ہم چاہیں کسی بھی نام سے پکارے جا رہے ہوں لیکن اصل میں سب ڈان کہوٹے (Don Quixote)ہیں۔ آئیں! اس معاملے کی تہہ تک پہنچتے ہیں
عالمی ادب میں ایک ناول ایسا بھی ہے کہ چار صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس کی شہرت، مقبولیت اور پسندیدگی کا گراف وہ ہی ہے، جو چارصدیاں پہلے تھا۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں، جس میں اس کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔ جدید ناول ہونے کا شرف بھی اسے حاصل ہے پہلے ناول کا سہرا بھی اسی کے سر پر سجا ہوا ہے
اس ناول کا نام ’ڈان کہوٹے‘ ہے۔ اسپینش زبان کا مشہور شاعر، ڈرامہ نویس سر وانیٹز اس کا مصنف ہے۔ دوستو یفسکی کا ناول the Idiot سر وانیٹز کے اثر سے نہ بچ سکا۔ مشہور مصور پکاسو نے ڈان کہوٹے کے دو لافانی کرداروں ڈان کہوٹے اور سانچو پانزا پر تصویروں کی ایک سیریز بنائی
ایک فرانسیسی نقاد نے کہا ’’یہ دنیا پل میں ختم ہو جائے اگر اس کا ہر فرد ڈان کہوٹے بن جائے لیکن اگر اس میں ڈان کہوٹے نہ ہو پھر بھی یہ دنیا پل میں ختم ہوجائے‘‘ سر وانیٹز نے یہ ناول لکھنے کا منصوبہ جیل میں بنایا اور بقول اس کے ’’خیال یہ تھا کہ اسپین کے لوگوں کی حقیقی زندگی اور ان کی عادات وخصائل کو اس ناول میں روزمرہ کی زبان میں پیش کیا جائے اور ناول نگاری کے اس اسلوب اور اندازکی پیروڈی پیش کی جائے جو ایک صدی سے اسپین میں رائج ہے۔‘‘
سر وانیٹز نے ڈان کہوٹے کی تشکیل میں بہت مہارت سے کام لیا ہے، وہ اسے ایک معصوم اور ایسا کردار سمجھتا ہے، جس میں نیکی اور اچھائی موجود ہے، وہ دنیا سے برائیو ں کا خاتمہ چاہتا ہے، وہ ایک پختہ عمرکا نہایت معصوم آدمی ہے جو کوئی کام نہیں کرتا۔ بس گھر میں بیٹھا شجاعت، بہادری اور جنگ وجدل کے رومانوی کتابیں پڑھتا رہتا ہے
گاؤں میں اس نے بہت سے لوگوں کا قرض ادا کرنا ہے، وہ کتابوں کے سحر میں اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ اس کا حقیقی دنیا سے کوئی رشتہ نہیں رہا، وہ خیالات میں ڈوبا رہتا ہے اور سوچتا رہتا ہے کہ کیوں نہ وہ بھی کسی ملک پر حملہ کر کے بادشاہ بن جائے، چنانچہ وہ پختہ ارادہ کر لیتا ہے کہ وہ کسی مہم کو سرکرنے کے لیے روانہ ہوگا
پھر ناول خوبصورتی کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے ۔ مشہور نقاد Calos Fuentes کو یہ کہنا پڑا ’’سر واینٹز لوگوں کے سامنے کتاب کے صفحات کھول کر رکھ دیتا ہے اور اس میں پڑھنے والے اپنے آپ کو دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ اب آپ ہی اپنے خیالات، احساسات ، ماحول ، حالات اور واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے خود ہی بتائیں کہ کیا آپ ڈان کہوٹے نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں
ہم سب اپنے اپنے خیالات میں ڈوب کر اپنی اپنی دنیا بنا کر اپنے حالات و واقعات اور ماحول کی تیزابیت سے بچنے کی کو شش نہیں کر رہے ہیں۔ ہیگل کہتا ہے ’’چیزوں اور واقعات کا الگ الگ مطالعہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایک نظام کے بہت سے عناصر باہم متعلق ہیں اور واقعات یا چیزوں کا مطالعہ کرتے ہوئے، ان کو مدنظر رکھنا ضروری ہے مثلاً اگر ہم کسی شخص کے نفسیاتی نظریات کامطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ اس کے فلسفیانہ ، معاشی اور سیاسی نظریات اور اس کے ملک کے مخصوص دور کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی حالات کا مطالعہ بھی کریں اس شخص کے نظریات کو ان سب اثرات سے الگ کرکے نہیں سمجھا جاسکتا‘‘ ہیگل کے الفاظ میں ہمیں ’’کل‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے نہ کہ علیحدہ علیحدہ عناصرکا۔ آئیں! اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں ڈان کہوٹے کیوں بنا دیا گیا ہے
19ویں صدی کے وسط میں جابرانہ حکومتوں کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ صرف جبراً حکومت قائم رکھنا ان کے لیے بہت مشکل اور گراں ہے بندوق اور توپ کے ساتھ ساتھ انھیں کچھ اور طریقے استعمال کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوئی، جن کے ذریعے وہ اپنا تسلط قائم رکھتے، چونکہ 19ویں صدی کے وسط میں سائنس ایک نئے مذہب کی شکل اختیار کر چکی تھی
