کراچی میں قدیم ہندو مندر کا انہدام، اصل معاملہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

سوشل میڈیا پر ایک وڈیو اس تحریر کے ساتھ شیئر کی گئی کہ ’ڈیڑھ سو سال پرانا ہندو مندر گرا دیا گیا ہے‘ وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رات کے وقت زمین پر بھاری مشینوں سے ڈرلنگ کی جارہی ہے، جب کہ دونوں طرف اونچی عمارتیں ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ وڈیو ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ گروپس پر شیئر ہونے لگی۔

اگلی غبح سرکاری افسران اور میڈیا کے لوگ صبح ہی اس مقام پر یہ تسلی کرنے پہنچے کہ اس معاملے میں کوئی اسلامی تنظیم یا مسلمان شخص تو ملوث نہیں ہے۔ تب معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ ہندو برادری کا آپس کے تنازعے کی وجہ سے ہو رہا ہے

خود کو سوریاونشی راجپوت متعارف کراتے ہوئے پینتالیس سالہ ریکھا کا دعویٰ ہے کہ وہ ماری ماتا مندر کی چوتھی نسل کی متولی ہیں۔ ان کے مطابق ان کے آباؤ اجداد گزشتہ ڈیڑھ سالوں سے اس مندر کی دیکھ بھال کر رہے ہیں

بتایا جاتا ہے کہ تنازع اس وقت شروع ہوا، جب ریکھا نے مندر کے احاطے میں تعمیراتی کام شروع کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مندر ان کی ملکیت ہے اور اس کا کسی پنچایت یا ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے مطابق یہ ان کا مندر ہے اور یہاں ان کی اپنی مرضی چلے گی

ریکھا کا کہنا ہے ”اگر مندر ڈیڑھ سو سے دو سو سال پرانا ہے تو اسے بھوت نہیں چلا سکتے، وہ انسان ہیں۔ اور وہ کسی مدراسی ٹرسٹ یا کسی دوسرے خاندان سے نہیں ہو سکتے

ریکھا کے رویے میں ان لوگوں کے خلاف غصہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جنھوں نے اس کی تعمیر پر اعتراض اٹھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ان لوگوں کو ہندو نہیں مانتی ہیں

اس مندر کی تعمیر پر صرف ہندو برادری کے لوگوں نے اعتراض کیا ہے۔ اعتراض اٹھانے والے لوگوں کو شرارتی عناصر بتاتے ہوئے ریکھا اسے مندر کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش قرار دیتی ہوئے کہتی ہیں ”دراصل وہ مندر کے بہانے میرے گھر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اکیلی عورت ہوں اور میں ان کا سامنا کیسے کروں گی“

واضح رہے کہ ماری ماتا کا مندر کراچی کے علاقے سولجر بازار کے 500 مربع فٹ رقبے پر واقع ہے، جہاں زمین کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں

مندر کے احاطے کی دیوار کے باہر ایک کرسی پر بیٹھی سپاری چباتی ریکھا نے مندر کا لوہے کا دروازہ کھولا اور وہاں پہنچنے والے میڈیا کے نمائندوں کو اندر کا منظر دکھایا۔ اس پلاٹ پر بنائے گئے ایک چھوٹے سے کمرے میں مورتیاں رکھی گئی تھیں جبکہ دیگر چیزوں کو دوسرے کمروں میں صوفے پر رکھا گیا تھا

ریکھا کے مطابق، پہلے مندر ایک چھوٹے سے کمرے میں تھا جسے انھوں نے بڑا کیا، ماربل کی ٹائلیں لگائیں اور اس کی مرمت کروائی

اس کے بعد وہ نمائندوں کو تعمیراتی جگہ پر لے گئیں جو ہر طرف سے بند تھی۔ اس کی ایک طرف دیوار تھی جبکہ دو طرف اونچی عمارتیں اور چوتھی جگہ پر سبز رنگ کا بڑا پردہ لٹکا ہوا تھا۔

اس کی اجازت کے بغیر کسی کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ اس پر نظر رکھتی ہیں

وہ سبز پردہ ہٹا کر وہ نمائندوں کو اندر لے گئیں۔ زمین کے اس ٹکڑے پر ایک گہرا گڑھا تھا۔ مندر کے کمرے کی وہی دیوار جو انھوں نے دکھائی تھی، وہ گڑھے سے چند میٹر کے فاصلے پر تھی

