سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط26)

شہزاد احمد حمید

بہار کا موسم ہے اور اس کے رنگ درختوں اور ماحول پر بھی بکھرے ہیں۔ یہ پھل چننے کے دن ہیں۔ میں آبشار کے قریب جا بیٹھا ہوں۔ بہتے پانی کی جھاگ سے اٹھنے والے پانی کے قطرے میرے چہرے کو بھگو رہے ہیں۔ آبشار کا پانی نیچے تالاب کی صورت جمع ہو کر موجیں مارتا پل کے نیچے سے بہہ کر سندھو میں اتر رہا ہے۔ مجھ سے کچھ دور اس گاؤں کی جوان اور بڑی عمر کی عورتیں کپڑے دھو رہی ہیں، کچھ پانی بھر رہی ہیں اور کچھ گیلے بالوں میں کنگھا پھیر رہی ہیں۔کچھ قہقہے فضاء میں بکھیر رہی ہیں بالکل اسی طرح جیسے اس آبشار کا نغمہ اس خاموشی میں دور تک سنائی دیتا ہے۔ ان سب سے ذرا ہٹ کر ایک سانولی سی لڑکی منہ میں انگلی دبائے ہنس رہی ہے۔

گرماگرم چائے کے پیالے نے ہم کو پھر سے تازہ دم کر دیا ہے۔ جیپ پھر سے چل پڑی ہے۔ ہوا اتنی ٹھنڈی ہے کہ تلوار کی دھار کی طرح تیزی سے جسم کے آر پار ہو رہی ہے۔ تا حدِ نظر پھیلا آسمان، کھلی فضاء، تازہ ہوا، آکاش کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لئے اس سے بہتر جگہ نہیں ہو سکتی۔ہمارے سامنے ایک اور وادی ابھر رہی ہے، حسن و رعنائی سے بھری۔۔ مجھے لگا یہاں فضاء بھی گیت گا رہی ہے، جھرنے گنگنا رہے ہیں اور پھولوں کی مہک ہوا کے دوش پر لہرا رہی ہے۔۔ ’روندو وادی“ جنگجو، بہادر، جوانمرد، روندو قبائل کی سرزمین۔ یہاں بسنے والے نرم مزاج، سادہ، محنتی ہیں۔ برف پوش سلسلے میں واقع اس وادی میں سوائے موسم گرما کے 4 ماہ (مئی، جون، جولائی، اگست) کے شدید سردی رہتی ہے۔ ایک تند و تیز پہاڑی چشمہ راہ چلتے لوگوں کی نظر سے نظر ملاتا دور نیچے سندھو میں گرتا ہے۔ یہاں قدرت کی فیاضیاں اور پانی کی فراہمی افراط میں ہے۔ خود راہی یہاں عجیب سی کشش محسوس کرتے ہیں۔

ان پہاڑوں کے دامن میں اس قبیلے کے سینکڑوں گلے چرتے ہیں اور دور اوپر، جہاں پہاڑوں کی چوٹیوں کی برف پگھلتی دکھائی دیتی ہے، گلے ہی گلے نظر آتے ہیں۔ بوڑھے جوان چرواہے ان گلوں کی پاسبانی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو قصے کہانیاں سناتے اور رات کو کسی درخت کی کھو یا عارضی جھونپڑی میں الاؤ کے گرد آنکھیں موندے لیٹ کر خود کو جاڑے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ وادی خاص طور پر یاک کے لئے بہت اچھی ہے جبکہ انسانوں کے لئے تو فردوسِ برین ہے۔

داستا ن گو بتانے لگا، ”صبح پو پھٹتے ہی چاہے مطلع صاف ہو اور شفق پھوٹ رہی ہو، چاہے بارش برس رہی ہو اور فضاء تاریک ہو، یہ چرواہے صبح سویرے ہی اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ ان چرواہوں کی سب سے مشہور پہیلی ”وہ کیا چیز ہے، جو پہاڑی چوٹیوں کو ڈھانپ لیتی ہے اور غائب ہو کر پہاڑوں کی وادیوں میں جا پہنچتی ہے اور انسانوں اور جانوروں کو خوراک فراہم کرتی ہے۔“ ہر پہیلی کا جواب ”برف“ ہے، جو پگھل کر چشموں کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ آبشار کی موجیں رقص کرتی نغمہ زن نیچے کو گرتی ہیں۔ پانی کی چادر سورج کی شوخ کرنوں سے کھیلتی ہے تو طرح طرح کے پھوٹتے رنگ آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں اور دیکھنے والا عجب سرور سے دو چار ہونے لگتا ہے۔ سبحان تیری قدرت۔۔

