ننگرپارکر کے گاؤں اون وانڈھیو کی رہائشی چھیالیس سالہ ہریاں کے شوہر کھیت مزدور ہیں اور وہ خود بھی کشیدہ کاری اور کڑہائی کر کے کچھ پیسے جوڑ لیتی ہیں
مقامی صحافی جی آر جونیجو کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ دنوں ہریاں کو پیٹ میں شدید درد کی شکایت ہوئی تو انہوں نے گاؤں کے اسٹور سے دوا لی لیکن افاقہ نہیں ہوا
اہل خانہ انہیں ننگرپارکر کے تحصیل ہسپتال لے گئے، جہاں ڈاکٹروں نے ان کے گردوں میں پتھری کی تشخیص کی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ ان کا علاج اس ہسپتال میں ممکن نہیں
کچھ روز بعد وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ڈیڑھ سو کلومیٹر کا سفر کر کے سول ہسپتال مٹھی پہنچیں، لیکن اس ہسپتال نے بھی ان کے علاج سے معذرت کرتے ہوئے انہیں حیدرآباد جانے کا مشورہ دیا
ہریاں کے پاس نہ اتنے پیسے ہیں اور نہ وسائل کہ وہ حیدرآباد جا کر اپنی بیماری کا علاج کروا سکیں
اس ساری کہانی میں حیران کن امر یہ ہے کہ گردوں کی پتھری ایک عام بیماری ہے اور اس کا علاج بالکل پیچیدہ نہیں۔ جبکہ مٹھی کا سول ہسپتال ٹرشری ہیلتھ کیئر (اعلیٰ ترین) درجے کا ہسپتال ہے، جہاں اس مرض کا علاج بائیں ہاتھ کا کھیل ہونا چاہیے
تو پھر سوال یہ ہے کہ ہریاں کو دربدر کیوں ہونا پڑ رہا ہے؟ کیا ہسپتال صرف یہ مشورہ دینے کے لیے بنایا گیا ہے کہ مریض کو حیدرآباد لے جایا جائے؟
رپورٹ کے مطابق ضلع تھرپارکر لگ بھگ بیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جس میں بیس لاکھ لوگ آباد ہیں، 174 بستروں پر مشتمل ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال جسے، عرف عام میں سول ہسپتال کہا جاتا ہے، اس علاقے کا واحد بڑا ہسپتال ہے
ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر زاہد محمود نے نیوز ویب سائٹ لوک سجاگ کو بتایا کہ تھرپارکر کے علاوہ میر پورخاص اور بدین سے بھی مریض سول ہسپتال مٹھی آتے ہیں اور یہاں ہر وقت ہر طرح کے مریضوں کا بہت رش لگا رہتا ہے
ڈاکٹر زاہد محمود کے مطابق ”یہاں ہر ماہ ایک ہزار سے بارہ سو تک تو صرف بچے داخل ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ بیڈ بھر جاتے ہیں تو ایک بیڈ پر دو دو مریضوں کو شفٹ کرنا پڑتا ہے“
ڈاکٹر زاہد محمود کے مطابق سول ہسپتال مٹھی میں عملے کی شدید کمی ہے۔ یہاں گریڈ ایک سے 20 تک کی کل 427 اسامیاں ہیں، جن میں سے 171 خالی پڑی ہیں۔ ان میں 82 اسامیاں ڈاکٹروں کی اور 89 پیرامیڈیکس اور دیگر عملے کی ہیں
ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر تھرپارکر ڈاکٹر ہرچند رائے نے انکشاف کیا کہ تھرپارکر میں 2015ع سے کوئی نئی بھرتی نہیں ہوئی ہے ”اگر صرف خالی اسامیوں پر بھرتی ہو جائے تو بھی ہسپتال کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہم نے سیکریٹری اور ڈی جی کو پہلے بھی لیٹر لکھ کر آگاہ کیا تھا اور ابھی ڈپٹی کمشنر تھرپارکر نے بھی خط لکھا ہے“