اس لیے مختلف قسم کے نظریات کو سائنسی لبادہ پہنایا گیا یہ کام علم نفسیات کے ایک اہم شعبے نفسیاتی پیمائش نے سرانجام دیا پھر جوں جوں سرمایہ دار نظام ترقی کرتا گیا اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کو کنٹرول کر نے کی ضرورت بڑھتی گئی۔ 20 ویں صدی کے شروع میں نفسیات کی انسانوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت عیاں ہوچکی تھی
اس لیے نفسیات کو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں سرمایہ دارنہ نظام کی ضرورت کے مطابق استعمال کیا جانے لگا۔ نفسیات کے استعمال کے پھیلنے میں پہلی جنگ عظیم نے اہم کردار ادا کیا ۔ جنگ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نفسیات کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا
ہم اگر اور پیچھے جائیں تو ہمیں معلوم چلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے ایک ہزار سال پہلے ہندوستان میں پدرانہ طبقاتی گلہ بانی کا نظام قائم تھا حکمران طبقوں نے لوگوں میں یہ نظریہ پھیلایا کہ جسمانی محنت ادنیٰ ہے اور ذہنی محنت اعلیٰ تر۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ نظریہ بھی پھیلایا کہ ذہنی صلاحیتیں ورثے میں ملتی ہیں جس طرح دو لت ورثے میں ملتی ہے اور اس طرح حکمران طبقے کے ورثا ہی حکومت کرسکتے ہیں کیونکہ حکومت کرنے کی صلاحیتیں ان ہی کو ملتی ہیں
لوگوں کی بغاوت کو دبانے کے لیے حکمران طبقے نے فوج اور قانون قائم کیے اور اس طرح ریاست کا قیام وجود میں آیا چونکہ ریاست اور فوج قائم کرنے اور ان کے ذریعے لوگوں کو دبانے میں حکمران طبقے کی خاصی دولت خرچ ہوتی تھی، اس لیے انھوں نے لوگوں کو دبانے کے لیے نفسیاتی طریقے استعمال کیے
اس ضمن میں ذہنی محنت کی برتری اور ذہنی صلاحیتوں کی وراثت کا نظریہ پیش کیا گیا دوسری طرف چھٹی صدی قبل مسیح میں یونان بھی اس قسم کی صورتحال سے دوچار تھا۔ چونکہ اس وقت دور غلامی کا آغاز ہوچکا تھا۔ اس لیے ان کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی نفسیات کے طریقے استعمال کیے گئے
ادھر پاکستان میں بھی اشرافیہ نے عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے پہلے ہی دن سے نفسیات کا استعمال شروع کردیا تھا، اس کے لیے کبھی مذہب اورکبھی عدلیہ کو استعمال کیا گیا ساتھ ہی ساتھ مخصوص دانشوروں اور مخصوص سیاست دانوں و بیوروکریٹس کے ٹولے کا استعمال بھی بار بار کیا جاتا رہا کبھی اسلام خطرے میں ہے کی آڑ میں کھیل کھیلا گیا۔ کبھی عوام کے نمایندوں اور رہنماؤں کو جاہل، نااہل اور کرپٹ کے الزامات لگائے جاتے رہے
اس کے ساتھ ہی ساتھ عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے میڈیا کا بھرپور سہارا لیا جاتا رہا۔ یہ سب کھیل پہلے روز سے آج تک اسی طرح سے جاری و ساری ہے
یہ سارا کھیل اس قدر خوبصورتی کے ساتھ کھیلا گیا کہ لوگ کچھ سمجھ ہی نہیں پائے اور انھیں ہر قسم کے مسائل سے اس قدر دوچارکردیا گیا کہ وہ صرف اور صرف اپنی اور اپنے پیاروں کی سانسیں برقرار رکھنے کے غم میں مبتلا ہوگئے اور وہ ملک کے تمام معاملات سے لاتعلق ہوتے چلے گئے حتیٰ کہ انھوں نے جینا تک چھوڑ دیا۔ وہ اندھیروں میں ڈوبتے چلے گئے اور نہ سلجھنے والی کشمکش کے مریض بن گئے
جب کشمکش نہیں سلجھے تو پھر لوگ آہستہ آہستہ نفسیاتی مسائل سے دوچار ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر نفسیاتی مسائل خراب ہوکر مختلف نفسیاتی بیماریوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں پھر ایسے انسان حقیقی دنیا میں نہیں بلکہ خیالی دنیا میں رہنا شروع کردیتے ہیں اور پھر وہ ڈان کہوٹے بن جاتے ہیں۔ پھر انسان جلتے ہیں خود کشیاں کرتے ہیں ، پھٹتے ہیں اور سارا ماحول تیزاب بن جاتا ہے۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)