”ہندو بنیاد پرست اور برطانوی دائیں بازو کی تحریک اس خیال سے متفق ہے کہ آریائی مغربی سمت سے دریائے گنگا کے ذریعے روانہ ہوئے اور دنیا پر اپنی زبان کے بل بوتے پر ہی قابض ہوئے تھے۔ ان بنیاد پرست ہندوؤں کو جب بیسویں صدی میں بھارت پر حکمرانی کا موقع ملا تو انہوں نے ہندوستان کو اس کے قدیم نام بھارت سے پکارا نہ کہ انڈیا کہا، جس نسبت سے یہ خطہ دنیا بھر میں مشہور ہوا تھا۔
”ہندوؤں کی متبرک کتاب ریگ وید 1200 قبل مسیح میں کئی سال تک لکھی جاتی رہی اور جب یہ مکمل ہوئی تو کتابی شکل میں نہ تھی بلکہ سوامی اسے زبانی یاد کرتے اور یوں یہ نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔ یہ ان سوامیوں کا کام تھا جنہوں نے تین ہزار سے قبل اسے کتابی شکل دی۔ اس کتاب میں 1028 نظمیں اور دس ابواب ہیں۔ ان میں قدرت کے تذکرہ جیسے اگنی (آگ) ادیتی (صبح) ابدرا (گرج)، پانی، سمندر، سیلاب، بارش اور دریائے سندھ شامل ہیں۔ جب تک یہ کتابی شکل میں نہ آئی اس کے یاد کرنے کا طریقہ بڑا جامع تھا, جس میں غلطی کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا۔
”سکندر تقریباً ایک سال برصغیر میں گھومتا رہا۔ دو سال بعد جب وہ اسکندریہ (مصر) پہنچا تو موت نے اُسے اُس وقت آن گھیرا، جب وہ عرب دنیا پر حملے کی تیاری کر رہا تھا۔ (اُس دور میں عرب بھی دیوتاؤں کے پجاری تھے لیکن وہ سکندر کو دیوتا ماننے سے انکاری تھے۔ ان پر حملہ کی منصوبہ بندی بھی شاید اسی وجہ سے کی گئی تھی)۔اُس کی موت کے حوالے سے بھی دو آراء ہیں؛ ایک یہ کہ وہ اس زہریلے تیر کے اثر سے مرا جو ہندوستان کی مہم کے دوران ملتان کے قریب اُسے لگا تھا۔ دوسری، ملیریا بخار۔
راستے کی سختیوں اور دریاؤں کے خوف نے سکندری سپاہ کی اکثریت کو بڑا بددل کر دیا تھا۔ یہی خوف ان کے پاؤں کی زنجیر بنا کہ انہوں نے اپنے وطن سے ہزاروں میل دور پیر سر سے ایک سو پچاس کلو میٹر (150) دور چترال کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا۔ آج ہم ان لوگوں کو ’کافر کیلاش‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ چترال سے جلال آباد تک پھیلی یہ ثقافت دور حاضر میں چترال کے تین دیہاتوں بمبوریت، برید اور ریمبور تک سمٹ چکی ہے۔ گوری رنگت کی کیلاشی خواتین کالے لباس میں ملبوس آج بھی مرنے والے کی یاد میں ناچتی، گاتی اور خوشی مناتی ہیں۔ یونہی ناچتے گاتے وہ میت کو باہر کھلے آسمان تلے چھوڑ آتی ہیں۔ (گو یہ رسم اب ختم ہو گئی ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے چترال کے پہاڑوں پر مخصوص مقامات پر مردوں کی ہڈیوں کو کھلے آسمان تلے بکھرے دیکھا ہے)۔