”ڈپٹی کمشنر تھرپارکر لال ڈنو منگی نے سیکریٹری محکمہ صحت سندھ کو خط لکھ کر سول ہسپتال کے مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے خالی اسامیوں کو جلد پُر کرنے اور ڈاکٹروں کی حاضری کو یقینی بنانے کا بھی کہا ہے“
ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ سول ہسپتال ضلع کا اہم اور ہیڈکوارٹر ہسپتال ہے، جہاں پر تمام اسپیشلسٹ اور پورے عملے کا تعنیات ہونا لازمی ہے
ان کے مطابق یہاں تعینات دس ڈاکٹر بغیر تنخواہ کے لمبی چھٹی پر ہیں، جن میں سے کئی بڑے شہروں میں اپنے سینٹر چلا رہے ہیں
انہوں نے بتایا ”کئی فیمیل ڈاکٹر اور گائناکالوجسٹ غیر حاضر رہتی ہیں، جس کی رپورٹ سول سرجن نے محکمے کو بھیجی ہے لیکن اس پر اب تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی“۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر نومبر 2022ء کو 90 دن کی میٹرنٹی چھٹی پر گئیں مگر انہوں نے ابھی تک واپس جوائن نہیں کیا ہے
ڈاکٹر زاہد محمود کو شکایت ہے کہ لوگ تھرپارکر کے ڈومیسائل پر میڈیکل کالج میں سیٹ تو لیتے ہیں، لیکن ڈاکٹر بننے کے بعد تھرپارکر میں ڈیوٹی کرنے پر تیار نہیں ہوتے اور یہاں سے اپنا تبادلہ کروا کے کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ کچھ تو کراچی میں اپنے ذاتی کلینک چلا رہے ہیں
مٹھی کے شہری ایڈوکیٹ عاشق بجیر اپنے علاقے میں صحت کی سہولیات سے نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”تھر پارکر میں محکمہ صحت صرف نام کا ہی رہ گیا ہے۔ دیہات میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تعلقہ ہسپتالوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹر ہے نہ ہی کہیں فعال آپریشن تھیٹر ۔ پورے ضلع سے حاملہ خواتین مٹھی لائی جاتی ہیں اور ادھر گائناکالوجسٹ حاضر نہیں ہوتی۔ ہاں یہاں پرائیویٹ کلینک چل رہے ہیں لیکن غریب اتنا پیسہ کہاں سے لائیں؟“
انہیں بھی تھرپارکر کے ڈومیسائل پر ڈاکٹر بننے والوں سے شکایت ہے۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت یہاں کے ڈومیسائل پر ڈگری حاصل کرنے والوں کو پابند بنائے تاکہ وہ یہاں ڈیوٹی کریں
ڈپٹی کمشنر نے اپنے خط میں سیکریٹری کو تجویز کیا ہے کہ قریبی اضلاع کراچی، ٹنڈو محمد خان، حیدرآباد، میر پور خاص کے میڈیکل کالج اور یونیورسٹیوں کے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹروں کو روٹیشن کی بنیاد پر تھرپارکر بھیجا جائے تاکہ یہاں کے صحت کے مسائل حل ہو سکیں
تھر میں برسوں سے مفت بلڈ بینک چلانے والے سماجی رہنما ماما وشن تھری کا کہنا ہے کہ تھر پارکر بڑی تعداد میں تھلیسیمیا کے مریض بچے بھی ہیں جن کے لیے کوئی سیٹ اپ نہیں ہے نہ ہی سرکاری طور پر ان کی کوئی رجسٹریشن ہو رہی ہے
ماما وشن تھری کی تھرپارکر سوشل آرگنائزیشن تھلیسمیا کے 64 مریض بچوں کو مفت خون فراہم کر رہی ہے
”محکمہ صحت میں مزید کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم تھلیسمیا سینٹر کے لیے کوشش کر رہے ہیں اگر حکومت ساتھ دے تو ہم تھلیسیمیا کے مریض بچوں کے لیے یہاں ایک سینٹر بنا سکتے ہیں۔“