کھلائے ہیں آگ میں پھول، زندانی نثر یا جیل میں لکھا ادب

حسن مجتبیٰ

”اب سارے واقعات خود بولتے جاؤ۔ یاد رکھو، جہاں میرا قلم رکا، وہیں تمہاری پٹائی شروع کروں گا۔“
اور میں اسے گذشتہ تین سال پر مبنی واقعات لکھوانے لگا۔ ذہن سخت مائوف تھا، اس لیے واقعات کے تسلسل میں ذرا بھی ٹھہراؤ پیدا ہوتا، دو تین تھپڑ میری گردن پر آ کر لگتے، جس سے ذہن کو اور دھچکا لگتا اور واقعات پھر سے گڈ مڈ ہوجاتے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری تھا کہ ایک دم سے میجر اٹھا اور بولا:

”اس کی آنکھیں بند کر کے اسے جیپ میں بٹھا دو اور اسے ہربنس پورہ لے جا کر درخت کے ساتھ باندھ کر گولی مار دو۔“

یہ سرگزشت جنرل ضیا کے مارشل لا حکومت میں شاہی قلعے میں قید ایک سیاسی کارکن آغا نوید کی ہے، جو انہوں نے اپنے قید و بند کے دنوں کے بارے میں اپنی کتاب ’دوسرا جنم‘ میں لکھی ہے

جیل کی سلاخوں کے اُس پار یا عقوبت خانوں اور زندانوں کی دیواروں کے اندر محبوس قیدیوں کے شب و روز کے روزنامچے یا ڈائریاں اور خطوط تحریر کرنے کی تواریخ بہت ہی پرانی ہے دنیا بھر میں

مگر میں جس کا ذکر کر رہا ہوں، وہ پاکستان کی جیلیں اور چھوٹے بڑے عقوبت خانے تھے، جہاں ہر دور میں قید و محبوس سیاسی قیدیوں نے اپنے قلم سے داستان دار و رسن تحریر کی ہیں۔ اپنے پیاروں کو خطوط لکھے ہیں، جو کتابی شکلوں میں موجود ہیں اور ادب میں ایک صنف کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ کسی نے اس کو ٹھیک نام دیا ’زندانی نثر‘ جیلوں میں لکھی ہوئی یہ شایع شدہ ڈائریاں اردو، سندھی، بلوچی اور پشتو زبانوں میں ہیں۔ ایسے زندانی نثر کے کچھ لکھاری تو مختلف حکومتوں (سول تھیں کہ فوجی) کے مختلف ادوار میں ایک سے زیادہ مرتبہ قیدی بنے اور اپنی ہر دور میں قید کے شب و روز کو قلمبند کیا

جب میں بچپن سے ’بچوں کی دنیا‘ اور ’نونہال‘ پڑھنا چھوڑ کر ٹین ایج میں پہنچا، تو جو سب سے پہلی اردو کی دو کتابیں دیکھیں اور پھر چند سال بعد پڑھیں بھی، وہ کتابیں فیض احمد فیض کی ’صلیبیں میرے دریچے میں‘ اور شورش کاشمیری کی ’پسِ دیوارِ زندان‘ تھیں

پسِ دیوارِ زنداں مقرر، مدیر، شاعر و صحافی شورش کاشمیری کی جیل کی سرگزشت ہے جب وہ انگریزوں کے بیٹھکی راج میں تقریر کرنے پر 1945 میں ڈیفینس آف انڈیا رولز میں گرفتار ہو کر لاہور جیل میں قید تھے

’صلیبیں میرے دریچے میں‘ فیض احمد فیض کے اپنی اہلیہ ایلس فیض کو لکھے گئے خطوط اور جوابی خطوط ہیں۔ یہ خطوط انہوں نے جون انیس سو اکاون سے لے کر انیس سو تریپن تک لکھے تھے، جب وہ راولپنڈی سازش کیس میں حیدرآباد سینٹرل جیل میں قید تھے

