آواران کے پیاز کے کاشتکار: ”ہر چیز مہنگی ہے، صرف ہماری محنت سستی ہو گئی ہے“

ویب ڈیسک

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے ضلع آواران کے مشہور شہروں میں آواران، جھاؤ، ماشکئی اور گشکور شامل ہیں۔ اس ضلع کا سب سے اہم اور مرکزی شہر آواران ہے۔ آواران ضلع کو بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع سمجھا جاتا ہے۔ آواران کو کھجوروں کا باغ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پر کھجوروں کی پیداوار پندرہ ہزار ٹن ہے۔ کھجوروں کے علاوہ یہاں پیاز بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے۔ یہاں پر پیاز کی پیداوار ایک محتاط اندازے کے مطابق تریپن ہزار ٹن ہے۔ اس کے علاوہ گندم، جو پھل اور دالیں یہاں کی اہم پیداوار سمجھی جاتی ہیں

نصابی کتب میں پاکستان کو ایک زرعی ملک لکھا جاتا ہے اور زراعت کو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہی وہ شعبہ ہے، جسے سب سے زیادہ نظر انداز بھی کیا جاتا ہے۔ اس شعبے سے وابستہ افراد ملک کی غذائی و دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں لیکن خود بے کسی و بے بسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں

انہی لوگوں میں سے محمد انور بھی ایک ہیں، وہ تپتی دھوپ میں پسینے سے شرابور ضلع آواران کی تحصیل جھاؤ کے لعل بازار میں اپنی پیاز کی چنائی میں مصروف ہیں۔ چنائی کے ساتھ ساتھ وہ پیاز کی چھانٹی کر کے گلی ہوئی پیاز علیحدہ رکھ رہے ہیں۔ اس کام میں ان کے گھر کے گیارہ افراد ان کا ہاتھ بٹھا رہے ہیں

محمد انور دلبرداشتہ ہیں کیونکہ مارکیٹ سے خبریں آ رہی ہیں کہ پیاز کی قیمت گر گئی ہے ”دو سال پہلے بھی ہمارے ساتھ یہی ہوا تھا۔ پیاز کی قیمت چار سو روپے فی من تک گر گئی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس کے بعد یہ کاشت نہیں کریں گے مگر اس مرتبہ پھر دیکھا دیکھی ہم نے پیاز بو دی“

نیوز ویب سائٹ لوک سجاگ میں شائع شبیر رخشانی کی ایک رپورٹ کے مطابق تحصیل جھاؤ اور تحصیل آواران میں پیاز کی فصل سال میں دو بار کاشت ہوتی ہے۔ مقامی لوگ سرما کی فصل کو سہہ ماہی اور گرما کی فصل کو شش ماہی پیاز کہتے ہیں

سہ ماہی پیاز مئی میں بویا جاتا ہے۔ اگست میں اس کی پنیری تیار ہوتی ہے جسے دوسری زمین میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ فصل دسمبر، جنوری تک تیار ہوجاتی ہے۔شش ماہی پیاز ستمبر میں بویا جاتا ہے اور مئی میں یہ فصل تیار ہو جاتی ہے، جس کی چنائی کا سلسلہ جون تک چلتا ہے۔ اس دوران مئی ایسا مہینہ ہے، جب کسان پیاز کی ایک فصل کی چنائی اور دوسری کی بوائی میں مصروف ہوتے ہیں

آواران کے مقامی کاشت کار محمد انور نے دو ایکڑ زمین پر پیاز کاشت کی تھی، لیکن پیداوار ان کی توقع سے کم رہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں ”پیاز تیار تھی کہ بارشیں شروع ہوگئیں، جس سے بیشتر فصل خراب ہو گئی“

وہ اب تک ایک سو تینتیس بوری پیاز مارکیٹ بھیج چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا پہلی ساٹھ بوریاں ایک ہزار روپے فی من کے حساب سے فروخت ہوئیں لیکن اس کے بعد قیمت گر گئیں اور اس وقت ریٹ سات سو روپے من ہے

منسٹری آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے مطابق 2021ء اور 2022ء میں ملک بھر میں پیدا ہونے والے پیاز میں تینتیس فیصد حصہ بلوچستان کا تھا۔ بلوچستان میں پیدا ہونے والے پیاز میں آواران کا حصہ پانچ فیصد ہے یوں آواران پاکستان میں سب سے زیادہ پیاز پیدا کرنے والے بیس بڑے اضلاع میں سے ایک ہے

کنڈی جھاؤ کے رہائشی دلدار خان بھی پیاز کے کاشتکار ہیں۔ ان کے مطابق ایک ایکڑ پیاز کی کاشت پر لگ بھگ پینسٹھ ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں اور بیشتر کسان ادھار پر مداخل اور سامان خریدتے ہیں

دلدار بتاتے ہیں ”فصل کو منڈی تک پہنچانے کے اخراجات اس سے علیحدہ ہیں۔ باردانہ (خالی بوری) جو پچھلے سال پچاس روپے کی تھی، اب دو سو کی ہو گئی ہے۔ لوڈنگ، اَن لوڈنگ کی مزدوری چار گنا بڑھ چکی ہے۔ڈیڑھ دو سال پہلے تک ٹرانسپورٹ کے اخراجات تین سو روپے فی بوری تھے، جو اب دو گنا ہو کر چھ سو روپے ہو گئے ہیں“

