی ریاست مخالف کام کیا

سابق فوجی افسر کے اہل خانہ نے بتایا کہ اس کے باوجود ان کے بیٹے کو اپنے دفاع کا حق دیے بغیر مجسٹریٹ کے ذریعے فوج کی حراست میں دیا گیا اور بغیر کسی جرم یا وکیل تک رسائی کے کئی مہینوں تک قید تنہائی میں رکھگا گیا اور صرف انہیں سزا سنانے کے بعد اپنے اہل خانہ سے رابطے کی صرف ایک دفعہ اجازت دی گئی

حسن عسکری کی بہن زہرہ نے صحافیوں کو بتایا کہ سزا کے حوالے سے ان کے وکیل یا اہلِ خانہ کو کبھی آگاہ نہیں کیا گیا

زہرہ نے کہا کہ ان کے بزرگ اور بیمار والدین کو سخت حالات میں ساہیوال میں بیٹے سے ملنے کے لیے جانا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے، والدہ کو گردوں کا عارضہ لاحق ہے، جو آخری اسٹیج پر ہے اور ہفتے میں تین دفعہ ڈائیلاسز کی ضرورت پڑتی ہے

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈھائی سال کے دوران ان کی والدہ کی حالت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور والد کی عمر ستاسی برس ہے اور انہیں کئی بیماریاں لاحق ہیں

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حالات میں صرف آدھے گھنٹے کی ملاقات کے لیے ایک دن میں چودہ سے پندرہ گھنٹوں کا سفر کرنا تقریباً ناممکن ہے

زہرہ نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کا 14 جون 2022 کو جاری ایک حکم نامہ بھی دکھایا، جس میں ہدایات دی گئی تھیں کہ حسن عسکری کو ساہیوال میں انتہائی سیکیورٹی کے حامل جیل سے فوراً سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی منتقل کیا جائے

انہوں نے کہا کہ نو مہینے گزر جانے کے باوجود اب تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا

روزنامہ ڈان نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ اس بارے میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا، لیکن رپورٹ شائع ہونے تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close