شر پسندی کا سب سے آسان مگر زبردست مفہوم پنجابی زبان میں بیان ہوا ہے۔ دل تو چاہتا ہے لکھ ڈالوں لیکن جو چَھپ نہ سکے، اونُوں لِکھن دا فیدا کی؟ فیدا کی، کے حوالے سے عبیر اُبو ذری، جنہیں میں پنجابی زبان کا آخری بابا کہتا ہوئے دوسرے بابوں سے بالکل نہیں ڈرتا، فرما گئے ہیں:
پُلس نُوں آکھاں رشوت خور تے فیدا کی،
پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدا کی۔۔
اب آپ انگریزوں کی شر پسندانہ سازش کو ملاحظہ فرمائیں، یہ ہی کہ انہوں نے شر پسندی کا انگلش ترجمہ پنجابی زبان والا ہی کیا ہے۔ اس لیے شر پسندی کا انگریزی زبان والا ترجمہ بھی ناقابلِ اشاعت ہے
پاکستانی سیاست میں شر پسندی کی تاریخ بڑی پرانی ہے‘ جس کا راز عوام پر اس وقت کھلا جب ایوب خان کے زمانے میں بنیادی جمہوریت کا قانون گھڑا گیا۔ Basic Democracies کے ذریعے سے ملک کے ساڑھے 5کروڑ عوام میں سے‘ مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں سے کل آٹھ ہزار بلدیاتی کونسلر چنے گئے۔ جن کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اس ملک کا صدر منتخب کریں جس کا تب سرکاری نام ریپبلک آف پاکستان تھا۔ اس وقت تک پاکستان کی ریاست کے ساتھ نہ Democraticکا سابقہ لکھا ہوا تھا‘ نہ ہی اسلامک والا لاحقہ لگایا گیا تھا۔ ملکِ پاکستان کے 2 صوبے تھے‘ ایک مشرقی پاکستان اور دوسرا مغربی پاکستان
پاکستانیو ں کی اکثریت ملک کے مشرقی صوبے میں رہتی تھی جبکہ مغربی صوبہ اقلیتی آبادی والا تھا۔ مشرقی پاکستان ہی وہ خطہ ہے جہاں پہ آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ جس نے بعد ازاں حضرتِ قائداعظم ؒ کی ولولہ انگریز قیادت میں انگریزی اور ہندوستانی استعمار سے لڑ کر پاکستان حاصل کیا۔ اسی مشرقی پاکستان کے طول و ارض میں جب ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی الیکشن کی انتخابی مہم شروع ہوئی تو شیخ مجیب الرحمٰن سمیت مشرقی صوبے کی تمام قابلِ ذکر سیاسی شخصیات اورجماعتیں بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی بہن ڈاکٹر فاطمہ جناح صاحبہ کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کے جلسے اور استقبال میں لاکھوں لوگ شریک ہونے لگے۔ اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی صدراتی انتخابی مہم‘ جو سرکاری وسائل اور سرکاری خرچے پر چل رہی تھی‘ وہ سرکاری ریسٹ ہائوسز کے گیٹ سے باہر نہ نکل سکی
ملک کے مغربی صوبے میں بھی جمہوریت پسند اور آئین پرست عوام قائداعظمؒ کی بہن کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اس تاریخی حوالے سے آج کل سوشل میڈیا‘ چلیں جانے دیں‘ اسے صحیح معنوں میں آج کل Alternate یعنی متبادل میڈیا کہتے ہیں‘ پہلی تصویریں محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابی مہم والی چل رہی ہیں جبکہ دوسری تصویریں اس وقت کے اخباروں کی کٹنگز پر مبنی ہیں۔ جن کی شہ سرخی ہر جگہ ایک ہی ہے‘ جس میں سرکاری بیانیے کے الفاظ یہ ہیں: چند شر پسند ملک کا استحکام برباد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ شر پسند جمہوری حکومت کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ قوم انہیں پہچان گئی ہے۔ ہم ان شر پسندوں کو کچل کر رکھ دیں گے
