مظفر آباد کے قاری، جن کو حرمین کے اماموں کا استاد کہا جاتا ہے

اسامہ الطاف

برِصغیر کے مسلمان اپنی مذہبی حساسیت اور جذباتیت کی وجہ سے حرمین شریفین اور ان مقامات سے متعلق شخصیات کا خصوصی احترام کرتے ہیں۔ ان حقائق سے قریبا ہر خاص و عام آشنا ہے، مگر اس سے متعلق دلچسپ امر جو عوام الناس سے پوشیدہ ہے، وہ برِصغیر کے قاری حضرات کا بھی حرمین شریفین کی امامت سے تعلق ہے

اس ضمن میں سرفہرست جس شخصیت کا نام آتا ہے، وہ شیخ خلیل القاری ہیں۔ 13 مئی 2021 کو ’حرمین شریفین کے آئمہ کے استاد‘ کے عنوان سے ان کے متعلق سعودی ٹی وی اسکائی نیوز العربیہ نے ایک پروگرام کیا، جس میں بتایا گیا انہوں نے خود تو حرمین شریفین میں امامت نہیں کی مگر ان کو ’حرمین کے آئمہ کا استاد‘ کہا جاتا ہے

اس پروگرام میں دی گئی معلومات کے مطابق شیخ خلیل 1940ع میں پاکستان کے شہر مظفر آباد میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی تعلیم پاکستان میں ہی مکمل کی

شیخ خلیل نے حفظ قرآنِ کریم پاکستان میں ہی مکمل کیا اور قرأت میں مہارت بھی پاکستان میں حاصل کی۔ بعد ازاں 1963ع میں وہ مکہ مکرمہ تشریف لائے، جہاں انہوں نے تدریس کا عمل شروع کیا اور پھر مدینہ منورہ منتقل ہو گئے اور وہاں بھی وہ قرآن کریم کے مدرس ہی رہے

شیخ خلیل القاری کا جب انتقال ہوا تو ان کی وفات کی خبر بھی ’حرمین کے آئمہ کا استاد‘ کے عنوان سے شائع ہوئی

شیخ خلیل القاری کا ہم یہاں تذکرہ ایک لمحہ کے لیے روکتے ہیں اور سعودی عرب کے طول عرض میں پھیلی ہوئی قرآن کریم کی ’جمعیات‘ کے قیام کا دلچسپ قصہ بیان کرتے ہیں، جس کا بہر حال شیخ خلیل سے بھی تعلق ہے

’جمعیات‘ وہ ادارے ہیں، جو سعودی عرب میں قرآنِ کریم کے حفظ و تدریس کے مراکز کی انتظامی نگرانی کرتے ہیں

جمعیات کے قیام کا قصہ سعودی سینئر اسکالرز کونسل کے بزرگ رکن عبدالوہاب بن ابراہیم ابو سلیمان اپنی کتاب ’عناية المسلمين بالوقف خدمة للقرآن الكريم‘ میں نقل کیا ہے اور اس قصہ کے مرکزی کردار پاکستانی کاروباری شخصیت محمد یوسف سیٹھی ہیں

دلچسپ بات یہ ہے کہ مئی 2018ع کو شائع ہونے والی ’الضیا‘ نامی جمعیہ کی مستند رپورٹ کے مطابق محمد یوسف سیٹھی کے آبا و اجداد غیر مسلم تھے، بعد ازاں انہوں نے اسلام قبول کیا اور تجارت کا پیشہ اختیار کیا، جس میں ان کو کامیابی ہوئی اور وہ صاحبِ ثروت ہو گئے

1960ع کی دہائی میں ان کو اپنے بچوں کو حفظ کرانے کے ناکام تجربوں کے باعث یہ خیال آیا کہ سعودی عرب میں قرآنِ کریم کی تدریس کا عمل متفرق ہونے کے بجائے ترتیب اور انتظام کے ساتھ ہونا چاہیے اور تمام تدریسی مراکز کو ایک انتظامی اکائی کا تابع ہونا چاہیے

