پاکستانی شہری اسرائیل کیسے پہنچے اور وہاں کئی برس تک کیسے ملازمت کرتے رہے؟

ویب ڈیسک

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے اسرائیل میں غیر قانونی طور پر داخل ہو کر کئی برس تک کام کرنے والے پانچ پاکستانی شہریوں کو گرفتار کیا ہے اور ان کے خلاف امیگریشن آرڈیننس اور پاسپورٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے تحت مقدمات درج کیے ہیں

ایف آئی آر کے مطابق یہ افراد چار سال تک اسرائیل میں گاڑیاں دھونے کا کام کرتے رہے اور اس عرصہ کے دوران وہ اسرائیلی کرنسی کو پاکستانی روپے میں تبدیل کرواتے اور پھر ویسٹرن یونین کے ذریعے اپنے رشہ داروں کو بھیجتے تھے۔ ایف آئی کے اہلکار کے مطابق 10 ملین روپے سے زیادہ کی رقم ملزمان کی طرف سے اپنے رشتہ داروں کو بھجوائی جا چکی ہے

خیال رہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر نہیں کیا جا سکتا جب کہ پاسپورٹ کے ایک صفحے پر یہ درج ہے کہ ’یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا دنیا کے تمام ملکوں کے لیے کارآمد ہے۔‘

حکام کے مطابق، اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا، جب اسرائیل سے کچھ رقم ویسٹرن یونین کے ذریعے سندھ کے شہر میرپور خاص میں واقع پاکستان پوسٹ آفس میں منتقل کی گئی

جب اس بارے میں مزید تحقیقات کی گئیں تو پتا چلا کہ رقم بھیجنے والا شخص محمد اسلم ہے، جو ملازمت کی غرض سے اسرائیل میں مقیم تھا اور اس نے کچھ رقم اپنے گھر والوں کو منتقل کی ہے۔ اسلم 2013ع سے 2022ع تک کے عرصے میں اسرائیل میں ملازمت کرتا رہا اور اس دوران وہ پاکستان بھی آتا جاتا رہا

اسلم سے جب تفتیش کی گئی تو اس نے بتایا کہ ملازمت کے حصول کے دوران اس کی ملاقات اسرائیلی ایجنٹ اسحاق متات سے ہوئی، جس نے اس سے اسرائیل میں کام کرنے کے عوض تین لاکھ روپے طلب کیے تھے

رقم کی ادائیگی کے بعد پاکستانی پاسپورٹ کا حامل محمد اسلم اکتوبر 2013 میں کراچی ایئرپورٹ سے شنجین ویزہ پر ترکیہ کے شہر استنبول پہنچا۔ اس کے بعد وہ اسی اسرائیلی کے ساتھ ترکیہ سے اردن چلا گیا اور وہاں سے اسرائیلی شہر تل ابیب پہنچا، جہاں وہ چار سال تک کاریں دھونے کا کام کرتا رہا۔ واپسی پر بھی اس نے اردن سے دبئی اور وہاں سے کراچی کا راستہ اختیار کیا

سن 2017ع میں وطن واپس آنے کے بعد اس نے ایک بار پھر اسرائیلی ایجنٹ کو سات لاکھ روپے ادا کیے۔ اس بار اسلم کو کراچی سے دبئی، دبئی سے نیروبی اور پھر وہاں سے اردن ائیرپورٹ پہنچایا گیا، جہاں سے وہ تل ابیب میں غیر قانونی طور پر داخل ہوا۔ اسلم دوسری بار وہاں سے گزشتہ سال 29 اپریل کو کراچی واپس پہنچا تھا

اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم میں شامل محمد اقبال کے مطابق، گرفتار ہونے والے افراد کا تعلق مذہبی تنظیموں سے ہے۔ تاہم ایف آئی اے کے اہلکار کے بقول یہ مذہبی تنظیمیں کالعدم نہیں ہیں

ایف آئی اے کے تفتیشی افسر محمد یوسف کا کہنا ہے ”ہم نے ملزمان کی گرفتاری کا پلان تیار کررکھا تھا اور اس سلسلے میں ان کے کچھ محلے دار بھی ہمارے ساتھ رابطے میں تھے۔ جونہی یہ ملزمان مختلف تاریخوں پر میرپور خاص پہنچے اور اپنے گھر آئے، ہماری ٹیموں نے انہیں حراست میں لے لیا اور ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا“

تفتیشی آفیسر نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزمان اسرائیل کے شہر تل ابیب میں رہتے تھے، جہاں وہ بطور ہیلپر اور کار واشر ملازمت کرتے رہے

ملزمان نے تفتیشی آفیسر کو بتایا کہ ان کے ایجنٹ نے انہیں کہہ رکھا تھا کہ کسی کو اپنی پاکستانی شناخت کے بارے میں نہیں بتانا اور کام کے علاؤہ کسی جگہ نہیں جانا، کیوں کہ اگر پکڑے گئے تو مسئلہ بن جائے گا

