وہ شہد کی مکھیوں سے بچاؤ کے سفید سوٹ میں ملبوس ہیں، بظاہر تو وہ خود کو شہد کی مکھیوں کے کاٹے سے بچا رہی ہیں لیکن دراصل وہ شہد کی مکھیوں کو بچانے کے مشن پر ہیں
یہ ہیں ایڈریانا ویلز، جو چاقو لے کر ایک لائٹ پوسٹ کے کنارے کو کھولتی ہیں اور اندر شہد کی مکھیوں کے چھتے میں بھنبھناتی مکھیوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ویلز تقریباً بیس ہزار شہد کی مکھیوں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں
ایڈریانا ویلز ’ابیجا نیگرا ایس او ایس‘ نامی گروپ کی سربراہ ہیں، جس میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں۔ یہ گروپ میکسیکو کے پرجمان دارالحکومت سے شہد کی مکھیوں کو منتقل کرنے کا کام کر رہا ہے، کیونکہ اس گروپ کو خدشہ ہے کہ شہد کی مکھیاں دارالحکومت میں رہیں تو یہ ختم ہو جائیں گی
’ابیجا نیگرا ایس او ایس‘ نامی یہ گروپ 2018ع میں بنا تھا۔ اس وقت ایڈریانا ویلز شہری حکومت کے لیے کام کرنے والی جانوروں کی ڈاکٹر تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں جب بھی شہد کی مکھیوں کے بارے میں کوئی کال آتی تو ان کے محکمے کا فوری ردِعمل شہد کی مکھیوں کو ختم کرنا ہوتا تھا
تبھی انہوں نے ساتھیوں کے ساتھ متبادل حل تلاش کرنا شروع کیا۔ ایڈریانا کہتی ہیں ”ہم شہد کی مکھیوں کو اس لیے بچاتے ہیں، کیونکہ یہ ایک ایسی نسل ہے جو معدوم ہونے کے خطرے سے دو چار ہے۔ ہم ایک متبادل ہیں تاکہ ایمرجنسی ٹیمیں انہیں ختم نہ کریں۔ ہم انہیں دوسرا موقع دیتے ہیں“
عالمی سطح پر بھی حالیہ دہائیوں میں شہد کی مکھیوں کی آبادی کو بڑے پیمانے پر ختم کیا گیا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ صرف امریکہ میں گزشتہ چالیس برسوں میں شہد کی مکھیوں کی تعداد تقریباً 25 فی صد کم ہوگئی ہے
اس سال کے شروع میں جنوبی میکسیکو میں شہد کی مکھیاں پالنے والوں نے کیڑے مار ادویات کے ذریعے لاکھوں مکھیوں کو نقصان پہنچایا
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ماہرین کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان ميں اب صرف دو قسم کی مکھياں شہد پيدا کر رہی ہيں، جس کی وجہ سے پاکستان ميں شہد کی پيداوار ميں نماياں کمی آئی ہے، جس کی ایک وجہ شہد کی مکھیوں کی تعداد میں کمی بھی ہے
’آل پاکستان بی کيپنگ اينڈ ہنی ٹريڈرز ايسوسی ايشن‘ کے سينئر نائب صدر گل بادشاہ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مقامی سطح پر شہد کی پیدوار بھی کم ہو رہی ہے۔ ان کے بقول، شہد کی مکھیوں کی خوراک پھول، درخت اور سرسبز باغات میں ہوتی ہے۔ لیکن جنگلات کی کٹائی، بے ہنگم تعمیرات اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث شہد کی پیدوار کم ہو رہی ہے
زرعی تحقيقاتی ادارہ ترناب فارم ميں بطور سينئر ريسرچ آفيسر حياتيات تعينات ڈاکٹر يونس بھی گل بادشاہ سے اتفاق کرتے ہيں۔ ان کے مطابق بد قسمتی سے گلوبل وارمنگ کے باعث پاکستان ميں اب صرف دو اقسام کی مکھياں شہد پيدا کر رہی ہيں، جس کی وجہ سے پاکستان ميں شہد کی پيداوار ميں نماياں کمی آئی ہے
موسمياتی تبديلی، جنگلات کی کٹائی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مکھيوں کی خوراک کم ہو گئی ہے۔
موسمياتی تبديلی، جنگلات کی کٹائی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مکھيوں کی خوراک کم ہو گئی ہے
دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی معدومی کا الزام اکثر انسانی وجوہات پر لگایا جاتا ہے، جن میں نقصان دہ کیمیکلز کا استعمال، قدرتی رہائش گاہوں کی تباہی اور موسمیاتی تبدیلی وغیرہ شامل ہیں