شورش کاشمیری نے اپنی کتاب ‘پس دیوار زنداں’ میں جیل کا نقشہ کچھ یوں کھنچا ہے:
”جمعدار نے گنتی بند کرنے کا اعلان کیا تو سب اپنی چکی سی ای 77 میں چلے گئے۔ سلاخوں کے دروازے لوہے کا ہڑکا، دیوار کا آہنی آویزا، آویزا میں دو تالے، قبر سے دوگنی کوٹھری، پائنتی کی طرف پانی کی جھجھر، کونے میں بول براز کا برتن، تھڑے پر منج کی چٹائی، ایک کمبل، ایک چادر، ایک پرنا، یہی اوڑھنا یہی بچھونا، جولائی کا مہینہ، گرمی کے دن، مچھر حاضر، ہوا غائب، گھپ اندھیرا۔
باہر اچھرہ روڈ پر تانگوں کے پہیوں کی چیخیں، گھوڑوں کی ٹاپیں، لاریوں کا غل موٹروں کا شور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راہگیروں کی اکا دکا آوازیں، فلم کے بول، ٹوٹی ہوئی دُھنیں اور آوارہ مصرعوں پر لے کا غلاف۔۔۔۔۔۔۔ معاً جگنو کی روشنی سے خیالوں کا بت کدہ جگمگا اٹھا۔ یکایک ماضی کے نگار خانے میں رونق سی پیدا ہو گئی۔“

شورش کاشمیری کی اردو زبان پر قدرت کا اعتراف ذوالفقار علی بھٹو نے جیل کی کال کوٹھری سے اپنی لکھی انگریزی کتاب ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ میں کچھ ان الفاظ میں کیا ہے: ”اگر اچھی اردو کی بنیاد پر ووٹ پڑتے تو پھر پاکستان کے عوام مجھے نہیں عطاءاللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری کو ووٹ دیتے۔ میری خراب اور ٹوٹی پھوٹی اردو کے باوجود پاکستان کے لوگوں نے مجھے ووٹ دیے کیونکہ وہ خود ٹوٹے پھوٹے تھے۔“

فیض احمد فیض ’صلیبیں میرے دریچے میں‘ اپنے ایک خط میں ایلس فیض کو لکھتے ہیں: ”اب تو یوں ہے اگر کوئی یاد نہ دلائے تو یاد بھی نہیں آتا کہ ہم جیل خانے میں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے یہاں ہیں۔۔ اور اگر یہاں سے باہر جانے کو جی چاہے تو کوئی ہمیں روک بھی نہیں سکتا۔ جیل میں ہمارا گھر اچھا خاصا ہے۔ کھانے پینے کو کافی ملتا ہے۔ گرمی کچھ ایسی زیادہ نہیں۔ اسیری کے سب سے زیادہ برے دن کٹ چکے ہیں اس لیے کہ اب کچھ اور بھی ہو، نہ قید تنہائی کا سامنا باقی ہے، نہ پولیس کی تکلیف دہ پوچھ گچھ کا ڈر ہے اور اپنی جان اور ناموس دونوں سلامت ہیں۔ اب تمہاری اور بچوں کی تصویریں سامنے رکھ کے خوشی سے مسکراتا ہوں۔ تمہاری یاد سے پہلے کی طرح دل نہیں دکھتا، اور یہ یقین پہلے سے زیادہ محکم ہو چلا ہے کہ زندگی خواہ کچھ بھی دکھاوے، بالآخر بہت خوب شے بھی ہے اور حسین بھی۔۔“

اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں پہلی جیل ڈائریاں یا زندانی نثر راولپنڈی سازش کیس میں قید اسیروں، فیض احمد فیض کی کتاب ’صلیبیں میرے دریچے میں‘ اور کیپٹن ظفر اللہ پوشنی کی ’زندگی زندان دلی کا نام ہے‘ ، یا فیض احمد فیض کی شاعری کے مجموعے ’زندان نامہ‘ پر لکھا میجر اسحاق محمد کا مقدمہ ہیں۔

ظفراللہ پوشنی کی ’زندگی زندان دلی کا نام ہے‘ میں بھارتی ڈاکو بھوپت سنگھ (جو بھارت میں نہرو کی زمینداری کے خاتمے کے خلاف کسانوں کو زمینداروں کی طرف سے ڈرانے اور انہیں قتل کرنے کے بعد پاکستان بھاگ آیا تھا اور پھر مشرف بہ اسلام ہو کر بھوپت سنگھ سے شیخ یوسف امین بن گیا۔ بھارت میں اس پر ’ڈاکو بھوپت‘ کے نام سے فلم بھی بنی ہے) ڈاکو رحیم ہنگورو اور اس کا جیل سے فرار، اور کئی دنوں بعد سیاسی قیدی بن کر آنے والے جی ایم سید، سوبھو گیان چندانی، غلام محمد لغاری اور میر محمد تالپور کا بھی ذکر ہے)