”بعض مقامات پر پگھلتی برف سے پھوٹتے تندوتیز چشموں کے قریب ہی چٹانوں کے پیچھے پہاڑوں میں بڑے بڑے سوراخ نظر آتے ہیں۔ یہ دور سے قدرتی معلوم ہوتے ہیں لیکن پاس جا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ تراش کر بنائے گئے ہیں اور ان کے فرش جل کر کالے ہو چکے ہیں، دراصل چرواہے رات بسر کرنے کے لئے ”الاؤ“ جلاتے ہیں۔ مدتوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ پس منظر میں سیاہی مائل پہاڑی چوٹیاں آسمانی فضاء میں تیرتے ہوئے بادلوں کے نیچے ایک قدرتی حصار بناتی نظر آتی ہیں۔“

جیپ اترائی چڑھائی چڑھتی پہاڑوں کے گرد بل کھاتی ڈمبوداس کو دوڑی چلی جا رہی ہے۔ سندھو کے کنارے ایک بڑی بستی، جس سے ایک پرانی یاد بھی وابستہ ہے، جب کئی سال پہلے یہاں سے گزرتے ہوئے جیپ کی فین بیلٹ ٹوٹی تھی اور ہم آدھے مکینک بن گئے تھے۔ ڈمبو داس گاؤں سندھو کے دوسرے کنارے پہاڑوں کے دامن میں آباد ہے جبکہ لبِ سڑک تو ڈمبو داس واسیوں کا کاروبار ہے۔ ڈمبو داس نالے سے پیدا کی جانے والی پن بجلی اس گاؤں کی بجلی کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ باس بتانے لگا؛ ”ایک جاپانی رپورٹ کے مطابق پاکستانی چاہیں تو شمالی علاقہ جات سے ہی تقریباً پچیس ہزار (25000) میگا واٹ تک پن بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔“ بھئی اس میں سوال چاہنے کا ہے۔ ارباب اختیار کیوں چاہیں گے۔ اُن کی اپنی مجبوریاں ہیں، اپنے مفادات ہیں۔ ان کے اپنے مہنگے بجلی گھر ہیں، جن سے ہونے والا منافع راتوں رات ان کی امارت میں کئی گنا اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے اور کوئی ان کو روکنے والا نہیں، ٹوکنے والا نہیں۔

مجھے سندھو کی سر گوشی سنائی دی، ”یہ سڑک، جس پر تم چلے جا رہے ہو، اس خطے میں انقلاب لے آئی ہے۔ سامانِ رسد، سامانِ تجارت، انسانی نقل و حمل آسان ہو گئی ہے۔“

دو چڑھائیوں کے بعد ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے ہیں۔ ہمارے اوپر نیلا آسمان ہے یا ہم تک پہنچتی سنہری تیز دھوپ۔ سندھو کافی گہرائی میں بہہ رہا ہے۔ چٹیل پہاڑ مٹیالے رنگ کے ہیں۔ ٹھنڈی ہوا اور شفاف فضا انسان کو بھرپور توانائی دے رہی ہے بلا معاوضہ۔۔

ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہم استک تھے، پھر ڈمبو داس آیا اور اب شنگش سے گزر رہے ہیں۔ سر سبز بستی سندھو کے دوسرے کنارے ہے۔ لبِ سڑک کاروبار حیات کی جہدوجہد ہے یا حاجی کا ہوٹل، جس کی دال لوبیہ منہ سے نہیں اترتی۔جیپ میں بیٹھے مسافر راستے کی سنگینی سے ڈرے بیٹھے ہیں۔ آواز ہے تو صرف میرے دوست کی یا جیپ میں چلتے ٹیپ ریکارڈر کی۔ جو کبھی رفیع، کبھی ہمنت کمار کے گیت سنا رہا ہے تو کبھی شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی آواز کانوں میں رس گھولنے لگتی ہے

دوپہر بیت چلی ہے۔ سامنے ہراموش وادی ہے۔ پراسرار، خاموش، ڈراؤنی۔ یہاں زمین میں گڑے چھوٹے بڑے پتھر، ایسا لگتا ہے کسی نے کیک میں کشمش اور مونگ پھلی گاڑ دی ہو۔ اس وادی سے گزرتے ایک عجیب سا خوف دل پہ طاری ہوتا ہے۔ پہاڑ اور سندھو دونوں ہی اس گزرگاہ سے دور ہیں۔ ہراموش وادی کبھی سندھو کے غصے کی نذر ہوتی تھی۔ ایسی زور دار باڑ آئی تھی کہ ہر طرف تباہی تھی یا سسکتی دم توڑتی زندگی۔ سندھو نے پہلی بار اس خطے پر اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔

