محمد سلطان کا تعلق سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سے اور وہ ایک محنت کش ہے۔ وہ تین نسلوں سے سوت کے دھاگے سے رسیاں (سُتلی) بنانے کا کام کرتا ہے
سلطان کا کہنا ہے ”اپنے خاندانی کام کو جاری رکھنے کے دوران میرے ہاتھوں خصوصاً انگلیوں کے نشان مٹ گئے ہیں، جس کی وجہ سے بائیو میٹرک تصدیق میرے لیے ایک مشکل مرحلہ بن گیا ہے“
یہ مسئلہ صرف سلطان کو ہی درپیش نہیں ہے بلکہ اس پیشے سے وابستہ دیگر لوگ بھی اسی مشکل سے دوچار ہیں
سلطان نے بتایا ”نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سمیت دیگر اداروں میں جہاں بائیو میٹرک کی ضرورت پڑتی ہے، وہاں سوت کے دھاگے سے رسیاں بنانے والوں کے لیے سروسز حاصل کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے“
سلطان کا کہنا ہے ”رسیوں کو سیدھا کرنے، دھاگے کو بل دینے سمیت تمام کام ہاتھ سے انجام دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے ہاتھ کی لکیریں گِھس جاتی ہیں اور موبائل سم کے حصول، شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹ کھلوانے سمیت جہاں بائیو میٹرک تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں بہت دقت ہوتی ہے۔ اکثر تین سے چار بار جانے کے بعد بائیو میٹرک تصدیق ممکن ہوتی ہے، جس کے لیے عموماً ہم ایک ہفتہ قبل کام پر نہیں جاتے تاکہ ہمارے ہاتھ کی لکیریں واضح ہو جائیں“
تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے نادرا میں آنکھوں کے ذریعے بائیو میٹرک (آئرس) کے نافذ کیے جانے والے نظام کے بعد انہیں امید ہے کہ ان کی انگلیوں کی مِٹی ہوئی لکیروں کی وجہ سے درپیش شناختی مسائل میں کمی آئے گی
واضح رہے کہ نادرا نے گذشتہ ماہ ہی اپنے آٹومیٹڈ بائیو میٹرک آئیڈینٹی فکیشن سسٹم (اے بی آئی ایس) میں آئرس (آنکھوں کے ذریعے) بائیو میٹرک تصدیق کو بھی تیسرے آپشن کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ اس سے قبل نادرا میں چہرے کے ذریعے یا فنگر پرنٹ سے ہی کسی بھی شخص کی شناخت کی تصدیق کی جاتی تھی
سلطان نے رسیوں کی تیاری کے مراحل بتاتے ہوئے کہا ”پہلے سوت کے دھاگے سے بڑے چرخے کی مدد سے باریک رسیاں تیار کی جاتی ہیں، پھر ان رسیوں میں سے چار کو مخصوص چرخے پر باندھ کر بل دیے جاتے ہیں، اس دوران ان میں نائلون کی رنگین رسی کا بھی اضافہ کیا جاتا ہے، جس سے اس میں خوبصورتی اور مضبوطی آ جاتی ہے۔ اس کے بعد رسی تیار ہوجاتی ہے اور اس دوران رسیوں کو ہاتھ سے سیدھا کیا جاتا ہے“
سلطان نے بتایا کہ چھ مزدور مل کر یہ سب مختلف کام انجام دیتے ہیں، جنہیں وزن کے حساب سے مزدوری ملتی ہے ”روزانہ اوسطاً سو کلو دھاگے سے رسیاں بنائی جاتی ہیں، جس کی مزدوری پانچ ہزار روپے تک بنتی ہے، جو ہم آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ تمام اخراجات نکال کر بہ مشکل ایک مزدور کو پانچ سے چھ سو روپے کی مزدوری ملتی ہے۔“