صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے بیالیس سالہ محمد مسعود نے مبینہ طور پر خودکشی کرنے سے قبل ایک آخری پیغام اپنی بیوی کے لیے چھوڑا ہے، جو میں انہوں نے کہا ”میں نے بہت سارے لوگوں کے پیسے دینے ہیں، سود کے۔۔ انہوں نے میرا جینا حرام کیا ہوا ہے“
اس آڈیو کلپ کے مطابق وہ اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ”اس لیے میں آپ کو بول رہا تھا کہ گھر بیچ دیتے ہیں، آپ نے بولا نہیں گھر نہیں بیچنا۔۔“
اس پیغام میں انہوں نے بیوی کو مخاطب ہو کر مزید کہا ”نہ میں آپ کے قابل ہوں، نہ بچوں کے۔۔ میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ مجھے معاف کر دینا۔۔ میرا موبائل بند رکھنا، کم از کم ایک مہینہ۔“
لیکن آخر نوبت اس حد تک کیسے پہنچی کہ محمد مسعود کو اپنے بیوی بچوں کو یوں بے یار و مددگار چھوڑ کر ملکِ عدم کا راہی ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔۔
شوہر کی خودکشی کے بعد ایک وڈیو پیغام میں ان کی بیوہ نے بتایا ہے کہ محمد مسعود نے گھر کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے آن لائن لون ایپس سے قرض لیا ہوا تھا، جس کی واپسی کے لیے ان کمپنیوں کے نمائندے ’بلیک میل‘ کرتے تھے اور ’ڈیٹا لیک کرنے کی دھمکیاں‘ دیتے تھے
تھانہ ریس کورس نے محمد مسعود کے بھائی مزمل حسین کی مدعیت میں خودکشی کی رپورٹ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ رپورٹ میں مسعود کے بھائی کا کہنا ہے کہ انہیں پیر کو اطلاع ملی کہ ان کے بھائی نے اپنے گھر کے اسٹور روم میں پھندا ڈال کر خودکشی کی ہے
مزمل حسین نے صحافیوں کو بتایا کہ بے روزگاری سے متاثرہ مسعود نے ابتدائی طور پر ایک آن لائن لون ایپ سے بائیس ہزار روپے قرض لیا تھا، جو بروقت ادائیگی نہ کیے جانے پر بڑھتا چلا گیا اور انہوں نے مسلسل دباؤ میں رہنے کے باعث اپنی زندگی ختم کر لی
انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ میں اس حوالے سے ایک درخواست دائر کریں گے
دوسری جانب محمد مسعود کی بیوہ کا کہنا ہے کہ چھ ماہ قبل ان کے شوہر کی نوکری ختم ہوگئی تھی۔ مسعود نے گھریلو اخراجات کی ادائیگی کے لیے شروع میں ایک آن لائن لون ایپ سے صرف تیرہ ہزار روپے کا قرض لیا تھا
ایک وڈیو پیغام میں مسز مسعود نے بتایا ”ایک ہفتے بعد آن لائن کمپنی نے تنگ کرنا شروع کر دیا اور رقم سود کے ساتھ پچاس ہزار تک بڑھا دی۔ میرے شوہر نے آن لائن کمپنی کا قرض چکانے کے لیے ایک دوسری آن لائن کمپنی سے بائیس ہزار روپے لون لیا“
ان کا مزید کہنا ہے ”ایک ہفتے بعد آن لائن کمپنیوں نے زندگی اجیرن کر دی. آن لائن کمپنیوں کے نمائندوں نے بلیک میل کرنا شروع کر دیا اور دھمکیاں دیں۔ آن لائن کمپنیوں نے موبائل سے ذاتی ڈیٹا لیک کرنے کی بھی دھمکی دی“
وہ کہتی ہیں ”میرے شوہر لون کے اوپر مسلسل رقم ادا کرتے رہے۔ پریشانی میں ہم نے آن لائن کمپنیوں کا قرض اتارنے کے لیے لوگوں سے قرض لیا۔۔ میرے شوہر قرض کی دلدل میں پھنستے گئے اور ذہنی اذیت کا شکار ہو گئے۔ میرے شوہر نے دلبرداشتہ ہو کر گلے میں پھندا لگا کر خود کشی کرلی“