جب اکتوبر 1958 کو ملک میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو اس کی مخالفت کرنے والا پہلا شہری ایک مزدور سیاسی کارکن قمر یورش تھا، جس نے لاہور شہر میں اپنے ہاتھ سے مارشل لاء کے خلاف پمفلٹ لکھ کر دیواروں پر چسپاں کیا تھا۔ یورش قمر کو گرفتار کر کے اسے شاہی قلعے کی ’تفتیش گاہ‘ لایا گیا تھا۔ قمر یورش نے شاہی قلعے میں اپنی قید اور اپنے پر ہونے والے بہیمانہ تشدد کی روداد ’شاہی قلعے کی ڈائری‘ کے عنوان سے ایک کتابی صورت میں لکھی ہے

لیکن انیس سو پچاس سے لے کر انیس سو ساٹھ کی دہائیوں تک ایوب خان کا مارشل لاء تھا کہ یحییٰ خان کا فوجی راج یا ون یونٹ کا نفاذ، سندھ کی ہاری تحریک کے لیڈر غلام محمد لغاری کے لیے جیل گویا دوسرا گھر تھا۔ غلام محمد لغاری نے اسی قید و بند کی داستان اپنی سندھی زبان میں کتاب ’زندان جے جھروکے ماں‘ (زندان کے جھروکے سے) میں قلمبند کی ہے

سندھی زبان کے بڑے شاعر شیخ ایاز کی کتاب ’ساہیوال جیل جی ڈائری‘ جو اب اردو میں بھی ’ساہیوال جیل کی ڈائری‘ کے نام سے ترجمہ ہوئی ہے، زندانی تحریروں کو شاہکار ادب کا حصہ بناتی ہے۔ شیخ ایاز انیس سو پینسٹھ کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران بھی نظربند ہوئے تھے۔ لیکن دوسری بار وہ 1968 میں ڈیفینس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار ہو کر ساہیوال جیل بھیجے گئے تھے۔ شیخ ایاز لکھتے ہیں کہ ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو بھی ساہیوال جیل میں تھے۔

شیخ ایاز تیسری بار انیس سو اکہتر میں بھی گرفتار ہوئے تھے۔ مشرقی بنگال پر فوجی کارروائی کی مخالفت کرنے کے کیس میں انکے ہمراہ ان کے دوست اور سندھی ادیب رشید بھٹی بھی سکھر سینٹرل جیل میں قید تھے، جنہوں نے اپنی جیل ڈائری ’اسین لوچیوں لوہ میں‘ لکھی ہے

شیخ ایاز ساہیوال جیل کی ڈائری میں لکھتے ہیں ”ہر روز جیل کا جمعدار صبح سویر مجھے داڑھی مونڈھنے کو دو بلیڈ دے جاتا ہے۔ اور پھر بار بار پوچھنے آتا ہے کہ میں نے شیو کی یا نہیں۔ شاید اسے یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں میں اپنا گلا بلیڈ سے کاٹ نہ لوں۔ اسے کیا خبر کہ اس گلے میں ہزاروں گیت ہیں، جو کسی بھی زندان کی دیوار کو لرزا کر ڈھیر کر سکتے ہیں“

لیکن یہ 1969 تھا، جب ایک نہتی لڑکی کھلے میدان پر حیدرآباد سندھ کے ڈپٹی کمشنر ہائوس کے سامنے بھوک ہڑتال پر بیٹھی تھی۔ یہ لڑکی اختر بلوچ تھی۔ اس لڑکی کا مطالبہ تھا کہ ووٹر فہرستیں سندھی زبان میں بنائی جائیں۔ پولیس نے بھوک ہڑتالی کیمپ پر دھاوا بولا، اختر بلوچ کو گرفتار کر کے جیل پہنچایا۔ جیل میں اس نے اپنی قید کے شب و روز پر ایک کتاب سندھی میں ’قیدیانی جی ڈائری‘ لکھی، جو اب اردو میں ‘امیدِ سحر۔ ایک طالبہ کی جیل ڈائری‘ کے نام سے اور انگریزی سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں حیدرآباد سندھ سے ایک ادبی جریدہ ماہنامہ ’سوھنی‘ شائع ہوتا تھا، جس کے ایڈیٹر طارق اشرف کو اپنے جریدے میں بھٹو حکومت کے خلاف اداریے لکھنے پر دو بار گرفتار کیا گیا تھا۔ اور اسی طرح طارق اشرف بائیس ماہ جیل میں رہے تھے۔ انہوں نے جیل پر تین کتابیں لکھیں۔ ایک کتاب ان کی اپنی قید کے حالات پر ”بائیس مہینے جیل میں“ کے عنوان سے، دوسری کتاب ”جیل گذاریم جن سیں“ (جن کے ساتھ میں نے جیل کاٹی) ، اور تیسری کتاب ایک قیدی ’ڈاکو میرو لانگھو‘ کی زندگی پر ناول کی صورت میں لکھی ۔ طارق اشرف تیسری بار پھر ’سوھنی‘ میں اداریہ لکھنے پر جنرل ضیا کے مارشل لا کے دنوں میں گرفتار کیے گئے تھے اور انہوں نے اپنی اسیری پر ایک اور کتاب لکھی ’ہَتَھیں ہتھ کڑول‘ (ہاتھوں میں ہتھکڑیاں)

