کوئٹہ میں یونائیٹڈ بینک ہزار گنجی برانچ کے بینک مینجر قدیر ریکی کی زندگی کا رخ اس وقت یکسر بدل گیا، جب ان کا نوجوان بیٹا 13 فروری 2009ع کو لاپتہ کر دیا گیا۔ یہ عمر رسیدہ بینک منیجر چند ماہ بعد ریٹائر ہونے والے تھے لیکن ان کے بیٹے، معروف سیاسی کارکن جلیل ریکی کی جبری گمشدگی نے قدیر ریکی کو بلوچستان کے سب سے معروف انسانی حقوق کے کارکن ماما قدیر میں بدل دیا
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے سنہ 2009 میں احتجاجی کیمپ کا آغاز کیا۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے لگائے گئے اس احتجاجی کیمپ کو پانچ ہزار دن مکمل ہو گئے ہیں، تاہم جبری گمشدگیوں کے خلاف کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کہنا ہے کہ صوبے میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ اب تک نہیں رک سکا ہے
کوئٹہ پریس کلب کے باہر لگائے گئے اس علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کے وائس چیئرمین چوراسی سالہ ماما قدیر بلوچ ہیں، جو روزانہ صبح سے شام تک اس کیمپ میں بیٹھے رہتے ہیں
ماما قدیر بلوچ کا الزام ہے کہ ان کے بیٹے جلیل ریکی کو سنہ 2009ع میں سیکورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا اور بعد ازاں ان کی تشدد زدہ لاش ملی۔ بیٹے کی گمشدگی کے ساتھ انہوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا
ماما قدیر بلوچ کہتے ہیں ”اگرچہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ دو ہزار کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوا تھا لیکن اس احتجاجی کیمپ کو سنہ 2009 میں شروع کیا گیا۔ اس سے پہلے مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم پر اس مسئلے کے حل کے لیے احتجاج ہوتا رہا لیکن چودہ سال قبل سو سے زائد لاپتہ افراد کے لواحقین نے اکٹھے ہو کر اپنی الگ تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا جسے ’بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز‘ کا نام دیا گیا“
اس تنظیم کی قیادت آج تک لاپتہ افراد کے لواحقین کر رہے ہیں
ماما قدیر بلوچ کے مطابق ہفتے کو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کو پانچ ہزار دن مکمل ہو گئے ہیں
ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے ”ان چودہ سالوں میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے ہم کوئٹہ کے علاوہ اسلام آباد، کراچی اور ملک کے باقی شہروں میں بھی احتجاج کرتے رہے۔ اس دوران سردیوں، گرمیوں، بارش، برفباری اور ہر قسم کے سخت موسم، سختیوں اور دھونس دھمکیوں کا مقابلہ کیا، لیکن ہم نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی“
ماما قدیر کہتے ہیں ”عید اور خوشی کے باقی تہواروں کے موقع پر بھی لاپتہ افراد کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور رشتہ داروں نے اس کیمپ میں بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا“
ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ اس دوران ہم نے سینکڑوں مظاہرے اور ریلیاں بھی نکالیں اور پریس کانفرنسز کیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے
یاد رہے کہ 27 اکتوبر 2013ع کو ماما قدیر بلوچ نے دوسرے لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک لاپتہ افراد کی رہائی کے لئے ایک انتہائی طویل لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ لاپتہ افراد کی تصاویر و کوائف، پلے کارڈز ایک ہاتھ گاڑی پر اٹھائے اس لانگ مارچ نے 2800 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا
انہوں نے کیا ”اس طویل عرصے میں کئی لوگ بازیاب بھی ہوئے اور کئی مزید لاپتہ ہوئے۔ متعدد کی لاشیں ملیں۔ جب تک ہمارا آخری لاپتہ شخص بھی واپس نہیں آتا اس وقت تک ہمارا یہ کیمپ اور احتجاج جاری رہے گا۔ چاہے دس ہزار دن گزریں یا بیس ہزار دن، چاہے ہم زندہ رہیں یا نہ رہیں، ہمارے بچے یہ احتجاج رکھیں گے“
آج ماما قدیر چوراسی سال کے ایک ضیعف العمر شخص ہیں، جو دوائیوں پر انحصار کرتے ہیں اور ہسپتالوں کا چکر ایک معمول بن گیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ آج بھی احتجاجی کیمپ میں موجود ہیں۔