مسز مسعود کہتی ہیں ”میرے دو بچے ہیں، میری دنیا اجڑ گئی۔ میری اپیل ہے اِن آن لائن کمپنیوں سے میرے شوہر کا حساب لیا جائے“
اسی تناظر میں ایک لون ایپ کے نمائندے کی مبینہ آڈیو لیک سامنے آئی ہے، جس میں اسے یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ مسعود نے کمپنی کو بائیس ہزار تین سو چھپن روپے ادا کرنے ہیں۔ متعلقہ آڈیو میں یہ نمائندہ کہتا ہے ”کیا مذاق بنایا ہوا ہے؟ میں تم لوگوں کے گھروں میں کالیں کروں، وہ اچھا رہے گا؟“
جب اس نمائندے کو بتایا جاتا ہے کہ مسعود نے تو صرف تیرہ ہزار روپے لیے تھے تو اس پر آگے سے جواب آتا ہے ”تم لوگ سارے فراڈیے ہو“
یہ دریافت کیے جانے پر کہ اگر لون ادا نہ کیا گیا تو کمپنی کیا کرے گی، یہ نمائندہ دھمکی دیتا ہے ”میں سارے کنٹیکٹ نمبروں پر کالیں کروں گا۔ ہمارے پاس گیلری (تصاویر اور وڈیوز) تک رسائی ہوتی ہے“
خیال رہے کہ مسعود کی اہلیہ کے مطابق کمپنی کے نمائندے مختلف شہروں کے نمبروں سے کال کر کے یہ دھمکیاں دیتے تھے کہ وہ ان کی ذاتی معلومات لیک کر دیں گے۔ ان کے مطابق یہ دھمکی بھی دی جاتی تھی کہ اگر رقم رات بارہ بجے تک ادا نہ کی گئی تو یہ دگنی ہوجائے گی
وہ کہتی ہیں ”میرا شوہر تو آج چلا گیا، میری زندگی برباد ہو گئی، مگر کسی اور کا گھر برباد نہ ہو بس۔۔“
آن لائن لون ایپس کا جال
سوشل میڈیا پر قرضہ دینے کی بہت ساری آن لائن ایپس موجود ہیں، جو لوگوں کو چھوٹے قرضے فراہم کرتی ہیں۔ ڈجیٹل قرضہ دینے کی یہ کمپنیاں مختلف ناموں سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر موجود ہیں اور ان میں زیادہ تر کمپنیاں دس ہزار سے پچاس ہزار تک قرضہ فراہم کرتی ہیں
ان کمپنیوں کی جانب سے تیز، آسان، بروقت طریقوں سے قرضہ دینے کے اشتہار سوشل میڈیا پر چلتے ہیں، جس میں قرضہ لینے والے خواہش مند افراد کو ایک سے دو دن میں قرضہ کی سہولت دینے کی پیش کش کی جاتی ہے
آن لائن قرضہ دینے والی یہ ایپس پاکستان میں پلے اسٹور پر سب سے سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہونے والی ایپس میں شامل ہیں
ایسے معاملات کے اعداد و شمار جمع کرنے والے ادارے ’ڈیٹا دربار‘ کے شریک بانی مطاہر خان کے مطابق موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے قرض دینے کا آغاز کینیا سے ہوا۔ پھر یہ عمل بھارت میں مقبول ہوا۔ اس کے ساتھ یہ امریکہ اور برطانیہ وغیرہ میں بھی شروع ہوا مگر قوانین سخت ہونے کے باعث وہاں زیادہ لوگ اس کے شکار نہیں بنے
محکمہ داخلہ پنجاب کے انٹیلیجنس سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ایپلیکیشنز صارفین سے ماہانہ بنیادوں پر 40 سے 80 فیصد تک سود وصول کرتی ہیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قرض دیتے وقت زیادہ تر معلومات صارفین سے چھپا لی جاتی ہیں اور قرض مقررہ وقت میں واپس نہ کرنے پر مختلف ریکوری ایجنٹس کے ذریعے کالز کروا کے مقروض شخص کو ہراساں کیا جاتا ہے
درخواست دینے والے سے اس کا شناختی کارڈ، تصاویر اور 2 قریبی رشتہ داروں کا ریفرنس لیا جاتا ہے۔ موبائل میں موجود تصاویر، ویڈیوز اور رابطہ نمبر تک ان ایپلیکیشنز کی رسائی میں ہوتے ہیں۔ جن کی بنیاد پر تنگ کیا جاتا ہے اور سود کی مد میں بڑی رقم وصول کی جاتی ہے
