خیرپور ناتھن شاہ کے گاؤں پوٹھو ماچھی میں خیمے میں اپنے بچوں کے ہمراہ رہنے والی عابدہ ماچھی کا کہنا ہے ”ہمارے بچے سیلاب کی وجہ سے ڈرے ہوئے ہیں، جیسے بارش ہوتی ہے یا طوفانی ہوا چلتی ہے تو بچے ہم سے چمٹ جاتے ہیں کہ امی ہم مر جائیں گے، ہم ڈوب جائیں گے“
یاد رہے کہ گذشتہ برس پاکستان میں آنے والے سیلابوں سے تینتیس لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے
سندھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ تھا، جہاں تیئیس لاکھ افراد بے گھر ہوئے، جن کی ایک بڑی تعداد آج بھی خیموں میں رہنے پر مجبور ہے اور ان کی بحالی کا کام سست روی کا شکار ہے
خیرپور ناتھن شاہ تحصیل سب سے زیادہ متاثر ہوئی، اس کے گاؤں پوٹھو ماچھی کی رہائشی عابدہ ماچھی بتاتی ہیں کہ سیلاب آنے کے بعد وہ یہاں سے نکل کر جوہی موڑ دادو چلے گئے وہاں پانی سمیت کئی مشکلات تھیں۔ وہاں سے تین ماہ کے بعد واپس آگئے اور باقی وقت گھر کے قریب واقع سڑک پر وقت گزارا کیا
خیرپور ناتھن شاہ شہر سے صرف ایک کلومیٹر باہر کچی اینٹوں سے اپنے گھر کی چھت بنانے میں مصروف محمد اسلم بتاتے ہیں کہ خود ہی چار دیواریں بنائی ہیں، خود ہی خیمہ لگا کر بیٹھے گئے۔ اتنے پیسے تو نہیں تھے جو کسی سے تعمیر کرواؤں اس لیے خود ہی اس کی تعمیر شروع کر دی
محمد اسلم کا کہنا ہے کہ پہلے خیمے میں کام چل جاتا ہے لیکن اب گرمی میں بیٹھا نہیں جاتا، اس لیے یہ بنایا ہے
خیمے کے اندر سے ان کی بیوی کی آواز رہی تھی، جو بتا رہی تھیں کہ رمضان میں خیمہ آگ برسا رہا تھا، وہ خیمے پر مسلسل پانی ڈال کر پھر اس میں بیٹھتے تھے
گوزو کے علاقے دلمراد منگنہار میں سارے ہی گھر مسمار نظر آئے۔ زہرہ منگنہار بیوہ ہیں ان کے خیمے کے باہر اینٹیں موجود تھیں۔ انھوں نے ’دو تین بکریاں فروخت کیں، کچھ پیسے بالیاں فروخت کرکے لیے، اس کے بعد تعمیر کے لیے اینٹیں، ریت اور سیمنٹ منگوایا ہے۔۔۔ سرکار معلوم نہیں کب گھر بناکر دے گی۔‘
دوسری طرف حکومت سندھ کے مطابق سیلابی بارشوں سے اکیس لاکھ سے زائد گھر متاثر ہوئے ہیں جن میں 79 فیصد کچا اسٹرکچر تھا، حکومت سندھ نے محکمہ ریونیو اور پاکستان فوج کی معاونت سے یہ سروے کیا تھا
حکومت نے مکمل مسمار گھر کا معاوضہ تین لاکھ روپے جبکہ جزوی گھر کے لیے ایک لاکھ روپے تعین کیا ہے۔ متاثرہ گھروں کے سروے کی توثیق اور تصدیق کا کام این جی اوز کو دیا گیا ہے جن کے اہلکار فہرست میں موجود گھروں میں جاکر ان کا معائنہ کرتے ہیں
خیرپور ناتھن شاھ تحصیل حالیہ بارشوں سے شدید متاثر ہے، یہاں کئی خاندانوں سے ملاقات ہوئی جن کا کہنا تھا کہ ان کے نام فہرست میں شامل نہیں ہے
پوٹھو ماچھی گاؤں نو ماہ گذرنے کے باوجود بھی پانی کے گھیرے میں ہے
سروے کے مطابق یہاں پر پینتالیس گھر بارشوں کی وجہ سے مسمار ہوئے تاہم یہاں کے رہائشی ان کی تعداد پچپن بتاتے ہیں یہاں پر اس وقت تک چھ ایسے گھر ہیں جن کے مالکان کو حکومت کی جانب سے مقررہ پیسے کی پہلی قسط چکی ہے جو پچہتر ہزار ہے
محمد نواز اپنے ٹوٹے ہوئے مکانات کی چند بچ جانے والی ادھوری دیواریں دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تین بھائی ہیں اور کسی کا نام بھی فہرست میں نہیں ہے، وہ خیمے میں بچوں کے ساتھ رہ رہے ہیں
