غربت کی ایک ایسی قسم بھی ہے، جس کو دور کرنے کے لیے ذہنی صحت کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ اس کو ذہنی غربت کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا احساس ہے، جو آسودگی کے باوجود انسان محسوس کرتا ہے
آج کل ڈجیٹل دور ہے۔ ہر چیز ایک کلک کی دوری پر ہے۔ فرض کریں آپ کو آن لائن کوئی چیز نظر آئی، جس کی آپ کو عرصہ سے تلاش تھی اور آپ نے بڑھتی مہنگائی پر نظر رکھی اور پھر اس کو خریدنے کا ارادہ مؤخر کر دیا۔ درحقیقت اس چیز کو، جس کو خریدنے کا ارادہ آپ نے کیا تھا، اس کے بنا بھی آپ کی زندگی مطمئن گزر رہی تھی۔ مگر ایسی صورت میں آپ کا دماغ آپ کو اپنے جھانسے میں لے آتا ہے کہ اف میں کتنا غریب ہوں کہ اپنی پسند کی کوئی چیز خرید نہیں سکتا۔۔
آپ کے پاس خریدنے کی استطاعت بھی تھی لیکن ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے ارادہ مؤخر کیا۔ مگر آپ کا ذہن اس کو منفیت کی جانب لے گیا۔ چلیں ایک اور مثال لیتے ہیں۔۔ آپ نے سوشل میڈیا پیجز کھولے۔ اپنے دوستوں کی اپ ڈیٹس دیکھیں اور انجانے میں ان کے لباس اور جوتوں سے اپنے لباس اور جوتوں کا موازنہ کرنا شروع کر دیا۔ حالانکہ آپ کے پاس بھی بہت اچھے کپڑے اور جوتے موجود ہیں لیکن آپ کا دماغ آپ کو یہ محسوس کروانا شروع کر دیتا ہے کہ آپ کتنے غریب ہیں، جو دوستوں کی طرح برانڈڈ شاپنگ نہیں کر سکتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کی ذہنی صحت کا انحصار اس بات پر ہوتا کہ وہ جذباتی اور نفسیاتی طور پر کتنا مضبوط ہے اور یہی ذہنی صحت طرز عمل اور اچھی سوچ کی ضامن بھی ہوتی ہے۔ کسی بھی انسان کی معاشی حالت بھی کسی حد تک اس کی ذہنی حالت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ انسانی سوچ میں غربت کا احساس آسودگی کے بعد بھی اس لیے رہتا ہے کہ ماضی میں اس کی زندگی غربت یا جدوجہد سے بھرپور رہی ہو۔
معاشیات، جسے ہم جانتے ہیں، اس کے مطابق انسان کی سوچ معاشی معاملات میں منطقی اور سرد ہوتی ہے۔ کیونکہ ہر انسان اپنی فلاح و بہبود چاہتا ہے۔ یہ عناصر ہماری قوت فیصلہ پراثرانداز ہوتے ہیں اور ہمیں اس احساس سے ہر بار روشناس کرواتے ہیں، جس میں سے ہم نکل آئے ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر آپ دماغ کے جھانسے میں آ جاتے ہیں تو نتیجہ پچھتاوے کی صورت میں ہی نکلتا ہے
نیورولوجی کے ماہرین کے مطابق ایسی صورت حال میں دماغی اعصاب سے منسلک ہارمون (ڈوپامائین) جو کہ انسان کو اطمینان، آسودگی اور کامیابی کا احساس دلاتا ہے، مداخلت کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان ایسے فیصلے کر لیتا ہے، جو نہیں کرنے چاہییں۔ جب یہ ہارمون ہمارے خون میں شامل ہو جاتا ہے تو بنا سوچے سمجھے فیصلہ کرنے کا رویہ متحرک ہو جاتا ہے، جو کچھ حاصل کر لینے کی امید دلاتا ہے یا پھر لوگوں کے سامنے اچھا تاثر ابھرنے کی
ایسے اشخاص جو ذہنی غربت کا شکار ہوں، وہ حاسد اور تنگ نظر ہو ں گے۔ سب سے بڑی بات ایسے لوگ اپنی زندگی کی ترجیحات کا تعین نہیں کر پاتے۔ اور نہ ہی اپنی زند گی کا کوئی مقصد بنا سکتے ہیں کیونکہ ان کی نظر ان کی سوچ صرف اور صرف معاشی سرگرمیوں اور تقابل پر مرکوز ہوتی ہے۔ اسی لیے ایسے لوگ دکھاوے کو ترجیح دیں گے۔ اپنی اور اپنے کام کی عزت نہیں کر پائیں گے۔ اپنی آمدن سے مطمئن نہیں ہو کر قرض حاصل کرنے کے لیے بھاگیں گے۔ ان کو لگتا ہے کہ شاید ایسے وہ اپنی غربت دور کر سکیں جو در حقیقت صرف ان کی سوچ میں ہوتی ہے
اس احساس کو ختم کرنے لیے آپ کو خود سے کوشش کرنی ہو گی۔ مثلا خود کو نہ کہنا سیکھیں۔ اگر کوئی معاشی سرگرمی آپ نہیں کر پاتے تو خود کو اس پر مطمئن کرنا سیکھیں نہ کہ تقابل کرکے خود کو احساس غربت کے حوالے کر دیں۔ بجٹ بنانا اور اخراجات کا حساب رکھنا اچھی عادت ہے لیکن ہر وقت دماغ میں حساب کرنے سے بچیں۔ ورنہ حساب کتاب میں الجھا دماغ آپ کوغربت کا ہی احساس دلائے گا۔ منصوبہ بندی کریں اور اپنی زندگی کے مقصد کا تعین کریں۔ تاکہ مستقبل بہتری کی جانب جا سکے
ہر طرح کی غربت دور کرنے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ لیکن اگر غربت سوچ کی ہو یا فکر کی، اس کو دور کرنا نا ممکن ہوتا ہے۔ اور یہی کسی معاشرے یا فرد واحد کی تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)