’چلم جوشی‘ کا تہوار جو خوشی سے منسلک ہے، آج بھی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں یہ تہوار دیکھنے ان وادیوں میں کھچے چلے آتے ہیں۔ تین ہزار سال قبل یہاں سے رخصت ہونے والے سکندر مقدونیہ کے دور کی یہی ثقافت چترالی سیاحت کی سب سے بڑی کشش ہے۔ گو یہاں لوگوں کی کثیر تعداد اب اسلام قبول کر چکی ہے مگر باقی بچے کیلاشی لوگوں کے حوالے سے یونانی حکومت اور چند دیگر یورپی ممالک اس کوشش میں ہیں کہ یونان کی اس قدیم ترین ثقافت کو بچایا جا سکے تاکہ دنیا سے خالی ہاتھ جانے والے آدھی دنیا کے فاتح سکندر کا دور کم از کم اس ثقافت کے حوالے سے زندہ رہ سکے۔ ان تین دیہاتوں کی ثقافت کا زندہ رکھنا دراصل تاریخ کے تین ہزار سال کے دور کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے۔ تین ہزار سال قبل واپس یونان لوٹنے والے اپنی ثقافت یہاں چھوڑ گئے اور اپنے ساتھ ہندوستان کے ہاتھیوں، سرسبز و شاداب زمین اور دریاؤں کی ایسی کہانیاں لے گئے کہ آنے والے وقت میں ہندوستان غیر ملکیوں کے لئے پر کشش جگہ اور سونے کی چڑیا بن گیا۔
”کیا تم جانتے ہو؟“ سندھو نے مجھ سے پوچھا، میں نے جواب دیا، ”کیا جاننا چاہتے ہو دوست؟“ وہ بتانے لگا، ”یہ دنیا کا واحد خطہ ہے، جہاں ’چار اعظم‘ یعنی بڑے بادشاہ، سائرس اعظم، سکندر اعظم، اشوک اعظم اور اکبر اعظم مختلف ادوار میں بادشاہ رہے۔چاروں یکتائے زمانہ تھے۔سکندر اعظم تو دنیا فتح کرنے نکلا تھا، وہ سائرس اعظم سے بھی بڑی حکومت بنانے کا خواہاں تھا۔ سکندر اعظم اٹھارہ (18) ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے آٹھ (8) سال میں یہاں پہنچا تھا۔ اس کے پاس نہ کوئی نقشہ تھا نہ راستے کی معلومات۔اس کا بھروسہ مقامی راہبر (گائیڈ) تھے یا اس کی قسمت تھی یا دنیا فتح کرنے کا جنون تھا یا شاید اُسے دیوتاؤں کا آشیر باد حاصل تھا۔ سائرس اعظم بڑا عادل تھا اور شاید دنیا کا پہلا بادشاہ تھا، جو مجھ (سندھو) سے بہت متاثر تھا، میرے بارے جاننا چاہتا تھا۔ اپنی اسی خواہش کے پیش نظر اُس نے اپنے جنرل ’سیلکس‘ (scylex) کو میرا ڈیلٹا تلاش کرنے کے لئے روانہ کیا تھا۔ وہ اٹک کے مقام سے چودہ (14) سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے بحیرہ عرب پہنچ کر جب تک اپنی رپورٹ سائرس کو پیش کرتا، سائرس اعظم مجھے اپنی سلطنت کا حصہ بنا چکا تھا۔ اشوک اعظم ایک لڑائی کے دوران اتنے بہنے والے خون اور مرنے والوں کی لاشیں دیکھ کر اس قدردل برداشتہ ہوا کہ اس نے بدھ مت اپنایا اور پھر یہ ہندوستان کا سب سے بڑا مذہب بنا۔ ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت پر اس نے بڑے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اکبر اعظم نے ہندوستان کے راجپوت قبائل کو ساتھ ملا کر ہندوستان کی تاریخ کی شاندار اور اعلیٰ حکومت قائم کی، جس میں امن تھا، خوشحالی تھی، ایسی خوشحالی کا وقت ہندوستان کی تاریخ میں کم کم ہی آیا ہے۔۔
”کبھی مگرمچھ بھی میرے پانی میں پائے جاتے تھے۔ میرے کنارے جنگلوں میں خونخوار درندے بھی تھے۔ یونانی مورخ ’ہیرا ڈس‘ نے پہلی بار دنیا کو بتایا تھا کہ ایتھوپیا اور ہندوستانی لوگوں کی جلد کالی ہے۔
