میں تو ابو ہوں، میری بات کوئی کیوں نہیں مانے گا؟

حسنین جمال

ابا ڈاکٹر نہیں بن پائے تو اولاد ضرور بنے گی، ابا ڈاکٹر بن گئے، تب تو ضرور بنے گی، کیوں، اسے آپ نے پیدا کیا ہے اس لیے؟

بچے ہماری لیبارٹری نہیں ہوتے۔ زندگی بھر ہم لوگ جن اچھی بری چیزوں سے گزرتے ہیں، ان کا نام ’تجربہ‘ رکھ کر آنے والوں کے لیے ماحول بنانا شروع کر دیتے ہیں

ڈاکٹر والا تو ایک کیس ہے، انجینیئر، فوجی، وکیل، اداکار، ماڈل، صحافی، سیاست دان، ڈویلپر یا کوئی بھی پیشہ فرض کر لیں، جن ’ابو جی‘ نے کہیں روزی کما لی ان کی پوری کوشش ہو گی کہ بچے اسی فیلڈ میں کھپ جائیں

اس میں کوئی برائی نہیں۔ موجودہ عمر میں اگر پیچھے مڑ کر دیکھوں تو نظر آتا ہے کہ جو بچے ماں باپ کے آکھے لگ گئے وہ ٹھیک ہی رہے لیکن جو نہیں لگ سکے انہیں کوئی دوسرا اچھا کام کر کے بھی ساری عمر پچھتاوے نے گھیرے رکھا یا کم از کم ایک کسک دل میں رہی کہ ’یار ابا کی خواہش پوری نہیں کر پائے، کاش جو انہوں نے کہا تھا، وہ سب کر لیتے، کم از کم وہ خوش تو ہو جاتے ہم سے۔۔‘

ہمیں ایسے والے پیرنٹس بننے کی ضرورت کیوں ہے؟ کہ ہمارے رخصت ہونے کے بعد بچے مسلسل ایک ٹینشن لیے پھریں اور افسوس میں سوچتے رہیں: ’ابا جی مجھ سے خوش نہیں تھے یا اماں کی حسرت کاش میں پوری کر دیتا، کوئی ایک اولاد تو وکیل بن جاتی‘

اب فرض کر لیں کہ بچہ مالی طور پہ کامیاب ہو گیا۔ اس نے وہی پیشہ چنا جو اس کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور وہ اس میں بہترین انتہاؤں کو پہنچ گیا۔ زیادہ تر کیسوں میں ادھر بھی وہ خوش نہیں ہے۔۔ کیوں؟

کیوں کہ وہ فیشن ڈیزائنر بننا چاہتا تھا، آپ نے اسے ڈاکٹر بنا دیا، وہ سافٹ ویئر ڈویلپر بننا چاہتا تھا آپ نے اسے انجنیئر بنا دیا، وہ ایک کامیاب گلوکار بننا چاہتا تھا آپ نے اسے وکیل بنا دیا، اس کی روح ایک آرٹسٹ والی تھی آپ نے اسے حساب کتاب میں لگا دیا

بچہ کچھ بھی کر لیتا، کامیاب ہو جاتا یا ناکام رہتا، اس کی زندگی چلتے رہنا تھی۔ آپ خود اپنے آس پاس دیکھیں، یاد کریں وہ سارے کلاس فیلو جو کسی وجہ سے زیادہ نہیں پڑھ سکے، کوئی وائٹ کالر نوکری نہیں کر سکے، ایسا پیشہ نہیں اپنا سکے جو اماں باوا کی نظر میں ’باوقار‘ ہو، کیا وہ سب ناکام ہیں؟ کیا ان میں سے کچھ مالی طور پہ آپ سے زیادہ کامیاب نہیں ہیں؟ کیا ان میں سے کچھ بظاہر آپ سے زیادہ خوش نظر نہیں آتے؟ تو زندگی جو ہے وہ اپنی طرز پہ چلتی ہے، اس نے رکنا ہے نہ بدلنا ہے، ہاں آپ کی خواہشات جو ہیں انہوں نے ساری عمر بچوں کا گلا دبائے رکھنا ہے، اس اخلاقی پھندے سے وہ کبھی نجات نہیں پا سکتے کہ جو آپ چاہتے تھے وہ نہیں ہوا، یا ہو گیا تو بچہ ہمیشہ کے لیے دوہری شخصیت میں تقسیم ہو گیا۔ اندر سے وہ فنکار روح تھا اور آپ کی وجہ سے ڈاکٹر ہے یا کچھ بھی اور ہے