خیرپور شہر کے مضافاتی علاقے کے رہائشی وسیم حسین نے بتایا کہ جو بھی ٹیم تصدیق یا توثیق کے لیے آرہی ہے کہتی ہی کہ آپ کا نام شامل نہیں جبکہ جب فوجی سروے کے لیے آئے تھے تو ہم نے نام تحریر کرائے تھے
وسیم حسین جس جگہ کھڑے تھے وہاں تین کمرے موجود تھے جن کی سامنے کی دیواریں اور نصف چھت گر چکی تھی۔ انھوں نے اینٹوں کو کھڑا کرکے دیوار بنائی تھی
انھوں نے اپنے پڑوس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نام بھی فہرست میں نہیں ہے
دلمراد منگنہار گاؤں میں ایک ایک خیمے میں کئی کئی لوگ نظر آتے ہیں، ایک رہائشی وزیر علی منگنہار نے بتایا کہ 2010 کے سیلاب کے بعد ایک این جی او نے انھیں سیمنٹ کے بلاکس کے ساتھ گھر بناکر دیے تھے حالیہ سیلاب سے وہ پہلے سے زیادہ متاثر ہیں لیکن ابھی تک حکومت کے سروے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا
حکومت سندھ کی طرف سے ایک کمرے کے مکان کی منظوری دی گئی ہے، جو چودہ بائی سولہ اسکوائر فٹ کا ہوگا
اس کے لیے تین لاکھ روپے چار اقساط میں ادا کیے جائیں گے، جس کی پہلی قسط ڈی پی سی سے ہوگی، اس ایک کمرے میں واش روم اور پانی کی لائن کا انتظام نہیں ہوگا
حکومت نے جو سروے کیا ہے اس کے مطابق دادو ضلع میں ایک لاکھ پینتس ہزار گھر مسمار ہوئے تھے، تاہم اس میں صرف اس وقت تک تیس ہزار گھروں کی توثیق و تصدیق ہو چکی ہے
حکومت نے ایک ایپ بنائی ہے جس میں ڈیٹا انٹری کی جاتی ہے
تھر دیپ نامی این جی او کے پاس دادو، جام شورو اور تھر کے مسمار گہروں کی توثیق اور تصدیق کی ذمہ داری ہے
دادو میں موجود تنظیم کے ذمہ دار سکندر علی راہموں کے مطابق انھیں جو فہرست ملی ہے، وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں، مستفید ہونے والے کا شناختی کارڈ دیکھا جاتا ہے ڈیٹا انٹری کے بعد اس کا بینک اکاؤنٹ کھلتا ہے جس میں رقم ادا کی جاتی ہے، تنظیم کے انجنیئر موجود ہیں جو ڈیزائن پر عمل درآمد کراتے ہیں یہ تین سال کا منصوبہ ہے جس میں ایک لاکھ 164 ہزار مکمل کرکے دینے ہیں
اس ایپ میں زمین کے ملکانہ حقوق کے بارے میں بھی سوال کیا جا رہا ہے، اگر یہ مکان پانی کی کسی گزر گاہ، کسی متنازع زمین یا کسی خطرے والی جگہ بنا ہوا تھا تو وہ شخص حکومت کی رقم سے مستفید نہیں ہو سکے گا
سندھ میں جب سیلابی بارشیں آئیں تو یہاں چاول، کپاس، مرچ کی فصل لگی ہوئی تھی، حکومت سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق اڑتیس لاکھ ایکڑ زمین متاثر ہوئی، سیلابی پانی کی نکاسی کے بعد گندم لگائی گئی
حکومت سندھ کے مطابق سیلاب سے پچاس لاکھ لوگ مزید غریب ہو گئے
محمد دین ببر کے مطابق انھوں نے تاخیر سے فصل لگائی ’اناج تو نہیں ہوا تاہم چارہ ہوگا۔‘
دوسری جانب کئی کسانوں نے کہا کہ زمینداروں نے ان سےگندم چھین لی۔ محمد خان ببر نے بتایا کہ جب فصل تیار ہوئی تو انھوں نے زمیندار کو بتایا، وہ آئے اور سارا اناج اور بھوسہ تک لے گئے
وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ’بیج ڈالا، کھاد کی کٹوتی کی۔۔۔ وہ منتیں کرتے رہے لیکن زمیندار نے کہا کہ یہ آپ کا قرضہ ہے اور انھوں نے ایک بھی نہیں مانی۔۔۔ بچوں کے کھانے کے لیے چند دانے بھی نہیں چھوڑے۔‘
پوٹھو ماچھی کے محمد نواز نے بتایا کہ ’کسی زمیندار نے کسان کو ایک روپیہ بھی معاف نہیں کیا۔ سارا حساب چکتا کردیا، اب دوبارہ انھیں چاول کے فصل کا انتظار ہے۔‘