عین ممکن ہے قارئین کے ذہن میں شر پسند عمران خان اور ملک کی حفاظت‘ ترقی اور استحکام کی ضامن پی ڈی ایم والی سرکار آرہی ہو۔ ایسے تمام خواتین و حضرات سے گزارش ہے وہ اس طرح کے شر پسندی کے خیالات کو دل سے نکال دیں تاکہ پی ڈی ایم کی قیادت میں ملک میں ڈالروں کے سیلاب‘ مفت آٹے کی بارش‘ بجلی‘ گیس‘ روٹی‘ دودھ‘ دوائی کی ”سَست بھائی‘‘ کو جاری رکھا جا سکے۔ آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور خیال شریف میں سرکاری بیانیہ شریف کا وِرد جاری رکھیں تو آپ کو پورے ملک میں عمران خان کے ساتھ مٹھی بھر چند شر پسند نظر آئیں گے جبکہ گلی گلی‘ نگر نگر‘ بستی بستی‘ شہر شہر ہر طرف پاپولر پی ڈی ایم کے پُر امن پھریرے لہراتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ (وضاحت کے لیے یہ کہنا ضروری ہوگا کہ گلی‘ نگر‘ بستی سے شاعر کی یہاں مراد مے فیئر‘ ہائیڈ پارک والا نگر اور UKکی بستی لندن ہے)
ایک اور قسم کے شر پسند عناصر بھی دریافت ہو چکے ہیں۔ یہ وہ شر پسند ہیں جو پی ڈی ایم حکومت سے 90روزہ آئینی مدت کے اندر الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ شر پسندی کی انتہا یہ ہے کہ الیکشن کا مطالبہ پورا کروانے کیلئے انہوں نے امن پسند قوتوں کے دو مطالبے مان لیے۔ پہلا پنجاب میں اپنی حکومت اپنے ہاتھوں سے توڑنے کا جبکہ دوسرا مطالبہ کے پی کی منتخب حکومت گھر بھجوانے کا۔ پی ڈی ایم نے اس شر پسندی کی شدید مذمت کی اور شر پسند عناصر پر واضح کر دیا کہ وہ کس قدر نااہل ہیں۔ انہیں اتنا بھی نہیں پتا کہ ہمارے مسلح ادارے مشرقی اور مغری بارڈر پر سکیورٹی چیلنج سے نمٹ رہے ہیں۔ اس حوالے سے وزارتِ دفاع نے شر پسندوں کو الیکشن کرانے کیلئے سکیورٹی فراہم نہ کرنے کے بہانے نہیں بلکہ ٹھوس دلائل لکھ کر دیے وہ بھی بذریعہ عدالت مگر اسی وزارتِ دفاع نے پچھلی رات پنجاب اور کے پی میں سکیورٹی کے لیے وہی مسلح ادارے بھاری تعداد میں بھیج دیے بلکہ ساتھ ہی وفاقی دارالحکومت بھی فوج کے حوالے ہو گیا۔ اب اگر کوئی یہ مطالبہ کرے کہ فوج چونکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں آہی چکی ہے‘ اس لیے اس کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری طور پر ان جوانوں کو الیکشن ڈیوٹی سونپ دی جائے‘ ظاہر ہے وہ بھی شر پسند ہی ہوگا
شر پسندی کا اگلا باب قلم زَد کرنے سے پہلے مجھے سپریم کورٹ جانا پڑ گیا۔ تین فاضل ججز جسٹس اطہر من اللہ‘ جسٹس محمد علی مظہر اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کے خلاف نیب کی کارروائی کو انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا اور انہیں پولیس کی حراست سے بھی رہائی دے دی۔ جبکہ یہ وکالت نامہ آپ کے ہاتھ پہنچے گا تب عمران خان آزاد شہری کے طور پر انصاف تک رسائی (Access to Justice) کے آئینی سفر کا پھر سے آغاز کریں گے۔ آج کے فیصلے کے بعد اغوا کار ہار گئے اور آئین کی بالا دستی کی واپسی کا بھی نیا سفر شروع ہوا۔ سپریم کورٹ نے آج جدید رُول آف لا وضع کیا۔ جس کے مطابق آئندہ پولیس یا کوئی سکیورٹی ایجنسی عدالت کے احاطے میں عدالت کی پیشگی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی ادارہ کسی بھی مجرم کو عدالت کی حدود کے اندر سے گرفتار نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی مسلح ادارہ کسی بھی ملزم کی گرفتاری کی غرض سے عدالتی احاطے میں عدالت کی اجازت کے بعد آ سکتا ہے، مگر عدالت سے ملزم کو گرفتار نہیں کر سکتا
شرپسندی کے موضوع پر شاعرِ عوام حبیب جالبؔ یاد آگئے، جنہوں نے کہا:
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شر پسند ہیں
میں نے اُس سے یہ کہا
عمران خان نے سپریم کورٹ کے فُل بنچ کے روبرو کہا: شر پسند کبھی الیکشن کا مطالبہ نہیں کرتے‘ وہ شر پسندی کرتے ہیں تا کہ الیکشن نہ ہو سکے۔
بشکریہ: روزنامہ دنیا
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)