سیاسی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو تحلیل کرنے کی کوئی بھی کوشش ممکنہ طور پر ملک کو ایک گہرے سیاسی بحران میں دھکیل دے گی
9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد پرتشدد احتجاج کے دوران پاکستانی فوجی تنصیبات پر حملے کے الزام میں اب تک پی ٹی آئی کے ساڑھے سات ہزار سے زائد اراکین اور حامیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنوں اور رہنماؤں کو عدالتوں سے ضمانت ملنے کے بعد بھی دوبارہ گرفتار کر لیا گیا
پاکستانی حکام نے متنبہ کیا کہ پرتشدد مظاہروں میں ملوث مشتبہ افراد کو ملک کی متنازعہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ عدالتیں عام طور پر ریاست کے دشمنوں کے لیے مخصوص ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نےعام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے
فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد سے پی ٹی آئی کے متعدد ارکان پارلیمنٹ، سابق وزراء اور عہدیداران پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں۔ عمران خان نے زور دے کر کہا کہ ان لوگوں پر پارٹی سے علیحدگی کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا
عمران خان گزشتہ سال اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد سے ملکی فوج پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ اس مہینے کے آغاز پر عمران خان نے فوج پر انہیں اغوا کرنے کا الزام بھی لگایا – یہ ایک ایسا دعویٰ تھا، جس نے فوج کو مشتعل کیا اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اسے مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا
کراچی میں مقیم ایک تجزیہ کار توصیف احمد خان نے نشاندہی کی کہ جو بھی پاکستانی فوج کو چیلنج کرتا ہے، اسے ملک کے سب سے طاقتور ادارے کے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سابق وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور ان پر دوبارہ انتخاب لڑنے پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے
انہوں نے کہا ”اس طرح کے دباؤ سے پارٹی متاثر ہوگی۔ مزید لیڈروں کو خان سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ لہٰذا، ایک طرح سے پارٹی کو ختم کر دیا جائے گا‘‘
واضح رہے کہ اس وقت سابق وزیر اعظم پاکستان کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک ماہرِ تعلیم نور فاطمہ کا خیال ہے کہ ان کی پارٹی پر پابندی سے ان کے حریفوں کو خان سے زیادہ نقصان پہنچے گا
انہوں نے کہا ”یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا
نور فاطمہ نے مزید کہا کہ سیاسی کثرتیت جمہوریت کو مضبوط کرتی ہے۔ اگر حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگا کر اس کثرتیت کو ختم کرتی ہے تو اس سے حکمران جماعتوں کی جمہوری ساکھ کو نقصان پہنچے گا، جس سے ان کے ووٹ بینک متاثر ہوں گے، نہ کہ خان کے
صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی ایک کارکن سعدیہ نے کہتی ہیں ”اگر پی ٹی آئی کو کالعدم قراردیا گیا تو یہ ایک نظیر کے طور پر کام کر سکتا ہے، ہم پی ٹی آئی کے طرزِ سیاست کو پسند نہیں کرتے لیکن کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کی سخت مخالفت کریں گے۔ ایسی پابندی کا مطلب ملک کے جمہوری مستقبل کے لیے تباہی پھیلانا ہوگا“
توصیف احمد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ ”ایک سیاسی جماعت پر پابندی سے فوج کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگی۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوگا کہ جمہوری جماعتیں سیاسی بحرانوں سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں“
انہوں نے مشورہ دیا کہ سیاستدانوں کو پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے عمل کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