”سکندر مقدونوی اٹھارہ (18) ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے 8 سال کی مدت میں یہاں پہنچا تھا۔ اُس کا سب سے طاقتور ہتھیار اس کی بے پناہ خود اعتمادی تھی۔ سکندر اعظم کی اس مہم جوئی کی داستان ہم تک اس کے دو دوستوں پو ٹالمی اور ارسٹوبلیس ptolemy & aristobulas کے ذریعے پہنچی جو اُس کے ہمراہی تھے۔ مزید برآں مشہور مورخ آریان بھی ساتھ تھا اور ہیراڈس بھی۔ پیر سر کے قریب آریان کی چٹان آورس (aorros) کہلاتی ہے جبکہ آریان اس جگہ کو ’برڈ لیس پلیس‘ (birdless place) کا نام دیتا ہے۔ (یعنی ایسی جگہ جہاں پرندہ بھی نہ ہو۔) واقعی یہاں کوئی پرندہ نظر نہیں آتا ہے۔ پہاڑ عمودی ہیں جن کو عبور کرنا جان جوکھوں کا کام ہے اور سکندر نے اپنی جان جوکھوں میں ہی ڈالی تھی۔ ان سب کے بقول سکندر اعظم نے منہ زور سندھو بڑی مشکل سے کشتیوں کا پل بنا کر عبور کیا تھا۔ یہ پل hephaestion’s نے تیار کیا جو اس کا دوست تھا۔ یوں اس نے بعد میں یہاں آنے والے مہم جوؤں اور حملہ آوروں کو دریا عبور کرنے کے جدید طریقے سے روشناس کروا دیا تھا۔ میری موجیں تیز، پانی ٹھنڈا اور اس کی تہہ میں پڑے گول پتھروں سے پھسلنے کا ڈر ہر وقت لگا رہتا ہے۔ میں (سندھو) نے ان کی بہادری اور حوصلے کا کڑا امتحان لیا تھا۔ پیر سر کے عمودی پہاڑوں کو اُس نے بڑی مشکل سے عبور کیا مگر مقامی قبائل کو بڑی آسانی سے شکست دی۔ میں حیران ہوں سکندر نے کس طرح خطرناک ’مالندری پاس‘ عبور کیا ہوگا۔“
”جس راستے پر سکندر نے سفر کیا اس کے گرد پوست (بھنگ) کی فصل بڑے رقبے پر کاشت ہوتی تھی، آج بھی ہوتی ہے لیکن کم رقبے پر۔ مقامی لوگ پوست سے بہت سی دیسی ادویات بناتے ہیں اور اس کانشہ بھی کرتے ہیں۔ اس کے غیر قانونی کاروبار سے بڑی بڑی رقوم بھی حاصل ہوتی ہیں۔ ان وادیوں میں زیادہ تر گوجر قوم آباد ہے، جن کے بارے خیال ہے کہ یہ دنیا کے ہر خطے میں آباد ہیں۔ (گوجر سے مراد ریوڑ چرانے والے ہیں۔) پیر سر فتح کر کے سکندر ’اوہند‘ پہنچا، جہاں اس نے یونانی رسم کے مطابق دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے جانوروں کی بَلی چڑھائی تھی۔ یونانی بھی انڈس ویلی میں آباد لوگوں کی طرح دریاؤں کے پجاری تھے۔ روایت کے مطابق سن بلوغت کو پہنچنے پر یونانی بچے کے بال کاٹ کر دریا میں بہاتے تاکہ بچہ زندگی میں آنے والی مشکلات کا مقابلہ جواں مردی سے کر سکے۔ اوہند اس دور کا اہم قصبہ اور تجارتی مقام تھا۔ مغلوں نے بھی یہاں قلعہ تعمیر کیا تھا۔ کل کا یہ اہم قصبہ ماضی کی عظمت و اہمیت کھو کر گمنام ہو چکا ہے۔ یہاں سے سکندر ’امبھی‘ پہنچا۔ (موجودہ ٹیکسلا۔) روایت کے مطابق ٹیکسلا کا قصبہ ’رام‘ کے بھائی ’تکش ولد بھارت‘ نے آباد کیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی۔ عظیم ویدک فلسفی ’چانکیا‘ بھی اسی یونیورسٹی سے منسلک رہا تھا۔ موریا دور حکومت میں تعلیم کے میدان میں یہ دنیا کا اہم مقام تھا۔ آج اس یونیورسٹی کے کھنڈرات کا شمار اقوام متحدہ کے ورلڈ ہیرٹیج world heritage عالمی ورثہ میں ہوتا ہے۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