”چلاسی عورت بہت محنتی ہے، سارا دن کام کرتی ہے۔ مجال ہے کسی کے جسم پر ذرا سا بھی موٹاپا نظر آئے۔پیدل سفر، دن بھر کی مشقت، سادہ غذا سبھی موٹاپے کے دشمن ہیں۔ یہاں کی عورت صبح سویرے اٹھتی ہے۔ دودھ دوھنے سے لے کر لسی بنانے اور مکھن نکالنے تک، ناشتے سے رات کے کھانے تک، اس کو کوئی فراغت نہیں۔ مرد ان کے مقابلے میں کم کام کرتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ مشاغل میں گپ لگانا، شکار کھیلنا یا شادیاں رچانا ہے۔ شاید ہی کوئی مرد ہوگا، جس کی ایک سے زیادہ شادی نہ ہو۔ خاندان بڑے ہیں اوسطاً فی گھر بچوں کی تعداد سات/آٹھ ہے۔ جو کی روٹی اور چاٹی کی لسی ان کی پسندیدہ غذا ہے۔ مقامی لوگ مار خور کے شکار کے ماہر ہیں۔ اکثریت لکڑی کے کاروبار سے منسلک ہے۔ طبی سہولیات کا فقدان اور ڈاکٹر کم ہیں۔ زیادہ تر علاج مقامی جڑی بوٹیوں سے ہی ہوتا ہے۔ تعویذ گنڈے بھی چلتے ہیں۔ ہم کمزور عقیدہ لوگ ہیں، جلد ہی فقیروں اور بہروپیوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔“ میرا دوست خاموش ہوا تو شیر عالم نے کہا، ”شہزاد بھائی! رات کا کھانا چن دیا گیا ہے۔“
صبح جلدی چلاس چھوڑ دیں گے۔ آسمان کے ساگر میں رات کی ناؤ سبک رفتاری سے صبح کی اور بڑھ رہی ہے۔ شیر عالم شب خیر کہہ کر اپنے بچوں کے پاس چلا گیا ہے۔
میں صبح جلدی جاگ گیا ہوں۔ مشرق سے صبح کاذب کا اجالا پھوٹ رہا ہے۔ میں خواب گاہ سے باہر چلا آیا ہوں۔ دور کالے پہاڑوں پر صبح کا رنگ چڑھتے دیکھ رہا ہوں۔ سحر انگیز اور دلکش سماں۔ ہر جانے والا منظر نیا منظر چھوڑ ے جا رہا ہے۔ ٹھنڈی ہوا اور صبح کی تازگی کنوارا پن لئے ہے۔ آسمان نیلا ہے، صرف نیلا۔۔ صبح کے آثار بتا رہے ہیں کہ آج سورج خوب چمکے گا۔
مجھے باس کی پیار بھری آواز سنائی دی، ”کہاں ہو۔“ میرے کہنے پر وہ بھی باہر چلے آئے ہیں۔ وہ میرے دوست ہی نہیں دم ساز بھی ہیں۔ باس سے میر ا دھائیوں پرانا تعلق ہے۔ وہ بڑے بھائی، دوست اور استاد بھی ہیں اور مجھے یہ تینوں رشتے ہی بہت عزیز ہیں۔ پر تکلف ناشتے سے فارغ ہوئے، شیر عالم کو خدا حافظ کہا،پھر سے شاہراہ ریشم پر چلے آئے ہیں۔
نیا سورج اس بات کی یاد دہانی ہے کہ نیا دن گزرے کل سے اچھا ہوگا۔ انشا اللہ۔ سندھو کا پانی بھی صبح کی طرح تازہ ہے۔ جیپ کی رفتار میں چلاس پیچھے رہ گیا۔ سڑک سیدھی اور موڑ کم ہیں۔ جیپ فراٹے بھر رہی ہے۔
