ٹائٹینک کا ملبہ، گمشدہ ٹائٹن آبدوز اور پاکستانی نژاد تاجر باپ بیٹا

ویب ڈیسک

گمشدہ ٹائٹن آبدوز کے بارے میں ماہرین نے رات گئے بتایا ہے کہ اب اس میں موجود سیاحوں کے لیے صرف 30 گھنٹے کی آکسیجن باقی رہ گئی ہے

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرچ آپریشن میں تیزی آ رہی ہے کیونکہ اندازہ ہے کہ آبدوز پر سوار افراد کے پاس استعمال کے لیے آکسیجن کا ذخیرہ کم ہوتا جا رہا ہے

اس پر سوار پانچ مسافروں میں پاکستانی نژاد کاروباری شخصیت شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد کے علاوہ برطانوی ارب پتی بزنس مین اور مہم جو ہمیش ہارڈنگ اور اس تفریحی مہم کا انتظام کرنے والی کمپنی اوشین گیٹ کے چیف ایگزیکیٹو سٹاکٹن رش بھی شامل ہیں

بحر اوقیانوس میں تفریحی سفر پر جانے والی لاپتہ آبدوز ٹائٹن کو تلاش کرنے والے عملے نے کہا ہے کہ اس کی آوازوں کے سگنل سنے گئے ہیں

امریکی چینل سی این این نے ایک اندرونی حکومتی میمو کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ منگل کو سمندر میں ٹائٹن آبدوز کو تلاش کرنے والے عملے نے ہر تیس منٹ بعد آوازیں سنیں ہیں

دوسری جانب کینیڈا کے پی تھری جہاز نے سمندر میں چوکور شکل کی ایک شے بھی دیکھی ہے اور آوازیں بھی سنی ہیں

برطانوی اخبار دی انڈپینڈینٹ نے کہا ہے کہ کینیڈین فضائیہ کی ٹیم نے رپورٹ کیا ہے کہ تلاش کرنے والی ٹیم کو آبدوز کے آخری مقام کے آس پاس وقفے وقفے سے آوازیں سنائی دی گئی ہیں، جس کے بعد گمشدہ آبدوز کے ملنے کی امید پیدا ہو گئی ہے

امریکہ اور کینیڈا میں حکام کی جانب سے بحر اوقیانوس میں لاپتہ آبدوز کو تلاش کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تلاش جاری ہے۔ آبدوز گذشتہ تین دنوں سے لاپتہ ہے، جس میں پانچ افراد سوار ہیں۔
یہ آبدوز بحر اوقیانوس میں ڈوب جانے والے جہاز ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے سیاحوں کو لے کر گئی تھی

واضح رہے کہ اس آٹھ دن کے سفر کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر کا ٹکٹ خریدا جاتا ہے اور سمندر کی تہہ میں 3800 میٹر تک اتر کر ٹائٹینک کے ملبے کا نظارہ کیا جاتا ہے۔

شہزادہ داؤد کون ہیں؟

پاکستان کے ایک بڑے کاروباری خاندان کے رکن اور برطانیہ میں ’پرنس ٹرسٹ چیریٹی‘ کے بورڈ ممبر 48 سالہ شہزادہ داؤد اور اُن کے 19 سالہ بیٹے سلیمان بھی اُس لاپتہ آبدوز میں سوار ہیں

داؤد خاندان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے لیکن ان کے برطانیہ کے ساتھ بھی گہرے روابط ہیں

شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین ہیں۔ یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔ ان کے بیٹے سلیمان یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں

خاندان کے ترجمان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سلیمان سائنس فکشن لٹریچر کے بڑے مداح ہیں اور انہیں نئی نئی چیزیں سیکھنے کا شوق ہے

برطانوی میڈیا کے مطابق شہزادہ داؤد پاکستان میں پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں برطانیہ منقتل ہو گئے، جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف بکنگھم سے شعبہ وکالت میں تعلیم حاصل کی جبکہ انھوں نے گلوبل ٹیکسٹائیل مارکیٹنگ میں فلاڈیلفیا یونیورسٹی سے ایم ایس سی بھی کر رکھی ہے

شہزادہ داؤد خلا میں ریسرچ کرنے والے ایک کمپنی ’ایس ای ٹی آئی‘ انسٹیٹیوٹ کے ٹرسٹی بھی ہیں اور اس ادارے کی ویب سائیٹ پر ان سے متعلق کچھ تفصیلات فراہم کی گئی ہیں

ان تفصیلات کے مطابق شہزادہ داؤد اپنی اہلیہ کرسٹین اور اپنے بچوں سلیمان اور علینا کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انھیں فوٹو گرافی کا شوق ہے اور وہ جانوروں سے محبت کرنے والے شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں

