انسانی حقوق کے برطانوی وکیل اور ’تھری ڈی‘ نام تنظیم کے ڈائریکٹر کلائیو اسٹیفورڈ اسمتھ نے آج منگل کے روز کراچی بار ایسوسی ایشن میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ڈاکٹر عافیہ کی واپسی میں رکاوٹ پاکستان میں نظر آتی ہے
انہوں نے کہا ”ڈاکٹر عافیہ پر تشدد گوانتانا موبے سے بھی بدتر ہے۔ عافیہ کو کوئی اندازہ نہیں ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہیں“
کلائیو اسٹیفورڈ اسمتھ کا کہنا تھا ”اس کی پوری زندگی آہستہ آہستہ اس سے چھین لی گئی ہے اور اس کے لیے تمام بیرونی رابطے منقطع ہیں، عافیہ کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی برفانی طوفان میں پھنس جانے والا مدد کے لیے پکار رہا ہو“
کلائیو اسمتھ نے کہا ”میری عافیہ صدیقی سے ملاقات ہوئی ہے اور میں نے انہیں امید دلائی ہے کہ پاکستان میں لوگ ان سے محبت کرتے ہیں“
ان کا کہنا تھا ”عافیہ نے پاکستانی عوام پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ انہیں مایوس نہ کریں۔“
کلائیو اسمتھ نے وکلا سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ آپ کی ہم وطن ہیں اور آپ انصاف کے محافظ ہیں۔ آئینی حقوق کے محافظوں کو متحد ہونے اور ہماری کوششوں کی حمایت کے لیے ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کی رہائی کے لیے قانونی کارروائی کی حمایت کریں
کلائیو سٹیفورڈ کا کہنا تھا ”نائن الیون کے بعد نفرتوں میں اضافہ ہوا، گوانتانامو بے میں نوجوانوں پر مظالم ڈھائے گئے، میں نے گوانتانامو بے کے قیدیوں کے لیے مقدمات لڑے ہیں جس پر مجھے غدار کہا گیا، جبکہ گوانتانامو بے میں مجھے کوئی دہشت گرد نہیں ملا، وہاں صرف عام لوگ تھے جن میں قید پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو کراچی سے لے جایا گیا ہے“ واضح رہے کہ کلائیو اسٹیفورڈ قسمتھ امریکی شہری ہیں
کلائیو اسمتھ کا کہنا تھا ”مشرف نے اپنی کتاب میں شہریوں کو امریکی حکومت کو فروخت کرنے کا اعتراف کیا ہے، ٹیکسی ڈرایئور احمد ربانی پر ساٹھ سے زائد اقسام کے تشدد کیے گئے، احمد ربانی کو گوانتانامو بے میں بیو سال گزارنے پڑے“
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان حکومت کو عافیہ کے حقوق کے لیے ساتھ دینا چاہیے اور حکومت ہماری جدوجہد میں ہماری مدد کرے
انہوں نے کہا کہ وہ آج عافیہ صدیقی کو واپس لانے کے لیے پاکستان میں موجود ہیں۔ ’ایسا لگتا ہے کہ عافیہ کو وطن واپس لانے میں رکاوٹ ان کے اپنے ملک کے اندر سے ہے اور ہمیں مل کر اس رکاوٹ کو شناخت کرنے اور اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘
عافیہ موومنٹ کی چیئرپرسن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ ’ایک عورت پر اس کے بچے چھین لینے سے بڑا کوئی اور تشدد نہیں ہو سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر عافیہ سے ان کے تین کمسن بچے چھین لیے گئے اور وہ گزشتہ دو دہائیوں سے زیر حراست ہیں۔‘ اس موقعے پر وہاں موجود وکلا نے ایک تحریک شروع کرنے کی قرارداد منظور کی جو عافیہ کو وطن واپس لانے میں وفاق کی مدد کرے گی۔
عافیہ صدیقی کی حراست کے بعد پاکستانی حکومتوں نے مختلف ادوار میں ان کی واپسی کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کی ہے۔ گذشتہ ماہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تھی۔ روزنامہ جنگ کے مطابق ملاقات کے دوران فوزیہ صدیقی نے حکومت کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہبود کے لیے کیے گئے اقدامات کو سراہا نیز وزیرِ اعظم شہباز شریف نے فوزیہ صدیقی کو حکومت کی جانب سے اس حوالے سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
وزیر اعظم پاکستان نے وزارتِ خارجہ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی خیریت سے آگاہ رہنے کی ہدایت کی نیز اس معاملے پر وزارتِ خارجہ کو امریکی حکومت سے رابطے میں رہنے کی ہدایت بھی کی۔