لیاری، آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت کا نیا مرکز

آصفہ ادریس

لیاری کی تنگ گلیوں سے گزر کر سب سے پہلے میں چیل چوک پہنچی جو کسی زمانے میں علاقے میں موجود گینگ وار کی وجہ سے دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد میں مولوی عثمان پارک سے گزری جسے عموماً لوگ بھیّا باغ کہتے ہیں۔ یہ ایک فٹبال اسٹیڈیم ہے، جس نے فٹبال سے محبت کرنے والی کراچی کی اس قدیم ترین بستی کو پہچان دلوائی

بازار میں اپنی دکانوں میں موجود ہنستے مسکراتے چہروں نے مجھے اپنی مطلوبہ منزل بےنظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری (بی بی ایس یو ایل) کے شعبہِ کمپیوٹر سائنس تک پہنچایا جو کہ 2012ء میں قائم ہوئی تھی۔ یونیورسٹی کی بڑی بڑی راہداریاں طلبہ و طالبات کی چہل پہل سے گونج رہی تھیں

یہ بات حیران کُن اور ساتھ ہی خوش آئند بھی ہے کہ لیاری جیسا علاقہ جو دنیا کے لیے صرف پُرتشدد واقعات اور قتل و غارت کے لیے جانا جاتا تھا وہاں اب طلبہ کی فکری تربیت کے لیے بھی کام ہو رہا ہے۔ اگرچہ یہ یونیورسٹی محدود وسائل سے تعمیر کی گئی ہے لیکن اس کے کلاس رومز اور لیبز میں طلبہ اور یونیورسٹی اساتذہ کی مشترکہ کوششوں اور لگن نے جان ڈالی دی ہے

گزشتہ چند برسوں سے لیاری کامیابی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں ایک ابھرتا ہوا مرکز بن گیا ہے

مثال کے طور پر بی بی ایس یو ایل کے تین طالبِ علموں نے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک چھڑی ایجاد کی ہے، جو کہ بصارت سے محروم افراد کو عوامی مقامات پر ان کے راستے میں آنے والی کسی بھی طرح کی رکاوٹ سے مطلع کرے گی۔ اس چھڑی کی ای-واک نامی ایک ایپلیکیشن کے ذریعے نگرانی کی جائے گی، جو کہ آئی فون اور اینڈرائڈ دونوں کے صارفین کے لیے تین زبانوں میں دستیاب ہے

اس طرح کی ایجادات نہ صرف لیاری میں ٹیکنالوجی کا انقلاب لانے کا ایک ذریعہ ہیں، بلکہ یہ اس علاقے کے مکینوں کے لیے نیا طرزِ زندگی بھی پیش کرتی ہیں۔ ان لوگوں کی زندگیوں کو گینگ وار نے شدید متاثر کیا تھا اور اس کی وجہ سے گزشتہ تین دہائیوں میں ہزاروں افراد لقمہِ اجل بنے

لیاری کے نوجوانوں نے تبدیلی لانے اور ایک نئے اسٹیٹس کو کے لیے ٹھوس کوششیں کی ہیں۔ آج تقریباً چھ لاکھ رہائشیوں پر مشتمل اس علاقے لیاری میں باکسرز، ریپرز، فٹبالرز اور نوجوان انٹرپرینیورز ابھر کر سامنے آ رہے ہیں

کچھ نوجوان اپنی ان خواہشات کا سہرا، دہائیوں پر محیط دہشت کے اپنے تجربے کو دیتے ہیں۔ نوجوان انٹرپرینیور اور بی بی ایس یو ایل کے سابق طالب علم، نورالنجم کا شمار بھی انہیں نوجوانوں میں ہوتا ہے۔ لیاری میں اپنی پانچ رکنی ٹیم کے ساتھ ایک سافٹ ویئر ہاؤس چلانے والے نور النجم نے 2017ء میں اپنے دو دوستوں کو کھو دیا تھا

نورالنجم نے بتایا ”میرے کچھ دوست گینگ میں شامل ہو گئے تھے اور پھر وہ منشیات کے عادی ہو گئے۔ میرا ایک دوست گینگز کے درمیان فائرنگ میں مارا گیا جبکہ دوسرا دوست منشیات کی زیادہ مقدار لینے کے باعث اپنی جان سے گیا۔ میں بھی ان میں سے ایک ہو سکتا تھا لیکن میں نے تعلیم حاصل کر کے اپنے علاقے کی خدمت کرنے کو ترجیح دی“

