کراچی ہر بار سمندری طوفان سے کیسے بچ جاتا ہے؟ سائنس کیا کہتی ہے

ویب ڈیسک

جب بحیرہ عرب میں موجود ’بپر جوائے‘ نامی سمندری طوفان شروع ہوا تو اس کا رخ کراچی کی طرف تھا اور سوشل میڈیا پر یہ بحث شروع ہو گئی کہ کیا یہ طوفان کراچی کے ساحل سے ٹکرائے گا یا نہیں؟

سنہ 1990 کے بعد سے جتنے بھی سمندری طوفان آئے ہیں وہ کراچی پہنچنے سے قبل ہی ان کا رخ تبدیل ہو گیا یا کسی کی شدت کراچی سے ٹکرانے سے پہلے اتنی کم ہو گئی کہ شہر محفوظ ہی رہا

کراچی کے بعض مقامی لوگوں اور خاص کر کے یہاں موجود درگاہ عبداللہ شاہ غازی کے مریدوں کا ماننا ہے کراچی یہاں دفن بزرگ ہستی کی کرامات کی وجہ سے سمندری طوفان سے بچ جاتا ہے

مصنف و تجزیہ کار ندیم فاروق پراچہ، جو عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے قریب ہی رہتے ہیں، ان کے مطابق عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں جتنی باتیں مشہور ہوئی ہیں ان کا تعلق گذشتہ 40 سے 50 برس سے ہی ہے۔ ندیم فاروق پراچہ کے مطابق اس طرح کی باتیں پہلے پہل مذاق کے طور پر کی جاتی تھیں مگر اب لوگ ان پر یقین بھی رکھتے ہیں

اسی حوالے سے آج کل سوشل میڈیا پر ایک میم بھی گردش کر رہی ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ عبداللہ شاہ غازی کا مزار کراچی میں بس سیلاب اور زلزلے روکتا ہے، اس کے علاوہ قتل واردات چوری ڈکیتی کے معاملات میں ٹانگ نہیں اَڑاتا

بہرحال اندھا عقیدہ اپنی جگہ لیکن سمندری طوفان کیوں آتے ہیں اور حالیہ تاریخ میں ایسی قدرتی آفات سے کراچی کے بچ جانے کی وجوہات کیا ہیں؟ اس بارے میں سائنسی ماہرین کا نکتہ نظر مختلف ہے

قائد اعظم یونیورسٹی میں شعبہ ’ارتھ سائنسز‘ کی پروفیسر ڈاکٹر مونا لیزا کہتی ہیں کہ دنیا کے اکثر ممالک اس طرح کے سائیکلون کو روکنے کے لیے دیگر پیشگی اقدامات کے علاوہ ساحل سمندر پر دیوار تعیمر کرتے ہیں تاکہ طوفان اس دیوار سے ٹکرا کر زیادہ نقصان کا باعث نہ بنے

ان کے مطابق کراچی تین پلیٹس (انڈین، یوروشیا اورعریبین) کی باؤنڈری پر واقع ہے جو سمندری طوفان کے لیے قدرتی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں

’ان پلیٹس کی وجہ سے سمندری طوفان کو گھومنے کا موقع نہیں ملتا اور پھر یہ رخ موڑ لیتا ہے۔ یوں اپنی جغرافیے کی وجہ سے کراچی ہر بار بچ نکلتا ہے‘ تاہم ڈاکٹر مونا لیزا کے مطابق اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر بار یہ پلیٹس اس شہر کو محفوظ رکھ سکتی ہیں

وہ کہتی ہیں کہ اب قدرتی آفات کا ایک تسلسل ہے اور کم وقت میں یہ آفات دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ ان کے مطابق یہ سمندر خود بھی عریبین پلیٹ پر ہی واقع ہے

ڈاکٹر مونا لیزا کے مطابق جہاں یہ پلیٹس کراچی کے لیے اہمیت اختیار کر گئی ہیں وہیں یہ پاکستان کے لیے بڑے خطرے کا سبب بھی ہیں ’پاکستان اور خطے میں زلزلے بھی ان پلیٹس کی ’موومنٹ‘ کی وجہ سے آتے ہیں۔ یوں یہ سب عناصر مل کر قدرتی آفات کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں۔‘

ان کے مطابق پاکستان تین ’ہائی ایکٹو پلیٹس مارجن‘ پر واقع ہے، جس وجہ سے یہ ملک عالمی حدت اور ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہے۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اب زلزلے بھی بہت کم وقفے سے دیکھنے میں آ رہے ہیں

ڈاکٹر مونا کے مطابق رقبے کے لحاظ سے پاکستان ان پلیٹس کی بہت چھوٹی سی جگہ پر واقع ہے مگر اس کے اثرات پاکستان پر کہیں زیادہ مرتب ہوتے ہیں

ڈاکٹر مونا کا کہنا ہے کہ ایک طرف پاکستان کو گلیشئرز کے تیزی سے پگھلاؤ جیسی صورتحال کا سامنا ہے، جو سیلاب کا سبب بنتے ہیں کیونکہ اس وقت دنیا کی دوسری اور تیسری بڑی چوٹیاں پاکستان میں ہیں اور وہیں یہ صورتحال زلزلوں اور سمندری طوفانوں کو بھی جنم دے رہی ہے

ان کے مطابق پاکستان اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے تیار نظر نہیں آتا اور اس وقت ہمارا انحصار باہر کے ممالک کے ڈیٹا اور تحقیق پر ہی ہے

