امیدوں کے جزیرے

محمد بلوچ

اور آخر کار سندھ میں چند دن پہلے بلدیاتی نظام کا انتخابی عمل مکمل ہوا. تمام بلدیاتی اداروں میں انتخاب کا عمل بھی پایہِ تکمیل تک پہنچا. یونین کاؤنسلز، ٹاؤنز، تحصیل و ضلعی سطح تک کے عہدیداروں نے اپنی اپنی ذمیداریاں بھی سنبھال لی ہیِں.

سندھ کے بلدیاتی انتخاب کے عمل میں پورے سندھ بلکہ میں یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ پورے پاکستان کی نظریں کراچی پر ہوتی ہیں. کیونکہ کراچی کی تین کروڑ آبادی میں تمام سیاسی پارٹیاں اپنا وجود رکھتی ہیں.
اس بار ایک بار پھر کراچی کے بلدیاتی ڈھانچے کو تشکیل دینے میں ایک نیا تجربہ کیا گیا. کراچی کو 25 ٹاؤنز میں بانٹ دیا گیا. ان 25 ٹاؤنز میں بلدیاتی انتخابات میں جو ”غیر جانب دارانہ“ نتائج سامنے آئے، وہ کچھ اس طرح ہیں:
پی پی پی = 155
جماعت اسلامی = 130
پی ٹی آئی = 62
مسلم لیگ ن = 14
جمعیت علمائے اسلام = 04
تحریک لبیک = 01

چونکہ اس وقت مرکزی حکومت میں پی پی، ن لیگ و جمیعت علمائے اسلام اتحادی ہیں تو کراچی کے میئر شپ کے لئے بھی ان کا اتحاد فطری تھا. لہٰذا کراچی میونسپل کارپوریشن KMC میں ان کی تعداد مل ملا کر 173 بنی

دوسری طرف پی ٹی آئی اوع جماعت اسلامی کے ممبران کی تعداد کل ملا کر 192 بنی.

پیپلز پارٹی نے اپنی طرف سے میئر شپ کے لئے مرتضیٰ وھاب اور ڈپٹی میئر کے لئے سلمان عبداللہ مراد کو نامزد کیا. ( واضح رہے کہ یہ دونوں اب تک بلدیہ عظمیٰ کے میمبر نہیں ہیں. ان دونوں کو چھ ماہ کے اندر کراچی کے کسی بھی یوسی سے منتخب ہوکر بلدیہ عظمیٰ کا ممبر بننا ہے.)

جماعت اسلامی و پی ٹی آئی نے اتحاد کر کے حافظ نعیم الرحمان کو میئر اور سیف الرحمان کو ڈپٹی میئر نامزد کیا

انتخاب عمل کے دوران پی ٹی آئی کے تیس ارکان نے ووٹ کاسٹ نہ کر پائے، بلکہ وہ اس انتخابی عمل سے دور رہے یا دور رکھے گئے۔۔ اس طرح پی ٹی آئی کے 62 ارکان میں سے صرف 32 ارکان ہی اپنے ووٹ کاسٹ کر پائے

ان غیر حاضر ارکان کو خریدا گیا، اغواہ کیا گیا.ل، مراعات دینے کی پیشکشیں کی گئیں. جہانگیر ترین گروپ سے منسلک جیسے القابات سے بھی نوازا گیا.

ممکن ہے تمام القابات و الزامات میں کچھ سچائی بھی ہو لیکن یہ کوئی حیرت زدہ کرنے والا عمل بالکل بھی نہیں لگا. کیونکہ اب اس ملک کی سیاست میں عرصہِ دراز سے اس طرح کے غیر سیاسی و غیر اخلاقی سیاسی کلچر کو فروغ دیا گیا ہے. پھر چاہے وہ سینٹ کے انتخابات ہوں یا قومی اسمبلی کے یا صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں. اب جمہوری و اخلاقی سیاست کے شیرازہ کو بکھیر دیا گیا ہے. اس غیر سیاسی و غیر اخلاقی عمل کو ہم کسی ایک سیاسی پارٹی کو موردِ الزام نہیں ٹھرا سکتے.

