کراچی اور کوئٹہ میں حال ہی میں کانگو وائرس سے دو افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے، جس کے بعد محکمہ صحت کے حکام نے الرٹ جاری کر دیا ہے
صحت کے حکام کے مطابق کانگو وائرس کا پہلا شکار ایک بیس سالہ حاملہ افغان خاتون تھیں، گل ناز کو کچلاک سے وائرس کی علامات کے ساتھ لایا گیا اور کوئٹہ کے فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال میں داخل کرایا گیا
ان کے منہ اور ناک سے خون بہہ رہا تھا اور اس کے خون کے نمونے لیبارٹری بھیجے گئے، جس میں اس بیماری کی تصدیق ہوئی
ہسپتال کے ڈاکٹر زبیر احمد نے تصدیق کی کہ گزشتہ دس دنوں میں وائرس سے یہ تیسری موت ہے، گزشتہ چار ماہ میں کانگو وائرس سے چار افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اور تمام مریضوں نے افغانستان کا سفر کیا تھا
ادہر محکمہ صحت سندھ نے بھی کراچی میں اٹھائیس سالہ شخص کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، مقتول محمد عادل لیاقت آباد میں ایک گوشت فروش تھا
محکمہ صحت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ابتدائی طور پر مریض کو 30 اپریل کو سر درد اور بخار ہوا، جو دو دن بعد شدت اختیار کر گیا، اسے ایک نجی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ ایک دن تک زیر علاج رہا۔ متاثرہ مریض کو بعد میں تواتر کے ساتھ ناک سے خون بہہ رہا تھا
محکمہ صحت کے عہدیدار نے مزید کہا کہ مریض کا ابتدائی طور پر ڈینگی اور ملیریا کے لیے ٹیسٹ کیا گیا، لیکن اس کے نتائج منفی آئے
4 مئی کو مریض کی حالت بگڑ گئی اور اسے نارتھ ناظم آباد کے ضیاءالدین ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں ایک دن بعد انتقال کر گئے
کانگو وائرس کیا ہے؟
یہ وائرس زیادہ تر افریقہ اور جنوبی امریکا ’مشرقی یورپ‘ ایشا اور مشرق وسطی میں پایا جاتا ہے
اسی بنا پر اس بیماری کو افریقی ممالک کی بیماری کہا جاتا ہے، یہ وائرس سب سے پہلے 1944 میں کریمیا میں سامنے آیا اسی وجہ سے کانگو وائرس کا سائنسی نام ’کریمین ہیمریجک کانگو فیور‘ ہے
اس وائرس سے لگنے والی بیماری ایشیا کے کئی ممالک میں بھی پائی جاتی ہے، جس میں پاکستان سمیت، ایران، عراق، ترکی اور دیگر شامل ہیں
یہ وائرس کسی جانور میں موجود کیڑے کے کاٹنے سے انسان میں منتقل ہوتا ہے
آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سید فیصل محمود کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کی انسانوں میں منتقلی کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جانوروں کے جسم میں ایک چھوٹا سا کیڑا جسے (ٹک) کہتے ہیں، وہ اگر کسی انسان کو کاٹ لے تو اس سے یہ بیماری لگ سکتی ہے۔ کسی جانور کو یہ بیماری لاحق ہو اور یہ کیڑا اس کا خون چوس رہا ہو تو وہ انسان کو کاٹنے کے بعد اس وائرس کو خون میں منتقل کر دیتا ہے
دوسری صورت میں یہ جانوروں کے خون سے بھی براہ راست منتقل ہو سکتا ہے، خاص کر ذبح کرتے وقت جب جانور کے جسم سے خون نکلتا ہے۔ اس کا کوئی قطرہ انسان کے ناک، منہ یا آنکھ میں چلا جائے تو یہ وائرس پھیل سکتا ہے
متاثرہ جانور کی کھال میں چھپے یہ کیڑے (ٹک) قربانی کے وقت جانور کی کھال اتارنے کے دوران انسانی جلد پر چپک کر بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر اس سے کوئی انسان متاثر ہو جائے تو پھر ایک انسان سے دوسرے میں وائرس منتقل ہونا عام بات ہے۔ یہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں خون، لعاب یا پسینے سے منتقل ہوسکتا ہے
ڈاکٹر فیصل کے مطابق اگر کانگو وائرس جانوروں کو لگ جائے تو ان میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں کیوں کہ اس وائرس کے باوجود بھی جانور صحت مند ہی نظر آ رہے ہوتے ہیں
کانگو وائرس کی علامات
کانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے، اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے، اور آنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے
چلڈرن اسپتال کے سی ای او اور ہیماٹولوجسٹ ڈاکٹر ثاقب انصاری کہتے ہیں کانگو وائرس کی علامات میں تیز بخار کے ساتھ ساتھ گلے میں درد، نزلہ، جوڑوں اور ریڑھ کی ہڈی میں درد ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ چہرے اور آنکھوں کا سرخ ہو جانا، جسم پر سرخ دھبے نمودار ہونا بھی کانگو وائرس کی علامات ہیں
انہوں نے کہا کہ کانگو وائرس ہوتے ہی مریض کے پلیٹیلٹس میں واضح کمی ہونے لگتی ہے اور جب یہ وائرس مریض کے بدن میں پھیل جائے تو پھر قوتِ مدافعت کم ہو جانے کے بعد ہونے والا بخار ہیمورجک فیور کی شکل اختیار کر جاتا ہے، جس میں انسانی جسم کے کسی بھی حصے (ناک، منہ، پیشاب کی جگہ)سے خون آنے لگتا ہے
ڈاکٹر سید فیصل محمود کے مطابق کانگو وائرس سے متاثرہ مریض کا خون پتلا ہونے لگتا ہے، جس سے خون کے بہنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ وائرس جگر اور گردوں کو بھی متاثر کرتا ہے
ان کے بقول، کانگو وائرس کا آغاز تیز بخار سے ہوتا ہے تو اسی لیے وائرس کی بروقت تشخیص کرنا تھوڑا مشکل ہو سکتا ہے۔ تاہم اس بیماری کی تشخیص کے لیے کرونا کی طرح کا ایک پی سی آر ٹیسٹ ہی ہوتا ہے لیکن اس میں خون کے نمونے لیے جاتے ہیں
کیا اس بیماری کا علاج ممکن ہے؟
ڈاکٹر فیصل محمود کے مطابق اگر اس وائرس کی تشخیص بر وقت ہوجائے تو اس کا علاج کچھ ادویات کی مدد سے ممکن ہے، جن سے وائرس کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر تشخیص میں تاخیر ہو تو یہ بیماری مہلک ثابت ہو سکتی ہے
وہ کہتے ہیں کہ کانگو وائرس جسمانی اعضا کو تیزی سے خراب کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جب کانگو کی علامات ظاہر ہوں تو مریض کو معالج کو یہ بات ضرور بتانا چاہیے کہ حال ہی میں وہ جانوروں سے کتنا قریب رہا
ابھی تک اس وائرس سے بچاؤ کے لیے کوئی ویکسین نہیں بنائی گئی ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے اس سے بچا جا سکے۔