ڈاکٹر مونا لیزا کے مطابق بھارت نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے اور ان سائیکلون سے نمٹنے سے متعلق میکنزم بہت بہتر بنایا ہے

 سمندری طوفان کیوں آتے ہیں؟

ڈاکٹر مونا لیزا کے مطابق ایسی تمام قدرتی آفات، جن کا تعلق پانی سے ہوتا ہے، ان کی بنیادی وجہ ٹمپریچر یعنی درجۂ حرارت ہوتا ہے

وہ بتاتی ہیں کہ پاکستان میں جون کے مہینے میں سطح سمندر پر درجہ حرارت میں دو سے تین درجہ حرارت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے

چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق سادہ الفاظ میں سائیکلون درجہ حرارت اور ہواؤں کے دباؤ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق درجہ حرارت اگر اس سمندری طوفان کو جنم دیتے ہیں تو پھر ہواؤں کا دباؤ اس کے رخ کا تعین کرتا ہے

سردار سرفراز کے مطابق مئی اور جون میں بحیرہ عرب، شمالی انڈیا اور بے آف بنگال میں یہ سائیکلون بنتے ہیں تاہم ان کے مطابق گذشتہ برس یہ سائیکلون سرے سے بنے ہی نہیں

چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کہتے ہیں کہ ان سمندری طوفانوں کا تعلق ’سپٹراپیکل ونڈ‘ سے ہوتا ہے۔ ان کے مطابق سطح سمندر، مڈل اور اپر ونڈز ان طوفانوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں

ان کے مطابق جب سمندر کا ٹمپریچر سطح سے لے کر 50 میٹر نیچے تک 26 سے 28 درجے سینٹی گریڈ ہوجاتا ہے تو پھر یہ اس کی علامت ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ اس صورتحال میں زیادہ بخارات بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب مزید اوپر یہ بخارات جاتے ہیں تو گرم ہوا اوپر جا کر ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور یوں ’ڈائیورجنس‘ شروع ہو جاتی ہے

ان کے مطابق چالیس ہزار فٹ بلندی پر جب یہ ہوائیں ہوتی ہیں تو پھر یہ سائیکلون یعنی سمندری طوفان کی وجہ بن جاتی ہیں۔ یہ ایسا ہی جیسے سلنڈر میں ہوا بھرتے رہیں اور پھر وہ اوپر سے مسلسل نکلتی رہے

سائیکلون کے دورانیے سے متعلق ڈاکٹر مونا لیزا کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق بھی درجہ حرارت سے ہی ہوتا ہے۔ ان کے مطابق جب سائیکلون سست پڑ جائے تو پھر اس کا دورانیہ گھنٹوں سے بڑھ کر کئی دنوں تک ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق بپرجوائے کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے، جس کی وجہ درجہ حرارت میں کم وقت میں زیادہ تبدیلی ہے

 کراچی میں سمندری طوفانوں کی مختصر تاریخ

مئی 1985 میں ایک طوفان کراچی کی جانب بڑھا تھا اور کراچی کے جنوب میں 100 کلومیٹر دور ہی کمزور ہو کر ختم ہو گیا

نومبر 1993 میں کیٹیگری 1 کا طوفان مڑ کر سندھ و گجرات سرحد کے قریبی ساحل سے ٹکرایا، یہ طوفان کراچی میں صرف بڑے پیمانے بارش کی وجہ بھی بنا

جون 1998 میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کی جانب آتے آتے جنوبی مشرقی سندھ کی طرف بڑھ گیا، سوائے چند مچھیروں کے کوئی بڑا جانی نقصان نہ ہوا

مئی 1999 میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کے قریب ٹکرایا، اس سمندری طوفان نے سندھ کے ساحلی علاقوں کو کافی نقصان پہنچایا، یہ پاکستان کا ریکارڈ سخت ترین طوفان تھا

مئی 2001 میں کیٹگری 3 کا سائیکلون گجرات کے ساحل سے ٹکرایا

اکتوبر 2004 میں اونیل نامی سائیکلون کراچی اور سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں کی جانب بڑھا مگر بعد میں سمندر کی طرف واپس مڑ گیا اور کراچی میں بس تیز بارش کا باعث بنا

جون 2007 کے اوائل میں گونو نامی سپر سائیکلون سے کراچی محفوظ رہا۔ جون 2007 ہی میں، یمین نامی ایک سمندری و ہوائی طوفان کراچی کے قریب سے گزرا

نومبر 2009 میں، پھائن نامی سائیکلون پہلے ہی دم توڑ گیا ور اس کی باقیات کراچی سمیت سندھ کے ساحل میں تیز ہواؤں کا باعث بنیں

جون 2010 میں، پھیٹ نامی سائیکلون جو کیٹیگری 4 کا طوفان تھا، کراچی کے قریب کمزور پڑگیا، البتہ طوفانی ہوائیں کراچی میں پہنچیں۔ اسی سال نومبر میں جل نامی سمندری و بادی طوفان بھی کراچی پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گیا اور اس کی باقیات کی وجہ سے کراچی اور جنوب مشرقی سندھ میں گرد آلود ہواؤں کے ساتھ بوندا باندی ہوئی

سنہ 2014 میں نیلوفر نامی سائیکلون کا رخ بھی کراچی کی جانب تھا مگر عین موقع پر اس نے اپنا رخ موڑ لیا اور کراچی ایک مرتبہ پھر سمندری طوفان سے محفوظ رہا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close