تفتیشی افسر کے مطابق، ملزمان کے پاسپورٹس اور دستاویزات چیک کیے گئے ہیں، جن میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کے پاسپورٹس پر اسرائیل کا ویزا نہیں لگا

کچھ اسی طرح کی کہانی میرپورخاص ہی کے رہائشی محمد انور کی بھی ہے، جو 2015ع میں غیر قانونی طور پر اسرائیل پہنچا اور وہاں وہ بھی کاریں دھونے کا کام کرتا رہا، جس کے چار سال بعد وطن واپس پہنچا۔ ایک اور محمد ذیشان کو بھی اسی اسرائیلی ایجنٹ نے تل ابیب پہنچایا تھا

ایک اور ایف آئی آر میں ماں، باپ اور بیٹے کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق کامران صدیقی اپنی والدہ ستارہ پروین اور والد ماجد صدیقی کے ہمراہ 2011 میں دس لاکھ روپے دے کر کراچی سے شینجن ویزہ پر زیورخ گئے، وہاں سے اردن روانہ ہوئے اور پھر تل ابیب میں داخل ہوئے تھے

کچھ عرصے کاریں دھونے اور سوئیپر کے طور پر ملازمت کرنے کے بعد کامران کے والدین پاکستان واپس آ گئے، لیکن کامران مزید کچھ عرصہ وہاں غیر قانونی طور پر مقیم رہا، جس کے بعد 2013 میں وہ بھی واپس پاکستان واپس آ گیا۔ کامران 2013 میں دوبارہ اسرائیل گیا اور پھر 2017 میں واپس وطن لوٹا

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ان شہریوں نے اسرائیل میں ملازمت اختیار کرنے کی غرض سے یہ جانتے بوجھتے ہوئے سفر کیا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانا ممنوع ہے، کیوں کہ پاکستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا ہے

ان شہریوں کا پاکستانی پاسپورٹ پر داخلہ، وہاں قیام اور ملازمت اختیار کرنے کا یہ عمل پاکستان امیگریشن آرڈیننس 1979، پاکستان پاسپورٹ ایکٹ 1974 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے تحت غیر قانونی اور قابلِ سزا عمل ہے

حکام کا کہنا ہے تمام ملزمان کا سراغ ان کی جانب سے اپنے اہلِ خانہ کو رقم بھیجنے سے ہوا اور انہیں تحقیقات مکمل ہونے پر پاکستان ہی میں گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم خاتون کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ اب انہیں اس ایجنٹ کی تلاش ہے، جنہوں نے ان شہریوں کو اسرائیل میں داخلے میں مدد فراہم کی

ایف آئی اے کرائم سرکل کے ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والے پانچ ملزمان کا دو دن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے اور ان ملزمان سے ہونے والی اب تک کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ملزمان جب اردن پہنچ جاتے تو وہاں پر ان کی ایسے ممالک کی جعلی دستاویزات بنائی جاتی تھیں، جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے

ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس اسرائیلی ایجنٹ کے اردن میں بھی انسانی اسمگلروں کے ساتھ تعلقات تھے، جن کی معاونت سے ایسے ممالک کی جعلی دستاویزات حاصل کی جاتی تھیں، جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے

ان کا کہنا ہے کہ واپسی کے لیے ان افراد نے اپنا پاکستانی پاسپورٹ ہی استعمال کیا

ایف آئی اے افسر محمد اقبال نے بتایا کہ ملزمان نے اپنی جعلی دستاویزات ضائع کر دی ہیں، جبکہ ان کے زیر استعمال موبائل فون اور لیپ ٹاپ سے کچھ ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے، جو تحقیقات کو آگے بڑھانے میں مدد دے گا

ایف آئی اے کے ایک اور اہلکار کے مطابق ملزمان واپسی کے بعد میر پور خاص میں جنرل اسٹور اور موبائل نیٹ ورکنگ کا کام کر ر ہے تھے

واضح رہے کہ ہر سال پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی طور پر وطن چھوڑ کر نہ صرف یورپ بلکہ مشرق وسطٰیٰ اور دیگر خطوں کا بھی رخ کرتی ہے اور اس دوران ایسے کئی حادثات بھی ہوچکے ہیں، جس میں درجنوں شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، لیکن پاکستانی شہریوں کے اسرائیل جانے کا یہ پہلا واقعہ سامنے آیا ہے

یاد رہے کہ چند ہفتے قبل یونان کے ساحل کے قریب پیش آنے والے ایک حادثے میں میں 100 سے زائد پاکستانی کشتی الٹنے کے باعث ہلاک ہو گئے تھے، جو اٹلی اور یونان جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ ملک سے انسانی اسمگلنگ اور لوگوں کو غیر قانونی طور پر بھیجنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے تاکہ اس عمل کو روکا جا سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close