مجھے یاد ہے جب میں بچہ تھا تو مجھے استاد بننے کی تمنا تھی۔ خیال رہے کہ میں پرائمری اسکول کے زمانے کی بات کر رہا ہوں، جب اساتذہ کرہِ ارض پر سب سے زیادہ طاقتور لوگ ہوا کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ لوگ خالص روشنی اور توانائی سے بنی مخلوق ہیں، جنہیں میری چھوٹی سی دنیا پر مکمل کنٹرول حاصل تھا۔
ہائی اسکول میں جاتے ہی یہ خیال زائل ہو گیا۔ میں 2001 اور 2006 کے درمیان ہائی اسکول میں تھا، جب میرا اسکول برطانیہ کے خراب ترین اسکولوں میں سے ایک تھا اور اساتذہ ہم سے سماجی طور پر بہتر ہونے سے لے کے ہمارے محنت کش طبقے کے ٹین ایجرز کے غصے کا بدقسمت ہدف بنتے تھے
ہم انہیں خوفزدہ کرتے تھے، ہماری وجہ سے وہ اکثر اوقات کلاس میں رو پڑتے تھے اور کئی تو ایسے تھے کہ وہ یہ پیشہ ہی چھوڑ کر بھاگ گئے
لیکن ہم پھر بھی انہیں ’سر‘ اور ’مس‘ کہتے تھے، کیوں کہ ہم بہت خراب ہونے کے باوجود جانتے تھے کہ کچھ ایسی لکیریں ہیں، جنہیں عبور نہیں کیا جاتا
تاہم وسطی لندن کے ایک اسکول کے لیے تمام شرطیں ختم ہوتی دکھائی دیتی ہیں، کیوں کہ اسکول کے ایگزیکٹو پرنسپل جیمز ہینڈزکوم نے اعلان کیا ہے کہ اساتذہ کو سر یا مس کہنے کی بجائے اب براہِ راست ان کے ناموں سے پکارا جائے گا، (مثلاً ’مسٹر کوگن‘)
ان کا استدلال یہ ہے کہ وہ اصطلاحات بہت رسمی ہیں اور بعض حیثیتوں اور صنفی کرداروں کو تقویت دینے میں مدد کرتی ہیں، جو اکیسویں صدی میں تیزی سے متروک ہوتی جا رہی ہیں
ہینڈزکوم نے اسمبلی کی ایک وڈیو پوسٹ کی ہے، جس میں انہوں نے ٹوئٹر پر اس حکم نامے کا اعلان کیا۔ ٹوئٹر پر ان کی پوسٹ پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا، حالاں کہ اسے خواتین اساتذہ کی طرف سے بھی کافی حمایت حاصل ہوئی، جنہوں نے ہینڈزکوم کے اس دعوے سے اتفاق کیا کہ ’مس‘ کہنے میں کسی حد تک ایسا لگتا ہے، جیسے کسی کو بچہ سمجھا جا رہا ہے
میں نے اپنے کیریئر کے مختلف ادوار میں پرائمری اسکول سے لے کر پوسٹ گریڈ تک کی تعلیم دی ہے۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ میں نے چھٹی جماعت کے بعد والے طلبہ کو پڑھانے کو ترجیح دی ہے، کیوں کہ جزوی طور پر عموماً یہی وہ موقع ہوتا ہے، جس پر روایت میں تبدیلی آتی ہے اور طلبہ ’سر‘ اور ’مس‘ کی آڑ لینا چھوڑ دیتے ہیں اور ان پر استاد کا نام لینے کا ممنوعہ دروازہ کھل جاتا ہے
اس عمر تک یہ عمل واقعی باہمی احترام کے احساس کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔ کیوں کہ یہی وہ عمر ہے، جس میں طلبہ اپنی تعلیم کو رضاکارانہ طور پر جاری رکھنے کا انتخاب کر رہے ہوتے ہیں۔ قوانین میں تھوڑی نرمی کرنے سے یہ تاثر پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے کہ وہ اب بالغ ہیں، ہوش و حواس میں رہ کر انتخاب کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ ریاست کے ان غلاموں کی طرح، جو ہر صبح اپنی مرضی کے خلاف بستر سے اٹھنے پر مجبور ہوں
میں نے امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں بھی کچھ عرصہ پڑھایا ہے۔ ان کا گریجویٹ نظام ہمارے مقابلے تھوڑا مختلف ہے، جہاں وہ صرف ایک خاص مضمون میں مہارت نہیں رکھتے بلکہ انہیں ریاضی اور پی ای جیسی چند لازمی کلاسیں بھی لینی پڑتی ہیں (جب مجھے ان میں سے دوسری کلاس کے بارے میں پتہ چلا تو میں چونک گیا)
اس طرح، ان کے لیے یہ کئی لحاظ سے ہائی اسکول کی توسیع کی طرح ہے، جس میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ طالب علم اور استاد کے درمیان مخاطب کرنے کے طریقے میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ جب بھی وہ ایسا کرتے ہیں، آپ بتا سکتے ہیں کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی ممنوع چیز کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ عمل ہے، اور ظاہر کرتا ہے کہ اس قسم کی روایات اپنے اندر کتنی طاقت رکھتی ہیں
ایک مثالی دنیا میں، چھوٹے بچوں کے لیے بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ ثانوی اسکول کی سطح پر پڑھاتے ہوئے، جب بچے مجھے ’سر‘ کہتے تھے تو میں ہمیشہ تھوڑا عجیب سا محسوس کرتا تھا۔ ہینڈزکوم کی یہ بات سولہ آنے صحیح ہے کہ یہ لفظ کسی عالیشان چیز کا تصور ذہن میں لے آتا ہے، جیسے کنگ آرتھر کے زمانے کا کوئی سورما اور اس لفظ کو کسی ایسے شخص کے لیے استعمال کرنا عجیب سا ہے، جس کا سب سے عظیم کارنامہ ناول Of Mice and Men میں جانوروں کی تمام امیجری کی نشاندہی کرنا ہو