بہرحال اس انتخابی عمل میں پیپلز پارٹی کے میئر شپ کے لئے مرتضی وھاب اور ڈپٹی میئر کے لئے سلمان عبداللہ منتخب ہوئے. (ان دونوں کو بلدیہ عظمی کے باقائدہ میمبر نہ ہونے کی وجہ سے نئے پاس شدہ صوبائی اسمبلی کے ترمیم شدہ لوکل آرڈینسس کے تحت 6 ماہ کے اندر کراچی کے کسی بھی یو سیز سے بحثیت چیئرمین منتخب ہوکر بلدیہ عظمی کا میمبر بننا ہے. بصورت دیگر وہ اپنے موجودہ نشتوں پر برقرار نہیں رے سکتے.)

قیام پاکستان کے کئی سالوں کے بعد ملیر کراچی سے صدیوں سے آباد ایک شخص بنام سلمان عبداللہ کو کراچی بلدیہ عظمی میں ایک اہم عہدے پر فائز کیا گیا ہے، جو ایک خوش آئند عمل ہے.
کراچی ملیر، کراچی کی ستر فیصد آبادی پر مشتمل ہے جس کا زیادہ تر حصہ زرعی ہے. جو اس وقت تباہ و برباد ہے.

نہ صرف تباہ و برباد ہے بلکہ چاروں اطراف قبضہ گیر و بلڈرز مافیا کی نظروں میں ہے، جس میں مقامی و غیر مقامی مافیاز سرگرم نظر آ رہی ہیں. آباد و غیر آباد زرعی زمینون پر ہاؤسنگ پروجیکٹس و انڈسٹریل زون کی یلغار نے یہاں کے مقامی لوگوں کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے.

1964 میں یہاں کے مقامی زمینداروں کی جدوجہد سے یہاں کی ندیوں سے ریتی بجری اٹھانے پر سرکاری طور دفعہ 144 نافذ کی گئی، تب سے لے کر اب تک پولیس کی سرپرستی میں اس دفعہ کی دھجیاں بکھیری جاتی رہی ہیں اور یہ عمل آج تک اسی طرح جاری و ساری ہے

نامزد ڈپٹی میئر سلمان مراد کے والد شہید عبداللہ مراد نے اسمبلی میں بل منظور کروا کر ملیر کی زراعت کو بچانے کی کوشش کی، مگر یہ بل بھی ملیر کو تباہی سے نہ بچا سکا. کے ای ایس سی موجودہ کے – الیکٹرک کے متنازعہ بلوں نے بھی ملیر کی زرعی زمینوں کی رہی سہی کسر پوری کردی۔

عام لوگ اب یہاں پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں. ملیر جو کبھی پورے کراچی کے لوگوں کو پانی پلاتا تھا، اب اس کے اپنے بچے پینے کے پانی سے محروم ہیں. سیورج لائن کی گلی سڑی لائنز دیکھ کر موئن جو دڑو کے لوگوں پر رشک آتا ہے کہ وہ کس طرح پانچ ہزار سال پہلے ایک ترتیب سے زندگی گذارتے تھے اور ہم اکیسویں صدی میں رہ کر بھی کس طرح کے بدبودار زندگی گذارنے پر مجبور ہیں.

اس طرح بہت سارے سوالات، گھنبیر مسائل موجودہ نؤ منتخب کراچی بلدیہ عظمیٰ کے رہنماؤں بشمول ملیر سے 30 منتخب ارکان کے لئے چینجلز بن کر سامنے کھڑے ہیں۔

اب پورے کراچی اور خاص طور پر ملیر کے لوگ امید کے جزیرے پر کھڑے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close