سائنسدانوں اور عالمی رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی آبادی میں کمی سے بہت سے نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔2019ع میں اقوامِ متحدہ نے متنبہ کیا تھا کہ شہد کی مکھیوں کا نقصان عالمی غذائی تحفظ کے لیے ‘سنگین خطرہ’ ہے
اس وقت دنیا میں بہت سے گروپ ماحولیات کی بقا اور شہد کی مکھیوں کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر سر گرم ہیں
میکسیکو کی نیشنل یونیورسٹی میں شہد کی مکھیوں پر تحقیق کرنے والی پروفیسر ایڈریانا کوریا بینیٹیز سمیت دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کو پہنچنے والا نقصان میکسیکو کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنا مزید مشکل بنا سکتا ہے
بینیٹیز نے کہا ”شہد کی مکھیاں مقامی پودوں کو پولینیٹ (ایک پودے سے دوسرے کو زرخیز) کرتی ہیں اور اب آب و ہوا کی تبدیلی کے ساتھ جنگلات کی بحالی بہت اہم ہے اورشہد کی مکھی کی پولینیشن واقعی اس پر اثر انداز ہوتی ہے
ایڈریانا ویلز کے گروپ نے پچھلے پانچ سالوں میں تقریباً نوے لاکھ آبادی والے شہر میکسیکو سٹی میں ہر جگہ سفر کیا ہے، شہد کی مکھیوں کی کالونیوں کو درختوں، گلیوں کے گٹروں اور لیمپ پوسٹوں سے بچایا ہے۔ انہوں نے تقریباً 80 ہزار اوسط سائز کے 510 کے قریب چھتے منتقل کیے ہیں
حال ہی میں ایڈریانا ویلز نے ایک چھتے میں جھانکتے ہوئے اسے آہستہ آہستہ چاقو سے کاٹنا شروع کیا، نرم آواز میں لوری جیسی دھن گنگناتے ہوئے گویا کسی بچے کو پرسکون کررہی ہوں۔ چھری سے شہد ٹپکنے لگتا ہے تو وہ آہستگی سے شہد کے چھتے کو باہر نکالتی ہیں اور اسے لکڑی کے چوکور فریم میں رکھ کر لکڑی کے ڈبے میں سلائیڈ کر دیتی ہیں
ایڈریانا چھتے سے متعلق کہتی ہیں ”یہ ایک چھوٹی کالونی ہے اور یہ پرسکون ہے اب ہمیں ملکہ کی تلاش ہے۔ شہد کی مکھیوں کی بحالی اور کالونی کو آسانی سے منتقل کرنے کا ایک اہم عنصر ملکہ ہے“
”آپ سن رہے ہیں یہ آواز؟ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس ملکہ ہے“ وہ اپنےکان کو اس ڈبے سے لگاتے ہوئے کہتی ہیں جہاں شہد کی مکھیوں کی افراتفری کی آوازیں بھنبھناہٹ میں بدل جاتی ہیں
چونکہ میکسیکو میں بہت سی مکھیاں افریقہ سے آتی ہیں، اس لیے وہ اوسط شہد کی مکھی سے زیادہ جارحانہ ہو سکتی ہیں۔ یہ چیز بڑے شہروں میں مسائل پیدا کر سکتی ہے، جہاں کے رہائشی اکثر کیڑے مکوڑوں کو ان کی ماحولیاتی اہمیت سے زیادہ خطرے سے جوڑتے ہیں
ایڈریانا ویلز نے بتایا کہ ان کے گروپ میں زیادہ تر خواتین شہد کی مکھیوں کو سنبھالنے کا کام کرتی ہیں۔ ان کے بقول ”ایک بار جب چھتے کو باکس کے اندر محفوظ طریقے سےرکھ دیا جاتا ہے، تو یہ گروپ شہد کی مکھیوں کو شہر کے دیہی مضافات میں لے جاتا ہے۔بعد میں وہ شہد کی مکھیوں کو مقامی کسانوں کو عطیہ کردیتے ہیں یا انہیں جنگل میں چھوڑ دیتے ہیں“
ایڈریانا ویلز کہتی ہیں ان کی ٹیم کو رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے کیوں کہ وہ چھتے کو ہٹانے کے لیے تین سو ڈالر سے تھوڑا زیادہ چارج کرتے ہیں جو بنیادی طور پر لاجسٹک اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ہے
شہر میں بہت سے لوگوں کے لیے یہ پیسے دینے کے بجائے شہد کی مکھیوں کو ختم کرنے کے لیے فائر فائٹرز کو بلانا اب بھی آسان ہے۔ اس کے باوجود، جیسے جیسے ویلز کا پروجیکٹ آگے بڑھاہے، اس سے دوسرے گروپوں کو ابھرنے اور وہی کام کرنے کی ترغیب ملی ہے
ایڈریانا ویلز نے کہا ”ہم جو کچھ کرتے ہیں، اس سے شاید ہم دنیا کو تبدیل نہ کر سکیں، لیکن ہم کم از کم اپنے شہر کی صورتِ حال کو بدل رہے ہیں۔“