لیکن اس غیر مثالی دنیا میں، موسمیاتی تبدیلیوں کی دنیا اور ٹوئٹر کے ٹرولز کی دنیا میں، زیادہ تر بچے چھوٹے وحشی عفریت ہیں، جو ’دا واریئرز‘ کے کسی گینگ کی طرح اکٹھے ہونے کا بہانہ تلاش کرتے اور میرے انگریزی کے کلاس روم میں تباہی مچاتے پھرتے ہیں۔ ’سر‘ اور ’مس‘ جیسی رسومات احترام اور افراتفری کے درمیان ایک پتلی نیلی لکیر ہیں۔ یقینی طور پر، وہ بولنگ گیند کو روکنے کی کوشش کرنے والے پاپاڈوم کے برابر ہیں، لیکن وہ نہ ہونے سے بہتر ہیں
مجھے یاد ہے کہ ایک بار اپنے PGCE کے دوران میں نے ایک استاد کو ان کا نام لے کر مخاطب کیا، جو میرے سبق کا مشاہدہ کرنے بیٹھے تھے (چونکہ میں انہیں اسی طرح جانتا تھا)۔ پھر ایسا لگا جیسے کلاس روم میں دستی بم پھٹ گیا ہو۔ مکمل افراتفری۔ مجھے نہیں لگتا کہ مجھے اس سے زیادہ پرتشدد ردعمل حاصل ہوتا اگر میں گالی دے دیتا یا لوگوں کو ڈراما سیریز ’بریکنگ بیڈ‘ کا اختتام بتا دیتا (میں نے 2010 کی دہائی کے اوائل میں اپنا PGCE کیا تھا۔)
کیا آپ کو یاد ہے کہ بچپن میں آپ نے پہلی بار اپنے کسی استاد کو اسکول سے باہر دیکھا تھا؟ مثلاً آپ اپنی ماں کے ساتھ خریداری کر رہے ہوں گے اور آپ کسی شاپنگ مال میں اپنی ٹیچر مسز موریسن کو ایک بینڈ ٹی شرٹ میں کھلے بالوں میں دیکھا ہو؟ یہ بات ایسے ہی جیسے دنیا تباہ ہونے والی ہو۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ پر یہ انکشاف ہو کہ ٹوتھ فیری اصلی نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ استاد کا بہت زیادہ اختیار پراسراریت لیے ہوئے ہے۔ ہم ان کے نام نہیں جانتے، ہم ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں نہیں جانتے۔ وہ تجریدی ہستی ہیں، جن کا احترام واجب ہے۔ انہیں پکارنے کے کچھ طریقے اس فضا کو تقویت دینے میں مدد کرتے ہیں – اور کلاس روم میں نظم و ضبط کو منظم کرنے کی ان کی صلاحیت میں حصہ ڈالتے ہیں۔
ہینڈزکوم کی تجویز اس قسم کی چیز ہے جو بظاہر ترقی پسندانہ لگتی ہے، لیکن دراصل اس میں اتنی گہرائی نہیں ہے۔ یہ اسکول کے یونیفارم پر پابندی لگانے کی طرح ہے۔ بچوں کو ضرور اپنا اظہار کرنے دیں، لیکن اس وقت کیا ہوگا، جب ان میں سے کچھ طلبہ اچھے جوتے یا برانڈڈ کپڑے نہیں خرید سکتے؟ یہ ایک ایسے ماحول میں غیرجانبدار رہنے کا ایک طریقہ ہے، جو کافی حد تک اتار چڑھاؤ اور تنا ہوا ہوتا ہے
یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس نئے اقدام کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ لیکن مجھے اس کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔ اس سے قطعِ نظر کہ یہ کیسے نکلے، مجھے کلاس روم کو کچے پکے نظریات کے لیے تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کا خیال پسند نہیں ہے جو صرف سطحی سطح پر قابل عمل لگتا ہے
حقیقت یہ ہے کہ سب اسکول مختلف ہیں۔ کچھ کو دوسروں کے مقابلے میں مضبوط اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ خاص اسکول میں اس تجربے کو کامیابی حاصل بھی ہو جائے، وہ اسکول جو اعلیٰ تعلیمی قابلیت رکھنے والے طلبہ کے لیے مختص ہے، اس کے باوجود مجھے اس سے نفرت ہوگی کہ یہ عمل ایسے علاقوں کے اسکولوں میں معمول بن جائے، جہاں میں پلا بڑھا ہوں
بظاہر، ہینڈزکوم ٹیلر سوئفٹ کے پرستار ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب A School Built On Ethos میں ٹیلر سوئفٹ کی موسیقی کا جگہ جگہ حوالہ دیا ہے، یہاں تک کہ اسمبلی میں اس تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے بھی ان کے گانوں کے بول شامل کیے ہیں
اس صورت میں، میں ہینڈزکوم کو انہی الفاظ میں مخاطب کروں گا، جو وہ سمجھ سکتے ہیں: اگر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تجربہ آپ کے چہرے پر اڑا ہوا ہے، تو ہیلو، یہ آپ ہی ہیں۔ آپ ہی مسئلہ ہیں، آپ ہی ہیں۔
اگر یہ تجربہ آپ کے سامنے ناکام رہا، تو پھر اس کی وجہ آپ ہوں گے۔ جو مسئلہ ہے، وہ آپ ہی ہیں۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)