”یہ سازین ہے۔ دیار، پڑتل اور چیڑ (سبھی گلگت بلتستان میں پائی جانے والی مختلف قیمتی لکڑی کے نام ہیں۔) کی لکڑی کی بڑی منڈی۔ ایسے ہی ایک منڈی ’دارین‘ کے مقام پر بھی ہے۔ یہ قیمتی لکڑی میرے پانی میں بہا کر یہاں لائی جاتی ہے۔“ سندھو اپنی کہانی آگے بڑھا رہا ہے۔”دیکھا تم نے! میں لوگوں کے کیا کیا کام انجام دیتا ہوں۔ میرے پانی سے اس قیمتی لکڑی کو سیزن کر کے ملک بھر کی منڈیوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ لکڑی چوروں نے میرے جنگل کاٹ دئیے ہیں۔ میرے پہاڑ ننگے کر دئیے ہیں اور میرا حسن ماند کر دیا ہے۔ سوچا جائے تو انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا ہے۔ درخت کاٹ کر اپنی ہی فضاء کو آلودہ کر رہے ہیں اور ماحول کو گرم۔۔ تم جانتے ہو درخت پہاڑ کی گرفت مضبوط کرتے ہیں۔ سلائیڈنگ روکتے ہیں۔ موسم ٹھنڈا اور ماحول کو آلودگی سے بچاتے ہیں۔ میرے جنگل کاٹ کر یہ نادان لوگ اپنا نقصان ہی تو کر رہے ہیں۔ نئے درخت بھی نہیں لگاتے۔ لکڑی کی اسمگلنگ اب بڑا کاروبار بن گیا ہے۔ وہ دیکھو مزدور دور جنگل سے لکڑی کاٹ کر میرے سپرد کر رہے ہیں۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر ’تنگر‘ بھی لکڑی کی بڑی مارکیٹ ہے۔ اس خوبصورت وادی کو راستہ تنگر نالے کے ساتھ ساتھ جاتا ہے۔ کبھی ان وادیوں میں بھی اترنا تم۔“
چلاس سے کچھ فاصلے سے ہی داسو ڈیم کی سائیٹ شروع ہو جاتی ہے اور یہیں سے ہی شاہراہ ریشم، جو اب سے پیک روٹ بھی کہلاتی ہے، کی نئے سرے سے الائنمنٹ کی گئی ہے کہ پرانی شاہراہ ڈیم کی جھیل میں ڈوب جائے گی۔ نئی شاہراہ پہاڑوں کی اونچائی کو چھوتی ان ہیبت ناک پہاڑوں کو چیرتی سندھو سے اپنا دہائیوں پرانا رشتہ توڑتی نئے پہاڑوں سے رشتہ جوڑتی گزرتی ہے۔ البتہ پہاڑوں کی اس بلندی سے ڈیم سائیٹ اور تعمیر ہونے والی جھیل کا نظارہ یقیناً دلکش ہو گا۔ داسو سے کچھ پہلے یہ سڑک پھر سے پرانی شاہراہ سے آن ملتی ہے اور باقی سفر پرانی شاہراہ کے سنگ ہی طے ہوتا ہے۔ نئی شاہراہ کی تراش خراش انسانی عقل اور جدید مشینری کا عمدہ امتزاج اور انسانی محنت، قربانی اور پسینہ کی غضب کہانی ہے۔
”ہم شمالی علاقہ جات کی حدود سے باہر نکلنے والے ہیں۔تھوڑے فاصلہ کے بعد خیبر پختون خوا کا ضلع کوہستان شروع ہونے والا ہے۔ ڈر اور وحشت کی سر زمین۔ اب پہاڑ کم اور انسان زیادہ ڈرائیں گے اپنے رویوں سے اپنے بہروپ سے۔ یہ سخت گیر، جنونی لوگوں کی سر زمین ہے۔ کوہستانی وہی مانتے ہیں جسے وہ درست مانتے ہیں۔ نہ لڑکی ذات کی تعلیم کے حق میں نہ موسیقی سننے کے۔ یہ بے بس ہیں تو صرف سندھو کے جلترنگ کے سامنے اور ڈرتے بھی اسی سے ہیں، مگر اس کا بگاڑ کچھ نہیں سکتے۔ کام کاج سے فارغ۔۔ ممنوعہ کام بھی نہیں چھوڑنے۔ ان کی آنکھوں سے وحشت ٹپکتی ہے، نہ جانے کب کس بات پر بگڑ جائیں اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔ تم محتاط رہنا۔ نین بھی سر چادر سے ڈھانپ لے۔“ داستان گو بات جاری رکھے ہے