بی بی ایس یو ایل کے کمپیوٹر سائنس طلبا آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت کی دنیا میں خوب ترقی کر رہے ہیں۔
نورالنجم اور ان کی ٹیم نے یونیورسٹی میں اپنے استاد راحیل سرور کی نگرانی میں ’کڈز انٹرپرینیورشپ‘ نامی ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت لیاری کے مختلف اسکولوں میں کلاس پانچ سے آٹھ کے طلبہ کو کمپیوٹر، ٹیکنالوجی، اسٹارٹ اپ شروع کرنے، کمپنیوں کے کام کے طریقہ کار اور نوکریوں اور اسٹارٹ اپس کے درمیان فرق کی بنیادی تعلیم فراہم کی جائے گی

اس یونیورسٹی کے قیام کے بعد سے لیاری سے تعلق رکھنے والے تقریباً دو ہزار طلبہ مختلف شعبہ جات سے گریجویٹ ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ ٹیکنالوجی کے طلبہ تھے جو سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئے ہیں

لیاری کی رہائشی اور اس یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں فائنل ایئر کی طالبہ فاطمہ عالم، ایمازون میں بطور سروس پرووائڈر کام کرتی ہیں

فاطمہ عالم نے ہمیں بتایا کہ ’میں ورچول اسسٹنٹ اور ہول سیلر کے طور پر اپنی خدمات فراہم کرتی ہوں۔ میں امریکا میں کلائنٹس کے ساتھ ویب ڈیولپمنٹ پر کام کرتی ہوں اور انہیں ایمازون کی ڈراپ شپنگ سروسز فراہم کرتی ہوں۔ میں یہ فخر کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ میں اپنے خاندان میں اکلوتی فرد ہوں، جو پاکستانی روپے کے بجائے امریکی ڈالر میں کماتی ہوں‘

لیاری میں بی بی ایس یو ایل اپنے طلبہ کو ملازمت کرنے کے لیے متعلقہ مہارتوں سے آراستہ کرنے کے لیے مشہور ہے۔ کمپیوٹر سائنس کے طلبہ کی نوکریاں حاصل کرنے میں کامیابی کی شرح 90 فیصد ہے۔ یہ عنصر کافی دلچسپ ہے کہ یونیورسٹی کے بہت سے سابق طلبہ اب انٹرپرینیور ہیں، جو علاقے کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں

بی بی ایس یو ایل میں کمپیوٹنگ سائنس فیکلٹی کے سربراہ ڈاکٹر مظہر علی کہتے ہیں کہ ’ہمارا مقصد صرف اپنے طلبہ کو نوکریوں کے لیے نہیں بلکہ انٹرپرینیورشپ کے لیے بھی تیار کرنا ہے۔ جب طالب علم اپنے اخراجات خود اٹھاتا ہے اور فری لانسنگ اور انٹرپرینیورشپ کے ذریعے اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے تو ہمیں بےپناہ خوشی اور اطمینان محسوس ہوتا ہے‘

یونیورسٹی انتظامیہ کا ماننا ہے کہ معیاری تعلیم نوجوانوں کو خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی، دنیا سے مقابلہ کرنے کی امید اور موقع فراہم کرتی ہے۔انتظامیہ کا عزم ہے کہ وہ ’مستقبل میں پاکستان کی سلیکون ویلی‘ بننا چاہتے ہیں

لیاری میں اپنا اسٹارٹ اپ چلانے والے بی بی ایس یو ایل کے سابق طالب علم محمد اویس قرنی بتاتے ہیں کہ انہوں نے کورونا وبا کے دوران یونیورسٹی کے اپنے پہلے سال میں ویب ڈیولپر کے طور پر فری لانس کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے امریکا میں قائم کمپنیوں کے ساتھ کام کیا اور 2019ء میں انہوں نے فری لانسنگ سے جمع ہونے والی رقم سے ایک سافٹ ویئر ہاؤس کا آغاز کیا۔ ان کا سافٹ ویئر ہاؤس پانچ اراکین پر مشتمل ہے، جن میں دو سیلز کے شعبے میں ہیں جبکہ تین ڈیولپرز ہیں

یونیورسٹی میں سابق طالب علموں کو فیکلٹی اراکین کے طور پر بھی بھرتی کیا جاتا ہے۔ بہت سے طلبہ جو کبھی اس یونیورسٹی میں پڑھتے تھے، وہ اب یہاں استاد کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