اس وقت پاکستان میں قرض فراہم کرنے کے لیے متعدد ایپلیکیشنز موجود ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ’ڈیٹا دربار‘ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ 90 لاکھ سے زائد صارفین نے انہیں ڈاؤن لوڈ کر رکھا ہے
محکمہ داخلہ پنجاب کی رپورٹ کے مطابق پہلی 10 ایپلیکیشنز کو ڈاؤن لوڈ کرنے والے صارفین کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے
مطاہر خان کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ ڈاؤن لوڈ کرنے والے تمام ہی صارفین نے قرض کی درخواست دی ہے اور انہوں نے قرض بھی لیا ہو۔ چند ایک ایپلیکیشنز ہی رجسٹرڈ ہیں اور ان میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
سوشل میڈیا کمپنیاں ایسے اشتہارات کو روکتی کیوں نہیں؟
اشتہارات سے زیادہ اس معاملے میں ذمہ داری گوگل کی ہے جو بطور ریگولیٹر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ان ایپلیکیشنز کو پلےاسٹور پر رہنا ہے یا نہیں
مطاہر خان کہتے ہیں کہ امریکہ میں اوسطاً 36 فیصد سے زیادہ والی قرضہ ایپلیکیشنز کو پلے سٹور سے ہٹا دیا جاتا ہے جب کہ پاکستان میں اس حوالے سے ابھی تک کوئی پالیسی نہیں ہے۔ یہاں یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ یہ کمپنیاں مقامی قوانین سے مطابقت بھی رکھتی ہیں یا نہیں
سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان کے ترجمان کے مطابق قرض دینے کے لیے نان بینکنگ فنانشل سروسز کے تحت کمپنی رجسٹرڈ کروانا ہوتی ہے
سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے ان ایپس پر اپنا مؤقف دیا تھا کہ ڈجٹیل قرض دینے والی کچھ ایپس نان بینکنگ کمپنیوں سے منسلک ہیں اور انہیں ایس ای سی پی کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور باقاعدہ اس سلسلے میں انہیں لائسنس دیا جاتا ہے یا انہیں اسٹیٹ بینک لائسنس دیتا ہے۔ ’تاہم بہت ساری ایسی ایپس بغیر لائسنس کے کام کر رہی ہیں جو غیر قانونی ہیں کیونکہ قرضہ دینا ایک لائنسس یافتہ عمل ہے اور پاکستان کا قانون کسی کو نجی طور پر قرضے دینے کی ممانعت کرتا ہے۔‘
ایس ای سی پی کے مطابق اس کی جانب سے لون شارک کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور قرض لینے والوں کو بار بار بتایا جاتا ہے کہ قرض لینے سے پہلے تمام شرائط کا بغور مطالعہ کر لیں، جس میں قرض پر سود، سروس چارجز، تاخیر سے قرض کی ادائیگی پر جرمانے وغیرہ شامل ہیں
ترجمان ایس ای سی پی کے مطابق رجسٹرڈ کمپنیوں میں کچھ کمپنیاں دکانداروں اور گھر بیٹھے خریداری کے عمل میں سہولت پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ جب کہ باقی کمپنیاں عوام کو فوری قرض دے رہی ہیں
ترجمان کے مطابق ایس ای سی پی ایسے اقدامات اٹھا رہا ہے جن سے ایسی ایپس کا خاتمہ ہو سکے جو لوگوں کو سہولت دینے کی بجائے ان کو دھوکہ دیتی ہیں
تاہم اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بڑی آگاہی مہم نہیں چلائی گئی، جس میں لوگوں کو غیرقانونی اور دھوکہ دینے والے قرض ایپس کے بارے میں بتایا جا سکے۔
پرسنل لون: عام لوگ کیسے ڈجیٹل قرضوں کے پھندے میں پھنستے ہیں؟