سابق وزیراعظم عمران خان کو منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کرنے کی دیر تھی کہ ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ پھوٹ پڑا۔
گذشتہ دو دنوں کے دوران مظاہرین نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ جلاؤ گھیراؤ کے واقعات بھی پیش آئے۔ ان واقعات کے بعد پولیس نے نقضِ امن کے خدشات کے پیش نظر تحریک انصاف کی مرکزی قیادت بشمول شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری سمیت سینکڑوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے بعد سیاسی اور سماجی حلقوں میں اب یہ بحث کی جا رہی ہے کہ اس پورے معاملے میں کس جماعت کو کیا سیاسی فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔
بی بی سی نے اس حوالے سے سیاسی رہنماؤں، عسکری امور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں سے بات کر کے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) یعنی موجودہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے مطابق یہ ایک قانونی معاملہ ہے اور اب عدالت کے فیصلے سے ہی معلوم ہو سکے گا کہ کس کو کیا فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی سینیٹر نزہت صادق نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کوئی بھی شخص بشمول سیاسی رہنما کسی مقدمے میں تحقیقات کے لیے مطلوب ہوتا ہے تو قانون یہی کہتا ہے کہ اسے گرفتار کیا جائے اور تحقیقات کی جائیں، اس سے قطع نظر کہ اس پورے معاملے میں کس کا سیاسی فائدہ یا نقصان ہوتا ہے۔
ان کے مطابق عمران خان ایک سیاسی لیڈر ہیں اور ان کی گرفتاری پر ردعمل تو آنا تھا مگر کسے فائدہ یا نقصان ہو گا اس بات کا انحصار اس نیب کیس کے نتیجے پر منحصر ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک قانونی معاملہ ہے اس میں حکومت کا کسی قسم کا دخل نہیں ہے۔ ان کے مطابق عمران خان کرپشن کے ایک مقدمے میں گرفتار ہوئے ہیں جس سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں۔
حسن مرتضیٰ کے مطابق جس طرح تحریک انصاف نے احتجاج کیا اس سے سب کو پتا چل گیا کہ اس جماعت کے کارکنان کس قدر پُرتشدد ہیں۔
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پُرتشدد مظاہروں میں ان کی پارٹی کے کارکنان ملوث نہیں تھے بلکہ یہ سب تحریک انصاف کے خلاف ایک سازش کے تحت کیا گیا تاکہ اس کا ملبہ عمران خان اور تحریک انصاف پر ڈالا جا سکے اور اس جماعت کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا جا سکے۔
شاہ محمود کے مطابق انھوں نے اپنے کارکنان کو یہ واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ احتجاج ضرور کریں مگر پرامن رہیں تاکہ حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کا کوئی بہانہ ہی نہ مل سکے۔
عمران خان کی گرفتاری سے فائدہ یا سوال سے متعلق جواب میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین کا کہنا تھا کہ حکمرانوں نے ملک کو مزید سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ان کے مطابق ملک میں معاشی بحران ہے، مہنگائی اور بے روزگاری ہے تو ایسے میں عمران خان کی گرفتاری سیاسی نادانی کا سوا کچھ نہیں ہے۔
خیال رہے کہ شاہ محمود قریشی اس سات رکنی کمیٹی کے بھی چیئرمین ہیں جو عمران خان کی غیرموجودگی میں پارٹی کے امور سنبھالے ہوئے تھی تاہم اس کمیٹی کے بیشتر اراکین کو اب نقضِ امن کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر اس پورے معاملے میں بڑا نقصان فوج اور ملک کا ہوا ہے۔
ان کے مطابق پہلی بار عوام جی ایچ کیو اور فوجی رہائش گاہوں میں داخل ہوئے، جس وقت تک فوج سیاست میں مداخلت کرتی رہے گی تو بحران مزید بری صورت اختیار کرتے رہیں گے۔
تجزیہ کار نسیم زہرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جو کچھ گذشتہ دو دنوں میں ہوا اس کے بعد اب تحریک انصاف احتساب عدالتوں سے نکل کر دہشتگردی کے مقدمات کا سامنا کرے گی۔ ان کے مطابق عمران خان کی گرفتاری ایک پیچیدہ معاملہ بن کر رہ گیا ہے کیونکہ ایک طرف الیکشن سے قبل عمران خان کو ہر صورت انتخابی دوڑ سے باہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری طرف خود عمران خان فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ایک سخت مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔
تاہم نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ حکومت میں بھی سیاسی رہنماؤں کو ایسے ہی مقدمات میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس وقت عمران خان کا مؤقف یہی ہوتا تھا کہ عدالتوں کا سامنا کریں۔
صحافی حامد میر نے بی بی سی کو بتایا کہ جس طرح تحریک انصاف کے کارکنان نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد ردعمل دیا ہے وہ طریقہ کار ٹھیک نہیں تھا۔ ان کے مطابق اس کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان کو ہی ہو گا کیونکہ جو ہوا وہ سیاسی ردعمل نہیں تھا۔
ان کے مطابق اب تحریک انصاف کے کارکنان کتنے روز تک جی ایچ کیو اور کور کمانڈرز کو گھروں کو نذرآتش کر سکتے ہیں۔
طلعت مسعود کے تبصرے سے اتفاق کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جو جِن تیار کیا گیا تھا اب بوتل سے باہر آیا ہے۔ یا یوں کہیں کہ جو بویا تھا وہ فصل اب تیار ہے۔‘
حامد میر کے مطابق اسدعمر اور شاہ محمود قریشی کا یہ دعویٰ کہ یہ کارکنان تحریک انصاف کے نہیں ہیں درست نہیں ہے۔ ان کے مطابق ان دونوں رہنماؤں نے سنہ 2011 کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی جبکہ کل جو ’ری ایکشن‘ دیکھنے کو ملا وہ پرانی پی ٹی آئی کا تھا۔
یاد رہے کے پی ٹی آئی کے رہنما پرتشدد مظاہروں کو اپنی پارٹی پالیسی کے برعکس قرار دیتے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ردعمل سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ پارٹی میں پرتشدد ردعمل کے بارے میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئیں تھیں جس کی وجہ سے قیادت کا کارکنان سے رابطہ کٹ گیا۔ انھوں نے اپنے کارکنان کو پرامن احجاج کرنے کی اپیل کی ہے۔
طلعت مسعود کے مطابق یہ بات درست ہے کہ عمران خان کو فوج نے شروع میں بہت ’لفٹ‘ دی جس کے ذریعے وہ اقتدار تک پہنچے مگر اب فوج ان کو سپورٹ نہیں کر رہی۔
ان کے مطابق عمران خان کی گرفتاری سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ عمران خان کے ساتھ لوگ کھڑے ہیں۔ ان کے مطابق انھیں عمران خان کی طرز سیاست پر اعتراضات ہیں مگر اس ساری صورتحال کا فائدہ آخر میں عمران خان کو ہو گا۔
ان کے مطابق عمران خان جمہوری اداروں اور پارلیمنٹ کی عزت نہیں کرتے اور جمہوری اقدار سے واقف نہیں ہیں مگر ہو سکتا ہے کہ اب جس طرح لوگ ان کا ساتھ دے رہے ہیں وہ آگے چل کر ان اداروں کی قدر بھی کریں۔
بشکریہ:بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)