نادیہ مراد بلوچ نے سال 2015ع میں اس یونیورسٹی سے گریجویشن کی تھی۔ وہ بتاتی ہیں ”ایک ایسا وقت بھی تھا، جب ہم ہفتوں تک اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے تھے (کورونا کے دوران)۔ اس وقت اپنے امتحانات میں شرکت نہ کرنا انتہائی افسوسناک اور حوصلہ شکن تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ خوف ناک دور ختم ہوچکا ہے اور اب 2023ء میں، میں اسی یونیورسٹی میں لیکچرار کی حیثیت سے کام کر رہی ہوں، جہاں سے میں نے تعلیم حاصل کی تھی“

دوسرے طلبہ کے مقابلے میں لیاری کے طالب علم کے لیے کامیابی کا راستہ کافی دشوار ہے۔ بعض اوقات وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ فائرنگ اور دھماکوں کی گونج اور ہر روز خون سے رنگی گلیاں دیکھنے والے ان طلبہ میں تعلیم حاصل کرنے کی جو لگن موجود ہے، اسے بہادری کے فعل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے

عبد اللہ اس یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں، جو اس وقت یہاں پڑھا بھی رہے ہیں۔ انہوں نے یہاں سے سونے اور چاندی کے تمغے بھی حاصل کیے ہیں۔ وہ لیاری میں خواتین کی تعلیم کے لیے سرگرم ہیں اور اس کی بھرپور حمایت بھی کرتے ہیں

وہ بتاتے ہیں ”میں لیاری کے علاقے کلاکوٹ میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔ میں اس وقت ایک طالبِ علم تھا، جب گینگ وار کی وجہ سے پورا علاقہ تاریکی میں ڈوب چکا تھا۔ اب میں اڑتالیس تحقیقی مقالوں کے ساتھ اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے والا ہوں۔ ان اڑتالیس میں سے بتیس امپیکٹ ریسرچ پیپر ہیں، جو کہ گوگل اسکالر پر بھی دستیاب ہیں۔“ انہوں نے فخریہ انداز میں بتایا کہ میں نے یہ سب لیاری میں رہتے ہوئے حاصل کیا ہے

ان کا ماننا ہے کہ لیاری اب بدل چکا ہے۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں علاقے میں خواتین کی تعلیم کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی بہن رخسار بھی لیاری میں ہی مقیم ہیں، وہ اسکالرشپ ملنے کے بعد اب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرونِ ملک جانے کی تیاری کر رہی ہیں

بی بی ایس یو ایل کے طلبہ کی کامیابی قابلِ ستائش ہے۔ نہ صرف انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکریاں حاصل کیں بلکہ ان کی کامیابی علاقے کے ہر فرد پر اثرانداز ہوئی ہے۔ علاقے میں ابھرنے والے انٹرپرینیورز نے ملازمت کے مواقع پیدا کیے ہیں اور کی وجہ سے متعدد خاندان اپنے بچوں بالخصوص بہنوں اور بیٹیوں کو تعلیم دلوانے کی طرف مائل ہوتے ہیں

سینیئر صحافی اور کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی جوکہ لیاری کے رہائشی بھی ہیں، انہوں نے کہا ”لیاری کے لوگ باصلاحیت ہیں اور وہ اپنی صلاحیتیں دنیا کو دکھانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بہت سے معروف گلوکار اور فٹبالر لیاری سے تعلق رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ گینگ وار کے عروج کے دور میں بھی ان لوگوں نے ہمت نہیں ہاری۔ یہ لوگ صرف ملازمت کے تحفظ اور پائیدار اور دیرپا امن کے خواہاں ہیں“

سعید سربازی نے نقطہ اٹھایا کہ اگرچہ لیاری نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اس کے باوجود ایسے بہت سے مسائل ہیں، جو فوری طور پر توجہ طلب ہیں۔ انہوں نے معیاری تعلیم کی وسیع تر دستیابی کے فقدان، صحت و صفائی کی سہولیات کی عدم فراہمی، منشیات کی لت اور محدود اراضی پر بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر جیسے مسائل بیان کیے اور کہا کہ یہ رہائشیوں کی بہتر زندگی گزارنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں

دیکھا جائے تو لیاری کے مکینوں کے لیے یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے حالات سدھارنے کا بیڑا خود اٹھائیں اور دنیا کے لیے اپنی کہانی ایک بار پھر لکھیں، اس دفعہ وہ دہشت یا فٹ بال سے نہیں بلکہ اپنی تکنیکی ایجادات سے شہرت حاصل کریں گے۔

نوٹ: یہ مضمون 26 مارچ 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا، جسے ادارے کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close