انہوں نے اپنا یہ خیال سعودی عرب کے علماء کے سامنے پیش کیا، جس کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا اور سرکاری طور پر اس پر کام شروع کر دیا گیا۔ یوں ان کی کوششوں کے نتیجوں میں مکہ مکرمہ میں سنہ 1962ع میں پہلی جمعیہ کا قیام عمل میں لایا گیا

اس جمعیہ میں تدریس کے لیے محمد یوسف سیٹھی نے جن لوگوں کو سعودی عرب آنے پر راضی کیا ان میں سے ایک کشمیر کے شیخ خلیل القاری بھی تھے، جن کا تذکرہ ہم کر رہے تھے

’الضیا‘ میں خود شیخ خلیل القار القاری کو نقل کیا گیا ہے کہ جب وہ مکہ آئے تو صبح حرم مکی میں قرآن کریم کی تدریس کرتے تھے، جبکہ عصر سے عشا ان کا حلقہ مکہ کی معروف مسجد جامع بن لادن میں لگتا تھا۔ دورانِ تدریس ان سے کئی ایسے شخصیات مستفید ہوئیں، جو بعد ازاں حرمین کی امامت کے رتبے پر فائز ہوئیں

شیخ علی جابر جو کہ حرم مکی کے باقاعدہ امام تھے اور کئی سال تک تراویح کی امامت کرتے رہے، وہ شیخ خلیل کے شاگرد تھے۔ اسی طرح معروف قاری محمد ایوب بھی شیخ خلیل کے خاص شاگرد تھے۔ محمد ایوب اپنے مخصوص حجازی طرز کی وجہ سے بےحد مشہور تھے اور ان كو سات سال تک مسجدِ نبوی میں امامت کا شرف حاصل ہوا

اس کے علاوہ محمد ایوب مسجد قباء میں تراویح اور تہجد کے امام تھے۔ وہ خود اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کی تعلیم کا آغاز مسجد بن لادن میں کیا، جہاں شیخ خلیل القاری ان کے استاد تھے۔ اس کے علاوہ محمد السبیل اور عبدالرحمٰن الحذیفی ایسے بزرگ آئمہ کا شمار بھی شیخ خلیل کے شاگردوں میں ہوتا ہے

کویتی محقق اور مؤرخ عبدالعزیز العويد شیخ خلیل القاری کا دلچسپ قصہ نقل کرتے ہیں کہ شاہ خالد کے زمانے میں پاکستانی صدر ضیا الحق نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور حرم میں نماز ادا کی، جہاں پر امامت شیخ علی جابر نے کی جن کی آواز سے ضیا الحق کافی متاثر ہوئے

نماز سے فراغت کے بعد ضیا الحق کو معلوم ہوا کہ شیخ علی جابر کے استاد پاکستانی قاری شیخ خلیل القاری ہیں۔ ضیا الحق نے بعد ازاں شیخ سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہو، جس پر شیخ نے ضیا الحق سے پاکستان میں قرآن کی تعلیم کو فروغ دینے کا مطالبہ کیا اور ضیا الحق نے اس پر عمل کرتے ہوئے اسلام آباد میں اس غرض کے لیے فیصل مسجد کے قریب قرآن کی تعلیم وتدریس کاایک ادارہ قائم کیا

شیخ خلیل القاری کے بیٹوں نے اپنے والد کی بہترین پیروی کی اور قرآن کریم سے منسلک رہے۔ 2018 میں حرمین شریفین اتھارٹی کی جانب سے چار آئمہ کو مسجد نبوی میں تراویح کی امامت کی ذمہ داری دی گئی، جن میں شیخ خلیل القاری کے بیٹے شیخ محمود خلیل القاری بھی تھے

اس کے علاوہ گذشتہ سال اپنی وفات تک وہ مسجد قباء میں امامت کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ شیخ خلیل القاری کے دیگر بیٹے احمد اور محمد بھی مسجد نبوی کے بڑی مساجد میں امامت کرتے رہے ہیں۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close