جارج کارلن George Carlin کہتا ہے ”کچھ راتیں ایسی ہوتی ہیں، جب بھیڑیے خاموش ہوتے ہیں اور صرف چاند چیختا ہے“ لیکن ہماری زندگیوں میں ہر رات ایسی رات ہوتی ہے، جہاں چاند پوری رات چیختا رہتا ہے۔ خلیل جبران کہتا تھا ”میرا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ انسان اچانک نہیں مرتا بلکہ تنہا تھوڑا تھوڑا مرتا ہے جب اس کا کوئی دوست چلا جاتا ہے تو وہ تھوڑا سا مرجاتا ہے جب اس کا کوئی پیارا اسے چھوڑ جاتا ہے تو تھوڑا سا اور مرجاتا ہے جب اس کا کوئی خواب پورا نہیں ہو تا تو وہ تھوڑا سا اور مر جاتا ہے پھر آخر میں ان سب مرے ہوئے ٹکڑوں کو ڈھونڈنے کے لیے موت آتی ہے اور وہ ان سب کو سمیٹ کر لے جاتی ہے۔“
مصری ادیب یوسف القیعد اپنی ایک علامتی کہانی میں لکھتا ہے ”جس سال ملک میں تبدیلی آئی اور لوگوں نے امید کی کہ اب زندگی بہتر ہوجائے گی ان ہی دنوں اس گھر کے حالات بگڑگئے ان کے پاس کھا نے کو کچھ نہیں رہا، ماں کی چھاتیاں خشک ہوگئیں اس نے خاندان کے سربراہ سے کہا کہ وہ صورتحال ٹھیک ہونے تک آرام سے سو جائے وہ گذارہ کر لیں گے، چاہے گھر کا سربراہ موجود نہ ہو، وہ گھر سے نکلی اور بے مقصد آوارہ گردی کرنے لگی مرد لیٹ کر سوگیا اور چار سال تک سوتا رہا
اس کی آنکھ سائرن اور قومی ترانوں سے کھلی، اس نے اپنے بچوں سے پوچھا ”کیا تمہیں کھانے کو کچھ ملا؟“ انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک فاقے سے ہیں اور اسے ختم کرنے کے لیے انہیں کچھ نہیں ملا۔ ماں تاریخی سفر سے واپس نہیں آئی تھی، ملک اپنے دشمنوں سے حالت جنگ میں تھا، بچوں نے امید ظاہر کی کہ جنگ ختم ہوگی تو انہیں کچھ کھانے کومل سکے گا۔ باپ دوبارہ سونے چلا گیا، پانچ سال بعد وہ گلی میں شور سے بیدار ہوا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا ایک بچہ غائب تھا جو موجود تھے انہیں تب تک کھانے کو کچھ نہیں مل سکا تھا۔ ماں کا سفر جاری تھا، ملک ایک سنسنی خیز مباحثے میں الجھا ہوا تھا کہ انڈے کوکھانے سے پہلے توڑنے کا بہترین طریقہ کیا ہے کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انڈے کو دائیں جانب سے توڑا جائے
کچھ کا اصرار تھا کہ بائیں طرف سے توڑنا بہتر ہے۔ معتدل مزاج لوگوں کی رائے تھی کہ انڈے کو درمیان سے توڑنا چاہیے۔ باپ نے ان دلائل کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن اس کا ذہن تھک گیا اور وہ سونے کے لیے لیٹ گیا اس نے بچوں سے کہا کہ جب انہیں کھانے کو کچھ مل جائے تو اسے اٹھا دیں لیکن کسی نے اسے زحمت نہیں دی۔ وہ چھ سال بعد ایک بار پھر سائرن اور جنگی ترانوں سے جاگا۔ اس نے غورکیا کہ اس کا ایک اور بچہ موجود نہیں
اسے معلوم ہوا کہ وہ بچہ اس جنگ میں شہید ہوگیا جو ان کی ریاست نے کسی دوردراز دشمن ملک سے چھیڑی تھی۔ باقی حالات ویسے ہی تھے جیسے پہلے تھے ماں دنیا دریافت کرنے کے سفر کی وجہ سے غیر حاضر تھی اور بچے بدستور بھوکے تھے۔ دشمن ان کے ملک کی سرحد تک پہنچ چکے تھے اور ان سے لڑنا ضروری ہوگیا تھا، بچے خاموش تھے باپ نے ایک لفظ کہے سنے بغیر صورتحال بھانپ لی وہ پھر سونے چلا گیا۔ باپ کے اعصابی نظام نے بظاہر اتنے ہی اور سال کے لیے اسے سلادیا اس بار وہ چوکنا ہوا تو ایک اور بچہ غائب تھا اور ملک آخری جنگ لڑرہا تھا انہیں معلوم ہوا کہ ماں واپس آرہی ہے لیکن وہ ابھی تک بھوکے ہی تھے لیکن خوراک، امیدوار ایک نئی زندگی ان کی جانب آرہی تھی انہیں بس ایک اور سال کے لیے صبرکرنا تھا۔ باپ مزید تین سال سونے کے لیے چلا گیا اس بار بھی اس کی آنکھ شور سے کھلی