ریکھا نے بتایا کہ یہاں چھ سے سات کمرے اور واش روم تھے، یہاں آٹھ خاندان رہتے تھے، جن کے بیالیس ارکان تھے۔ یہ مندر ہمارے آباؤ اجداد کا ہے۔ ہم نے یہاں کبھی کوئی مدراسی برادری کا فرد نہیں دیکھا۔ اس کے یہاں آنے کی وجہ اب یہ ہے کہ اس جگہ سونے کا ایک ٹکڑا ہے۔

دوسری جانب ریکھا کے مخالفین نے ان پر اسلام قبول کرنے کا الزام لگایا ہے، جس کی وہ تردید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو دکھائے

ماری ماتا مندر وسطی کراچی میں واقع ہے۔ سولجر بازار کہلانے والے اس گنجان آباد علاقے میں جائیداد کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ اس مندر کے آس پاس مدراسی اور گجراتی برادریاں رہتی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ مندر ان کی ملکیت ہے۔ اس نے یہ جائیداد ریکھا کے آباؤ اجداد کو بطور سرپرست دی تھی

شاردا دیوی کہتی ہیں کہ یہ مندر مدراسی برادری کا ہے، یہ انہیں دیا گیا تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ان کا ہے، یہ انہیں اس کی دیکھ بھال کے لیے دیا گیا تھا

شاردا دیوی نے بتایا ”عمارت بنائی گئی تھی اور مندر چھوٹا تھا۔ جعلی دستاویزات تیار کی گئیں۔ ہم یہاں ہر اتوار کو پوجا کرتے تھے لیکن اب انہوں نے اسے تالا لگا دیا ہے“

مندر کی گلی میں وارڈ بوائے کی یونیفارم میں ملبوس کھڑے کراچی کے سرکاری ہسپتال میں وارڈ بوائے پرکاش کمار بتایا ”جب ہم نے اس مندر پر توڑ پھوڑ کی خبر سنی تو میں اپنے دوستوں کے ساتھ اس جگہ پہنچا اور ریکھا سے مندر کا دروازہ کھولنے کو کہا تا کہ ہم خود اپنے مندر کی حفاظت کر سکیں“

پرکاش نے بتایا ”مندر کو نالے پر بنائے گئے آٹھ بائی چھ کمرے میں منتقل کر دیا گیا ہے اور انہوں نے عمارت بنانے کے لیے یہ زمین سات کروڑ روپے میں بیچ دی ہے۔“

ایک اور ناراض شخص ساگر کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد نے ’دیوی کا مقام‘ بنایا تھا۔

انھوں نے بتایا ”ان کا بت کسی سے پوچھے بغیر نالے پر رکھ دیا گیا تھا۔ یہ توہین مذہب ہے اور جو بھی اس کا ذمہ دار ہے اسے پاکستانی قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے“

واضح رہے کہ مندر کے انہدام کی خبر مقامی اخبارات میں شائع ہوئی اور یوٹیوبرز یہاں پہنچے تو انہوں نے اسے پاکستان کے خلاف بھارت کی ایک سازش قرار دیا

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے مندر کے احاطے میں تعمیراتی کام روک دیا ہے۔ کمیشن نے محکمہ اقلیتی امور اور کمشنر کراچی کو ہدایت کی ہے کہ معلوم کریں کہ مندر کس کی جائیداد ہے

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے رکن سکھ دیو ہیمنانی نے بی بی سی کو بتایا کہ چاہے وہ مدراسی ہندو پنچایت ہو یا ریکھا، دونوں ہی مندر کی ملکیت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے

وہ کہتے ہیں ’ہم نے سیکریٹری برائے اقلیتی امور اور کمشنر کراچی کو خط لکھا ہے اور ان سے تحقیقات کرنے کو کہا ہے۔ وہ معلوم کریں گے کہ آیا یہ پرائیویٹ پراپرٹی ہے یا کمیونٹی پراپرٹی تا کہ قانون کے تحت مناسب قدم اٹھایا جا سکے

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ کراچی کے ڈیڑھ سو سے زائد مندروں کا کیس اس وقت ملک کی سپریم کورٹ کے سامنے زیر التوا ہے۔ یہ وہ مندر ہیں جن پر تقسیم کے بعد عمارتیں بنی تھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close