شہزادہ داؤد ’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ کے وائس چیئرمین ہیں۔ ’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ داؤد گروپ کا حصہ ہے اور یہ خاندان گذشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے کاروبار کی دنیا میں مصروف عمل ہے۔ شہزادہ داؤد سنہ 1996 میں خاندانی کاروبار میں شامل ہوئے جہاں ان کی مہارت کارپوریٹ گورننس اور پاکستان میں صنعتی شعبے کی تجدید میں ہے

داؤد ہرکولیس کارپوریشن صنعتوں کے ایک متنوع سلسلے کا انتظام و انصرم سنبھالتی ہے جہاں شہزادہ داؤد توانائی، زرعی و غذائی اشیا، خوراک، پیٹرو کیمیکلز اور ٹیکسٹائل جیسے شعبوں کے انضمام اور ترقی و اختراع کے مواقع تلاش کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں

شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن لمیٹڈ اور داؤد لارنس پور لمیٹڈ کے بورڈز میں بطور شیئر ہولڈر ڈائریکٹر بھی شامل ہیں

ٹائٹن کے ساتھ ممکنہ طور پر کیا ہوا ہوگا؟

یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر الیسٹیر کریگ کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں کئی ممکنہ منظرناموں پر کام کر چکے ہیں کہ لاپتہ آبدوز کہاں ہو سکتی ہے

ایک تو یہ ہے کہ لاپتہ آبدوز نے ہنگامی صورتحال پیش آنے کے بعد ‘اضافی وزن’ گرا دیا ہو تاکہ سطح پر آیا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ ‘اگر بجلی یا کمیونیکیشن کی خرابی ہوئی ہے تو ممکن ہے کہ ایسا ہوا ہو اور پھر آبدوز اپنے مل جانے کے انتظار میں سطح پر ہی گھوم رہی ہوگی۔’

ایک اور ممکنہ منظر نامے کے بارے میں وہ کہتے ہیں ’ممکن ہے کہ اس آبی گاڑی کے تلے یا نچلے حصے میں خرابی ہوئی ہو، جس کے نتیجے میں لیکج ہو سکتی ہے اور یہ کوئی اچھا خیال نہیں ہے۔‘

پروفیسر کریگ کا کہنا ہے ‘اگر آبدوز سمندر کی تہہ میں چلی گئی ہے اور اپنے زور پر واپس آنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی ہے تو پھر بہت ہی کم آپشن بچتے ہیں۔’

ان کے مطابق اگر آبدوز کا ڈھانچہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور 200 میٹر سے زیادہ کی گہرائی میں موجود ہے تو بہت کم ہی جہاز ایسے ہیں، جو اتنی گہرائی تک جا سکتے ہیں اور یقینی طور پر غوطہ خور تو بالکل نہیں جا سکتے

نیوی کی آبدوز ریسکیو کرنے کے لیے بنائی گئی گاڑیاں یقینی طور پر اس گہرائی کے قریب کہیں بھی نہیں اتر سکتیں، جہاں ٹائٹینک کا ملبہ موجود ہے

ڈیوڈ پوگ نامی رپورٹر، جن کا تعلق سی بی ایس سے ہے، گذشتہ سال اسی آبدوز پر سفر کر چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ممکنہ طور پر اس آبدوز سے رابطہ کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں کیوں کہ پانی کے نیچے ریڈیو یا جی پی ایس کام نہیں کرتا۔‘

’جب کوئی جہاز اس آبدوز کے بالکل اوپر پہنچ جائے تو پھر پیغامات کا تبادلہ ہو سکتا ہے لیکن بظاہر ابھی تک ایسی کوششوں کا کوئی جواب نہیں مل رہا۔‘

انھوں نے بتایا کہ آبدوز سے نکلنے کا کوئی طریقہ نہیں کیوں کہ ’آبدوز میں موجود لوگوں کو صرف باہر سے ہی کوئی نکال سکتا ہے۔‘

ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کی مہم کیا ہے؟

اوشیئن گیٹ کمپنی کی اشتہاری مہم کے مطابق آٹھ دن کا یہ سفر عام زندگی سے نکل کر کچھ غیر معمولی دریافت کرنے کا موقع ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق 2024 میں بھی دو مہمات بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے

اس چھوٹی سی آبدوز میں ایک پائلٹ کے علاوہ تین مہمان مسافر ہوتے ہیں جو ٹکٹ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ کمپنی کے مطابق ایک ماہر بھی آبدوز میں سوار ہوتا ہے۔ اس مہم کا آغاز نیو فاؤنڈ لینڈ میں سینٹ جونز سے ہوتا ہے

کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے پاس تین آبدوزیں ہیں جن میں سے صرف ٹائٹن نامی آبدوز، جو لاپتہ ہے، اتنی گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہے

اس آبدوز کا وزن 10432 کلو ہے اور ویب سائٹ کے مطابق یہ 13100 فٹ کی گہرائی تک جا سکتی ہے۔ اس آبدوز میں 96 گھنٹے تک کے لیے لائف سپورٹ موجود ہوتی ہے

ٹائٹینک سمندر کی تہہ میں کہاں موجود ہے ؟

ٹائٹینک کی باقیات شمالی بحراوقیانوس میں موجود ہیں، جو کینیڈا میں نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل سے تقریباً 600 کلومیٹر جنوب مشرق میں 38 سو میٹر سمندر کی گہرائی میں پڑی ہیں

اس کی باقیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جہاز کی کمان یعنی اگلا حصہ اور سٹرن یعنی پچھلا حصہ، ملبے کا ایک بہت بڑا حصہ اس جہاز کے دونوں حصوں کو گھیرے ہوئے ہے

یہ باقیات گرینڈ بینک آف نیو فاؤنڈ لینڈ کے جنوب میں’ٹائٹینک کینین ‘کے نام سے جانے والے ایک علاقے میں ہیں۔ اس علاقے کے لیے یہ نام 1991 میں سمندری ماہر ارضیات ایلن رفمین نے تجویز کیا تھا

اپنے وقت میں، ٹائی ٹینک دنیا کا سب سے بڑا مسافر بردار جہاز تھا تاہم 1912 میں اپنے پہلے ہی سفر میں 14 اور 15 اپریل کی درمیانی شب یہ دیو ہیکل بحری جہاز برطانیہ کے شہر ساؤتھمپٹن سے نیویارک کی جانب جاتے وقت ایک برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گیا تھا۔ اس سانحے میں 1500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے

9851 میں ٹائٹینک کی باقیات کی دریافت امریکی حکومت کی طرف سے کچھ خفیہ دستاویزات کے اعلان کی بدولت سامنے آئیں

ٹائٹینک کی باقیات کیسے ملیں

امریکی انٹیلیجنس کے آفیسر رابرٹ بیلارڈ ان افراد میں شامل تھے، جنھوں نے 1980 کی دہائی میں ٹائٹینک کی باقیات کو تلاش کے خفیہ مشنز میں حصہ لیا تھا

امریکی بحریہ نے انھیں جہاز کی تلاش کے ذرائع فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی، لیکن ساتھ ہی شرط رکھی کہ وہ صرف اس صورت میں ان وسائل کو استعمال کرسکتے ہیں جب وہ 1960 کی دہائی میں بحر اوقیانوس میں ڈوبنے والی دو امریکی جوہری آبدوزوں کو بھی تلاش کریں گے

اس طرح خفیہ فرانکو امریکن مشن کا آغاز1985 میں ہوا۔ دوسری جانب ٹائٹینک کی تلاش کی آڑ میں اس آپریشن کا فیصلہ اس لیے درست سمجھا جا رہا تھا جس سے روسیوں اور ذرائع ابلاغ کو شک نہ ہو کہ ڈوبی ہوئی آبدوزوں کو تلاش کیا جا رہا ہے

اس مشن کا پہلا حصہ کامیاب رہا۔ بیلارڈ کو یو ایس ایس تھریشر اور یو ایس ایس اسکارپین دونوں آبدوزیں مل گئیں

اب بیلارڈ کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے پاس ٹائٹینک کو تلاش کرنے کے لیے صرف بارہ دن باقی رہ گئے تھے

ٹائٹینک کے ملبے کو ڈھونڈنے کے لیے وہ جو کشتی استعمال کر رہے تھے وہ پہلے ہی ایڈوانس میں دوسرے لوگوں نے کرائے پر لے رکھی تھی

بالآخر اسکارپیئن کو تلاش کرنے کے تجربے کے ساتھ ہی بیلارڈ کو صرف آٹھ دنوں میں یکم ستمبر 1985 کو ٹائٹینک مل گیا۔ اس کو تلاش کرنے میں انھیں آرگو آبدوز سے مدد ملی جو کیمروں سے لیس تھی اور تصاویر کو سطح پرمنتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی

بیلارڈ نے 2021 میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب انھوں نے جہاز کا ملبہ دیکھا تو ایک لمحے ان کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن دوسرے ہی لمحے ان کی خوشی تاسف میں بدل گئی

بیلارڈ نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پرآشکار ہوا کہ ہم کسی کی قبر پر خوشی کا جشن منا رہے ہیں۔ ہم شرمندہ ہیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close