اس نے دیکھا کہ اس کے جو بچے باقی رہ گئے تھے وہ ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہے تھے جب انہیں احساس ہوا کہ باپ جاگ گیا ہے تو ان کے خون آلود منہ کھلے رہ گئے، وہ دہشت زدہ ہوکر بھاگا اور شہر کی مرکزی شاہراہ پر پہنچا یہ وہ ہی سڑک تھی جہاں فوجی پریڈ ہوتی تھی اور جلوس نکلتے تھے۔ اس کی نظر اپنی بیوی پر پڑی جو وہاں موجود تھی لیکن اس کے بدن پرکچھ نہ تھا کئی اجنبی اس کے بدن کے مختلف حصوں کو چھو رہے تھے اور وہ ایسے ہنس رہی تھی کہ اس سے پہلے کبھی بھی اپنی بیوی کو اس طرح ہنستے نہیں دیکھا تھا لیکن پھر کچھ لوگ اسے کھانے کے لیے اس پر ٹوٹ پڑے، اس نے بیوی کو پکارا کہ اسے بچائے، بیوی نے جواباً چلا کر کہا کہ ہر شخص دوسرے کو کھا رہا ہے اور تمہیں کھانے کا سب سے زیادہ حق مجھے ہے وہ واحد شخص تھا جس کی تمام ہڈیاں اور گوشت باقی تھا
سڑک پر موجود لوگ ایک دوسرے کو ہڑپ کر رہے تھے اور کچھ غریب لوگ اپنے آپ کو کھا رہے تھے۔ گھرکا سربراہ یہ سب دیکھ کر لرز اٹھا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ کوئی ایسی جگہ ملے جہاں وہ سو سکے لیکن چاروں طرف سے بھوکے ہاتھ آئے اور اسے نوچنے لگے اس کے پاس ان ہاتھوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا وہ ان ہاتھوں کے اوپر سوگیا، بھوکے ہاتھوں نے اسے بلند کیا اور اسے لے کر چلے جیسے مرکزی شاہراہ پر عظیم جلوس جنازہ رواں دواں ہو۔“
اس دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز صرف اور صرف بھوک ہے۔ بھوک کے آگے تمام مذاہب انسانیت، تہذیب و تمدن بے بس ہیں۔ تمام تعلیمات، فلسفے بے کار ہیں۔ جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو دنیا کی تمام چیزیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں حتی کہ باقی انسان بھی۔ جہاں بھوک ہوگی وہاں اخلاقیات، انسانیت کا وجود نہیں ہوگا۔ بھوک صدقے کا نہیں بلکہ انصاف کا مسئلہ ہے بھوکا آدمی صحیح یا غلط کو نہیں دیکھ سکتا وہ صرف کھانا دیکھتا ہے۔ کھانا ہر انسان کی مشترکہ بنیاد ہے ایک بھوکا آدمی کبھی آزاد آدمی نہیں ہوتا۔ خوراک قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے بندوق جو بنائی جاتی ہے ہر جنگی جہاز جو لانچ کیا جاتا ہے ہر راکٹ جو فائرکیا جاتا ہے
آخری معنی میں ان لوگوں سے چوری کی علامت ہے جو بھوکے ہیں اورکھانا نہیں کھاتے، بھوک بڑے پیمانے پر تباہی کا بد ترین ہتھیار ہے۔ سماجی انصاف کا پہلا لازمی جزو تمام انسانوں کے لیے خوراک ہے کھانا ان تمام لوگوں کا اخلاقی حق ہے جو اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں۔ بھوک کے آگے موت سے لے کر ہر شے کانپتی ہے۔ تمام اذیتیں بھوک سے جنم لیتی ہیں۔ ایک طاقتور اور ایٹمی ملک اپنے آپ پر فخر نہیں کرسکتا جس میں لاکھوں لوگ بھوکے سوتے ہوں اور اس سے زیادہ غیر محفوظ ملک اورکوئی ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ بات ہر شخص کے سوچنے کی ہے اگر وہ سوچ سکتا ہے ورنہ تو سوویت یونین ہزاروں ایٹم بم رکھنے کے باوجود بکھرگیا۔ کسی بھی ملک کو محفوظ اور متحد صرف اور صرف روٹی رکھ سکتی ہے۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)