سندھ میں عبدالواحد آریسر اپنی تقریر و تحریر پر بھٹو حکومت سے لے کر ضیا دور تک جیلوں میں اور پھر بینظیر اور مشرف حکومت میں غائب بھی رہے تھے۔ یعنی نفاذی جبری گمشدگی۔ انہوں نے اپنی اس تمام اسیری کے سالوں پر تین کتابیں تحریر کی ہیں، جو اب ایک ہی جلد میں موجود ہیں۔ یعنی کہ ایک قیدی مختلف ادوار حکومتوں کا سیاسی اسیر۔ لکھتے ہیں:
”حیدرآباد پہنچ کر میری باقی تلاشی لی گئی، اور میری آنکھوں پر سے میری بیوی کا دوپٹہ اتار کر، ایک ہری پٹی باندھی گئی۔ ایک مرغوں کے ڈربے جیسی جگہ میں مجھے داخل کیا گیا۔ وہاں میری جیب میں سے سگریٹ کا پیکٹ اور ماچس نکال لیے گئے۔ عمر کوٹ سے مجھے لے کر آنے والے ایجنسی کے آدمی نے دبے لفظوں میں اس پر احتجاج کیا کہ قیدی سے ماچس نہیں چھینی جاتی مگر نئے عملداروں نے کہا، یہ تمہارا قانون ہوگا، ہمارے ہاں خطرناک چیز ماچس ہے۔“

فوجی حکمران ضیاء الحق کے مارشل لاء اور پھر ایم آر ڈی تحریک کے دنوں میں سندہ سمیت ملک کے جیل سیاسی قیدیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ انہی دنوں میں کوٹھ لکھپت میں قید رسول بخش پلیجو کی ’کوٹ لکھپت جو قیدی‘ کراچی اور سکھر جیل میں قید مولانا جاوید نعمانی کی جیل ڈائری، جام ساقی کیس کے دو اسیروں بدر ابڑو اور شبیر شر کی جیل ڈائریاں، جیئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے علی محمد شاہ لکیاری کی جیل ڈائری، پیپلزپارٹی کے مولا بخش چانڈیو کی ’ذکر زندان جو‘، سندھی شاعر و ادیب تاج جویو کی ’کھولی متھے چنڈ‘ ، اعجاز خواجہ کی ‘ایم آر ڈی جا قیدی‘ ، سروان سندھی کی ’گھنگھر گھنڑو تھیاس‘ شاہی قلعے اور پنجاب کی جیلوں میں قید آغا نوید کی ’دوسرا جنم‘ آصف بٹ کی ’کئی سولیاں سر راہ تھیں‘ پروین خان کی ’مارشل لاء کے قیدی‘ میجر آفتاب کی ’اٹک قلعے سے‘ اس دور کی غیر سنسر شدہ تاریخ ہے، جو سیاسی قیدیوں کی کہانی زیادہ تر ان کی اپنی زبانی بیان کرتی ہے

دو وزرائے اعظم کی کتابیں ذوالفقار علی بھٹو کی موت کی کال کوٹھری سے ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ اور جیل سے یوسف رضا گیلانی کی ’چاہِ یوسف سے صدا‘ ہے

فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور حکومت میں رکن قومی اسمبلی جاوید ہاشمی کی کتاب ’ہاں، میں باغی ہوں‘ نیب کے تفتیشی مرکز میں قید سندھ کے اب صوبائی وزیر اسماعیل راہو کی ’جيل جا ڈینھن, جیل جون راتیوں‘ سندھی قوم پرست رہنما نواز زئونر کی اس کی جبری گمشدگی کے دنوں پر ’قیدی تخت لاہور جا‘ اور سندھی شاعر اور صحافی ایوب کھوسو کے توہین مذہب کے الزام میں ان کی قید کے دنوں کی ڈائری ہے