”کوہستانی عورت کے بارے بھی سن لو۔ کوہستانی عورت کمال ہے۔ انتہائی پردہ اور گھر دار۔ نماز روزے کی پابند اور شوہر کو مجازی خدا ماننے والی۔ خاوند کو جواب دینا اُن کے نزدیک گناہ ہے۔“ سندھو یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔ باس بولے، ”مجھے یہاں کے لوگوں کی خوش قسمتی پر رشک آتا ہے، ورنہ آج کی عورت کہاں کسی مرد کو اپنے سامنے بولنے دیتی ہے۔ کیوں نین جی کیا خیال ہے۔“ نین کی گھوری کمال ہے
میں جب بھی یہاں سے گزرا ہوں سر پر ٹوپی پہن لیتا ہوں۔ (نہ جانے ہم بہروپ کو کیوں پسند کرتے ہیں؟) اس بار پہلے سے بھی زیادہ محتاط ہیں۔ علاج سے پرہیز بہتر ہے۔ جیپ کے ٹیپ ریکارڈر پر قرآن کی تلاوت لگی ہے۔
مجھے اپنے ہمسفر، اپنے داستان گو سندھوکی آواز سنائی دی، ”دوست، تم لوگ دوغلے پن کے کتنے قدر دان ہو اور سچ سننے کو تیار نہیں۔ سبھی پارسائی اور زاہدیت کا لبادے اوڑھے ہیں۔ دوغلے پن کی انتہار ہے یار۔“ باس بول پڑے، ”تم ٹھیک کہتے ہو، ہم جو کہتے ہیں کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں وہ کہتے نہیں۔ دوغلے لوگ، دوہرا معیار۔ تم ’کرسٹینا لیمب‘ کی کتاب waiting for Allah پڑھ لو تو تم دوہرے معیار کا خوب اندازہ لگا لوگے۔“
”سامنے جھاگ اڑاتا پانی ’سمر نالہ‘ کا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی کی برف سے پھوٹتی صاف پانی کی یہ ندی شاہراہ ریشم پر سفر کرنے والوں کا دل بہلاتی مجھ میں اترتی ہے۔ راستے میں کچھ چشمے بھی میرے ہمراہی بنتے میری رفتار اور شور دونوں ہی بڑھا دیتے ہیں۔پچھلے چند برسوں سے یہ جگہ شاہراہ ریشم سے گزرنے والوں کے لئے سستانے کا قابل ذکر مقام بن چکی ہے۔ ڈرائیور یہاں اپنی گاڑیوں کے انجن ٹھنڈے کرتے ہیں اور مسافر ڈھابہ ہوٹلوں سے پیٹ کی آگ سستے داموں دستیاب تندور کی گرم روٹی، لوبیا/ماش کی دال، سرکہ ملا سلاد اور کڑک چائے سے بجھاتے ہیں۔ ہاں تمھیں تو کڑک چائے کے ساتھ گرما گرم تندوری روٹی بہت پسند ہے نا؟“ میں نے ہاں میں سر ہلایا، ”ہاں اس کا کمال مزا ہے۔“
اگر آپ کا کبھی ان علاقوں میں جانے کا اتفاق ہو تو ضرور ٹرائی کرنا یارو۔ مزا نہ آیا تو پیسے واپس۔۔ میں تو جناب گرم تندوری روٹی دال ماش اور ہری مرچوں کے ساتھ کھاؤں گا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