ڈاکٹر بیربل گنانی: ’بینائی بانٹنے والے فرشتے‘ کا قتل

ویب ڈیسک

ہر ماہ اتوار کے روز اپنی گاڑی میں نظر کے سینکڑوں چشمے، آنکھوں کی ادویات اور دیگر ضروری آلات لے کر سانگھڑ اور گردونواح میں میڈیکل کیمپ لگانے پہنچ جاتا، جنہیں چشموں کی ضرورت ہوتی انہیں چشمے فراہم کرتا، جنہیں ادویات کی ضرورت ہوتی انہیں اپنے پاس موجود فری سیمپل اور مارکیٹ سے خریدی گئی ادویات دیتا، اور جنہیں آپریشن کی ضرورت ہوتی انہیں لیاری میں قائم اسپنسر آئی ہسپتال کی راہ دکھا دیتا، جہاں وہ اپنی سروس کے دوران اور بعد میں بھی لوگوں کی آنکھوں کے مفت آپریشن کرتا رہا، یہ سوچے بغیر کہ ایک دن آنکھوں والے اندھے اس کی اپنی آنکھوں کو بے نور کر دیں گے

جمعرات کی شام کو کراچی کے لیاری ایکسپریس وے کے قریب سابق ڈائریکٹر ہیلتھ کے ایم سی اینڈ پبلک ہیلتھ ڈاکٹر بیربل گنانی کو نامعلوم حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ پولیس کے مطابق حملے میں ڈاکٹر بیربل گنانی کی اسٹنٹ ڈاکٹر قرۃ العین زخمی ہوئی ہیں

ڈاکٹر بیربل گینانی بلاشبہ ایک فرشتہ صفت انسان تھے، وہ جب تک سپنسر آئی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ رہے خدمت خلق میں مشغول رہے، آنکھوں کے تباہ شدہ ہسپتال کو ایک فعال ادارہ بنایا، قرنیا کی پیوندکاری کا پروگرام جو کہ دہائیوں پہلے بند ہو چکا تھا اسے بحال کیا اورسری لنکا سے عطیہ کردہ قرنیے منگوا کر سینکڑوں افراد کو بینائی لوٹانے کی سعادت حاصل کی۔
انہیں جب کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کا سینیئر میڈیکل ڈائریکٹر بنایا گیا تو کے ایم سی کے تباہ شدہ ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کو وہ ادویات ملنا شروع ہوئی جنہیں خریدنا ان کی استطاعت سے باہر تھا۔
انہیں بیگ اور بریف کیس بھر کر رشوتیں پیش کی گئی لیکن وہ ثابت قدم رہے، روزانہ شام کے وقت گارڈن کے علاقے رام سوامی میں اپنے کلینک پہنچ جاتے، جس نے فیس دی لے لی، جس نے آدھی فیس دی اسے دوا مفت دی اور جو فیس نہ دے سکا اسے واپس جانے کا کرایہ بھی ادا کیا

وہ کہتے تھے ’وقار بھائی، میرے سندھ کے لوگ بہت غریب ہیں، مظلوم ہیں اور امداد کے مستحق ہیں، اگر میں بھی انہیں لوٹنا شروع کر دوں تو میرے والدین کی روح کو تکلیف ہوگی جنہوں نے مجھے ڈاکٹر اس لیے بنایا تھا کہ میں ان لوگوں کا علاج کروں جو صاحب استطاعت نہیں اور کسی ماہر ڈاکٹر سے علاج کروانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔‘

جس دن اس کی بیٹی سپنا کماری نے بیچلر آف ڈینٹل سرجری کی ڈگری حاصل کی وہ بہت خوش تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ’وقار بھائی اب ہم باپ بیٹی دونوں مل کر لوگوں کی آنکھوں اور دانتوں کا علاج کیا کریں گے، میرے سندھ کے لوگوں کے لیے دانتوں کا علاج ایک خواب ہے، اب میری بیٹی لوگوں کو ان کی مسکراہٹیں واپس دلانے میں اپنا کردار ادا کیا کرے گی۔‘

اور گذشتہ سال جب دونوں باپ بیٹی نے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی سے ایک ساتھ ایم بی اے کی ڈگریاں حاصل کیں تو وہ دن بھی اس کے لیے بہت خوشی کا دن تھا

ان کا کہنا تھا کہ اب ان کی اگلی منزل پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ہیں لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ علم اور روشنی کے دشمن اس پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور آج جب وہ اپنے کلینک سے لوٹ رہے تھے تو انہیں خون میں نہلا دیا گیا

نہیں معلوم کے ارباب اختیار اس کو کیسے دیکھتے ہیں مگر وہ جو ہر یوم آزادی پرچم کشائی کی تقریب منعقد کیا کرتا تھا کم سے کم اس بات کا تو حق دار ہے کہ اسے قومی پرچم میں لپیٹ کر آخری آرام گاہ تک روانہ کیا جائے۔

رپورٹ: محمد وقار بھٹی۔ بشکریہ: اردو نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close