سندھی شاعر، مصنف اور نقاد تاج جویو نے اپنی جیل ڈائری ’کھولی متھے چنڈ‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ تاج جویو 1981 میں نو مہینے جیل گئے تھے۔ جیل میں اپنی ڈائری لکھنے کے متعلق بتاتے ہیں کہ یہ ضیا مارشل لاء تھی اور جیل میں بہت سختی تھی۔ وہ قلم اور کاغذ چھپا کر لکھتے تھے اور پھر اصل مسئلہ ان کاغذوں کو جیل سے باہر بھیجنا ہوتا تھا، جو قیدیوں کے سامان میں چھپا کر بھیجنا پڑتے تھے۔ تاج جویو کو کوڑوں کی سزا بھی سنائی گئی تھی، جو بعد میں معاف کردی گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اب سندھی زبان میں جیل ڈائریاں متواتر لکھی جا رہی ہیں

”کیا یہ سندھی ادب میں صنف ہے؟“ میں نے ان سے پوچھا۔ تو ان کا جواب تھا ”ہونی چاہیے۔“

بلوچی زبان کے نوجوان افسانہ نگار حنیف شریف، جو ان دنوں جرمنی میں رہائش پذیر ہیں، نے فوجی حکمران پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں اپنی جبری گمشدگی کے متعلق بلوچی زبان میں اپنی کتاب ’باران وری‘ میں اپنی بپتا کچھ اس طرح رقم کی ہے:
”معمول کے مطابق میں اپنے ادبی دوستوں کے ساتھ پارک سے نکلا اور محلے کے ریستوران آیا۔ دوستوں کو دودھ والی اور مجھے سیاہ چائے پینی تھی۔ اس دوران عابد کہہ اٹھا یہ لوگ کون ہیں۔ میں نے مڑ کر پیچھے دیکھا، کچھ نقاب پوش لوگ دکھائی دیے۔ میں نے اس بات کو اہمیت نہیں دی۔ بلکہ اپنا منہ پھیر لیا۔ اسی لمحے کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ حنیف، حنیف شریف، میں نے جواب دیا۔ جس پر اس نے کہا چلو ہمارے ساتھ۔ ۔ ان کو بس تفتیش کرنی تھی یا وہ غلطی کر بیٹھے تھے یا ان کو مجھ پر تشدد کا بہانہ چاہیے تھا۔ ان کو لگتا تھا کہ میں بی ایل اے کا خاص بندہ ہوں، ان کا سٹی کمانڈر ہوں۔ تربت میں بی ایل اے میرے حکم پر چلتی ہے۔“

’باران وری‘ پشتو زبان کے الفاظ ہیں، جن کا مطلب ہے ’بارش ہو رہی ہے‘ اس کا پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ دو الفاظ حنیف شریف نے اپنے اوپر مقرر پشتو بولنے والے پہرے دار سپاہی سے لیے ہیں، جو وہ آکر کہتا تھا، جب بارش ہو رہی ہوتی تھی

کیا ایسا ’زندانی ادب‘ پشتو میں بھی لکھا گیا ہے؟ میں نے یہ سوال پشتو زبان کے معروف صحافی اور لکھاری عبدالحئی کاکڑ سے پوچھا تو ان کا جواب تھا: ”اجمل خٹک کی اپنی قید کے دنوں پر لکھی پشتو میں شاہکار کتاب ’دازہ پاگل وم‘ (جب میں پاگل تھا) ہے۔ اور عالم زیب محسود جو پی ٹی آئی میں ہیں اور تازہ جیل گئے تھے، انہوں نے اپنی قید سے متعلق اردو میں کتاب لکھی ہے۔ اس کے علاوہ پشتو میں کسی اور نے کتاب نہیں لکھی

البتہ باچا خان عبدالغفار خان کے جو خدائی خدمتگار تھے وہ انگریزوں کے دور میں جیلوں میں گئے تھے، انہوں نے اپنی زندگیوں کے قصے لکھے ہیں، جن میں ان کے جیل کے وقت کی بھی کہانیاں ہیں۔ اسی طرح خود خان عبدالغفار خان باچا خان کی خودنوشت سوانح عمری ’میری جدوجہد‘ میں بھی ان کے قید و بند کے قصے اور ولی خان کی کتاب میں بھی ان کی سیاسی جدوجہد اور جیل کے قصے ہیں۔ اس کے علاوہ پشتو میں جیل ڈائریاں نہیں ہیں، حالانکہ ہزاروں لوگ جیلوں میں گئے تھے۔ جیلوں میں وقت گذارا تھا لیکن اس پر مجھ سمیت کسی نے لکھا نہیں“

اور جبر کے موسموں میں تخلیقات کے پھول کھلانا کوئی آسان بات نہیں ہوتی۔

بشکریہ: وائس آف امریکہ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close