مجھے پھر جانی پہچانی سی آواز سنائی دی، ”میں ہراموش وادی سے جنوب کی جانب گھوم جاؤں گا اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ بہتا جگلوٹ پہنچوں گا مگر تم سیدھے سفر کرتے عالم گڑھ برج سے دریائے گلگت عبور کر کے جگلوٹ کی جانب گھوم جانا۔ ہراموش دراصل قراقرم سلسلہ کا ذیلی سلسلہ ہے، جس کی بلند ترین چوٹی ”ہرا موش“ سات ہزار چار سو نو(7409) میٹر بلند گلگت سے چالیس(40) میل دور ہے۔ دریائے گلگت پر بنے پل سے تقریباً سات (7) کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم دریائے گلگت بھی مجھ میں گرتا ہے اور یہیں میرے جنوبی کنارے ہرا موش چوٹی انتہائی بلندی پر کھڑی تمہارے دوست کو جیسے سلام پیش کرتی ہے۔ وہیں تمہارا انتظار کروں گا۔ جیپ دھیان سے چلانا راستے میں بڑے خطرناک جمپ اور موڑ ہیں۔ اس راستے کی ویرانی اور پتھروں سے بھری زمین سے گھبرانا مت، اس علاقے کو کسی کی بددعا ہے۔ یہاں سے گزرنے والے ہر مسافر پر ایسی ہی اداسی سی طاری رہتی ہے۔“

ہراموش پر تراشی گئی نئی سڑک اور دریائے گلگت پر تعمیر کردہ نیا پل جدید سائنسی دور کے شہکار ہیں۔ گاڑی فراٹے بھرتی اڑی چلی جاتی ہے۔ دورِ جدید کی ان سہولیات سے سفر کے دورانیہ میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔

شاہراہِ ریشم پر ’سازلی‘ وہ مقام ہے، جہاں سڑک عالم گڑھ برج کی جانب گھومتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک سکردو جاتا یہ راستہ خطرناک موڑوں اور مشکل اترائیوں چڑھایوں پر مشتمل تھا۔ بعض جگہوں پر تو چڑھائی کا زاویہ چالیس (40) ڈگری بنتا تھا لیکن سی پیک کے آنے سے اس سڑک کو کارپٹ کر کے چوڑا کر دیا گیا ہے۔ سکردو سے آتی سڑک جب شاہراہ ریشم پر ملتی ہے تو سامنے ہندو کش کے پہاڑی سلسلے اور پامیر کی بلند سطح مرتفع سے ٹکراتی ہے۔ سکردو سے شاہراہِ ریشم تک کا سفر پہاڑوں کے جاہ و جلال اور سندھو کے جوش اور طلاطم کے سنگ ہے۔ سندھو کبھی سڑک کے متوازی ہے اور کبھی سینکڑوں فٹ گہرائی میں بہتا ہے۔ یہاں تک پہنچنے میں 3 گھنٹوں سے کم وقت لگتا ہے۔ (ماضی میں اس سفر کو طے کرنے میں عام ڈرائیور کو 5سے 6 گھنٹے لگتے تھے) یہ انتہائی خطرناک سفر محتاط ڈرائیونگ کا متقاضی ہے۔

’دی ٹرائبس آف ہندوکش‘ The Tribes Of Hindukush کا مصنف کرنل جان بڈلپ (John Biddulph) (وہ 1877 ء تا 1881ء گلگت تعینات رہا)، لکھتا ہے: ”قدیم دور میں سڑک کی تعمیر سے پہلے ایک پیدل راستہ عمودی چٹانوں میں مکڑی کے جال کی طرح پھیلی غلام گردشوں سے گزرتا تھا، جس میں جا بہ جا تنگ سیڑھیاں تھیں۔ نیچے نظر پڑے تو وجود کانپ جائے کہ دریا سینکڑوں فٹ گہرائی میں جھاگ اڑاتا شور مچاتا بہتا ہے۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی سڑک بعض مقامات پر دریا کے متوازی اور بعض مقامات پر سینکڑوں فٹ بلند ہے۔ چڑھائی کا عمومی زاویہ 30 سے 50 ڈگری کے درمیان ہے۔ یہ راستہ مسافر اور خچر بان دونوں کا امتحان ہے اور انسانی اعصاب (نروز) کا ٹیسٹ بھی۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close