یہ اتنی پیچیدہ بات نہیں ہے کہ سمجھ نہ آ سکے۔ اتنی مشکل بھی نہیں ہے کہ اس پر سوچا نہ جا سکے۔ مشکل صرف اپنی انا، اپنی خواہش قربان کرنا ہے، جو آپ ایک روایتی ماں باپ والے منصب پر بیٹھ کے اپنا حق سمجھتے ہیں۔

اس کا مطلب کیا ہے؟ بچوں کو شترِ بے مہار چھوڑ دیں؟ کچھ پوچھیں، نہ کچھ کہیں؟

نہ۔۔۔ یہ ہرگز اس بات کا مقصد نہیں ہے۔ خواہش صرف اتنی سی ہے کہ پڑھائی ہو، نوکری یا کوئی کاروبار، بچوں کو آپ کسی بھی فیلڈ میں دھکیلنا چاہتے ہیں تو اس پہ سختی کی مُہر نہ لگائیں۔ دیکھیں، آبزرو کریں، بچوں کے شوق جانیں، ان کی رپورٹ سکول سے لیں اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ وہ آپ والی لائن پہ نہیں چلنا چاہتے تو اپنے جیتے جی ان پہ سے یہ پابندی کھلے دل سے ہٹا لیں کہ تم نے یہ بننا ہے یا وہ کرنا ہے۔ انہیں یہ بتاتے جائیں کہ تم نے جو کچھ بھی کیا وہ تمہاری طبیعت کے مطابق تھا اور ہم بہت خوش ہیں کہ تم نے اپنی مرضی سے پوری زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا

کتنے لوگ جو اس وقت یہ سب دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں وہ اپنی ساری زندگی کسی دوسرے کی خواہش پوری کرنے میں راکھ کر چکے ہوں گے، کہ نہیں؟

آنے والوں کو اس ساری تکلیف سے بچایا نہیں جا سکتا کیا؟

اب رہ گئی بات ہماری آپ کی، ’میں ابو ہوں، مجھے میرا حق کون دے گا؟‘ ’میں تو ماں ہوں، میری اولاد ایک چھوٹی سی خواہش پوری نہیں کر سکتی کیا؟‘ تو یہاں جان لیجیے کہ ہم آپ اس وقت بھی اپنے بچوں کو اپنی تیار کردہ لیبارٹری میں ہی پال رہے ہیں

ہماری خواہشیں، ہمارے حق، ہماری عزتیں، ہمارے مان، ہمارے بھرم، ہماری وضع داریاں ۔۔۔ ان ساری سولیوں پہ ٹنگے ہوئے ہمارے بچے پہلے بھی دوغلی زندگی گزار ہی رہے ہیں۔ جب تک روٹی پانی کے لیے وہ ہمارے پاس ہوتے ہیں، تب تک اپنی مجبوری سے، اور جس وقت وہ بڑے ہو جاتے ہیں تب ہمارے احترام اور عزت کی وجہ سے، تو میرا ذاتی خیال ہے کہ ہمارے لیے اتنا سب کچھ جو ہے وہ کافی ہونا چاہیے، ہمیں ان کے مسقبل کے لیے پچھتاوں کے تحفے تیار نہیں کرنے چاہییں

باقی ایک چیز یاد رکھیے۔ ہم لوگ تاریخ میں یاد رکھے جانے والی نسل ہیں۔ ہمارے پیدا ہوتے وقت دنیا بڑی سست رفتار سی تھی۔ ہم بس دیکھتے رہے اور اس وقت اپنے ہاتھوں میں ایک عدد ٹیلیفون، ٹیپ ریکارڈ، وی سی آر، ریڈیو، کیمرہ، فیکس، ڈاک خانہ، بینک، کمپیوٹر، وائرلیس واکی ٹاکی، ٹیلیویژن اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ ایک موبائل کی صورت میں اٹھائے بیٹھے ہیں۔ جب سارے گھر کا سامان مٹھی میں بند ہو سکتا ہو تو اس ترقی کی سپیڈ کے لیے کوئی نہ کوئی قیمت بھی ہمیں ادا کرنا ہو گی۔ وہ قیمت اس وقت ہمارے بچوں کی ذہنی آزادی ہے جو شاید خود پہ تھوڑی محنت کرنے کے بعد ہم انہیں باآسانی دے سکتے ہیں

ٹیکنالوجی اپنی قدریں خود طے کرتی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھانے والے اسی کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ یہ ہمارے والا ٹائم نہیں ہے! ہم آپ، سب، بدلتے وقت کے ساتھ گردن نہیں جھکائیں گے تو یہ ٹوٹ جائے گی یا کسی اور کو توڑے گی۔ فائدہ کیا ہے؟

سوچیں اور بچوں کو سکون سے رہنے دیں۔۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close