دلدار خرچے کا تخمینہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں ”پیاز کی فصل کے لیے فی ایکڑ دو کلو بیج چاہیے ہوتے ہیں جو اس مرتبہ ساڑھے تین ہزار روپے فی کلو ملے تھے۔ ایک ایکڑ میں ڈی اے پی کھاد کی ایک بوری ڈالی جاتی ہے، جس کی مارکیٹ میں قیمت گیارہ ہزار روپے ہے، (اگر یہی بوری ادھار لی جائے تو چودہ ہزار کی ہوتی ہے)۔ چھ بوری سفید یوریا اکیس ہزار روپے، جراثیم کش ادویہ اور سپرے پندرہ ہزار روپے اور ٹریکٹر کے اخراجات ساڑھے بارہ ہزار روپے آتے ہیں“

انہوں نے بتایا کہ اسی طرح ڈی اے پی کھاد کی قمیت سات ہزار تھی جو اب چودہ ہزار روپے کی ہو گئی ہے۔ٹریکٹر کا کرایہ فی گھنٹہ بارہ سو روپے تھا جو اب ڈھائی ہزار روپے ہے“

انہوں نے دکھ اور بے بسی سے کہا ”ہر چیز مہنگی ہے، صرف ہماری محنت سستی ہو گئی ہے۔“

دوسری جانب منڈی میں بیٹھے آڑھتی قیمتوں میں فرق کی وجہ پیاز کی سپلائی میں کمی بیشی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول پچھلے سال سیلاب اور درآمد برآمد کی پالیسیوں نے بھی اس اتار چڑھاؤ میں اہم کردار ادا کیا تھا

کوئٹہ کی سبزی منڈی کے کمیشن ایجنٹ شاہجہاں خان بتاتے ہیں ”جنوری 2023ء میں کراچی منڈی میں پیاز فی من آٹھ ہزار روپے جبکہ کوئٹہ میں تیئیس ہزار روپے فروخت ہو رہا تھا. اُس وقت ایک طرف، سیلاب نے سندھ کی پیاز کو نقصان پہنچایا تھا تو دوسری طرف بھارت کا بارڈر بھی بند تھا۔ سپلائی کم تھی اس لیے ریٹ چڑھ گیا۔ اس کا فائدہ آواران اور جھاؤ کے کاشتکاروں کو ہی ہوا۔“

انہوں نے بتایا کہ سندھ اور پنجاب کا پیاز منڈی میں آنے کے بعد سپلائی بڑھ گئی تو قیمت میں کمی آ گئی۔ ان کے خیال میں جھاؤ اور آواران کی پیاز کے ساتھ تو پھر بھی کسی حد تک انصاف ہوگیا لیکن تحصیل مشکے کی پیاز کی حالت بہت خراب ہے، وہاں کے زمینداروں کو زیادہ نقصان ہو رہا ہے

آواران کے خادم حسین 1997ء سے پیاز کاشت کر رہے ہیں۔ اِس سال انہوں نے تین ایکڑ پر پیاز کاشت کی تھی، جس سے انہیں 962 من پیداوار ملی ہے

خادم بتاتے ہیں ”موجودہ سال پچھلے سال سے بہتر ہوگا، ہم ہر سال اسی امید پر پیاز کاشت کرتے ہیں مگر نقصان کر جاتے ہیں۔ حقیقت میں ہم یہ فصل اپنے لیے نہیں بلکہ منڈی والوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کاشت کر رہے ہیں۔“

وہ پیاز کی فصل کو جوئے کے کھیل سے تشبیہہ دیتے ہیں

کپاس بھی اس علاقے کی اہم فصل رہی ہے۔ زمیندار ایکشن کمیٹی جھاؤ کے صدر ناصر عمرانی پیاز اور کپاس کی فصل کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ایک ایکڑ میں کپاس چالیس من سے زیادہ نہیں ہوتی جبکہ پیاز پونے تین سو سے چار سو من تک ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے زمینداروں کا جھکاؤ پیاز کی جانب زیادہ ہے“

بلال خان نیو سبزی منڈی کراچی میں بطور کمیشن ایجنٹ کام کر رہے ہیں۔ وہ بھی پیاز کی قیمتوں میں گراوٹ کو سپلائی اور ڈیمانڈ کا کھیل سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”پہلے صرف جھاؤ اور آواران سے گاڑیاں آ رہی تھیں۔اب ان کے ساتھ ساتھ ضلع خضدار کی تحصیلوں وڈھ اورناچ اور ضلع لسبیلہ کی تحصیل دریجی سے بھی آرہی ہیں۔ ابھی ضلع خضدار کی تحصیلوں نال اور گریشہ سے مزید پیاز نے آنا ہے۔ دسمبر اور جنوری میں منڈی میں روزانہ تیس سے چالیس گاڑیاں آ رہی تھیں۔ اب گاڑیوں کی تعداد بڑھ کر ایک سو تیس سے سیک سو ساٹھ روزانہ ہو گئی ہے“

بلال کہتے ہیں ”ایکسپورٹ پالیسی بھی پیاز کی ریٹ پر اثرانداز ہوتی ہے۔ آپ آلو کو اسٹاک کر سکتے ہیں مگر پیاز کو آپ ایک ہفتے سے زیادہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ یہ خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ایکسپورٹ جتنی زیادہ ہوگی، ریٹ اتنا ہی زیادہ ہو جائے گا“

ناصر عمرانی کے خیال میں گذشتہ دسمبر اور جنوری میں پیاز کی قیمتیں اس لیے بھی بڑھیں تھیں کہ حکومت نے دو ماہ کے لیے ایکسپورٹ پر ٹیکس کی چھوٹ دی تھی۔ پیاز بڑی مقدار میں کولمبو اور دبئی ایکسپورٹ ہوا، جس کا فائدہ مقامی زمینداروں کو ہوا۔ اب بھی حکومت ایکسپورٹ ڈیوٹی نرم کردے تو پیاز کا ریٹ بڑھ جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close