حال ہی میں سائنسدانوں کی جانب سے سولر پینل کے حوالے سے دو الگ الگ انقلابی پیش رفت سامنے آئی ہیں۔ نہ صرف سولر پینل کی کارکردگی بڑھانے کا راستہ دریافت کیا گیا ہے بلکہ اب سولر پینل بارش سے بھی بجلی پیدا کر سکیں گے
بارش سے بجلی بنانے والے سولر پینل
بارش میں آسمان پر تو بجلی چمکتی ہی ہے لیکن محققین نے اب بارش کے قطروں سے پیدا ہونے والی توانائی حاصل کر کے سولر پینل ٹیکنالوجی کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے
چین کی سنگھوا یونیورسٹی کی ٹیم کے تجویز کردہ طریقہ کار میں ٹرائیبو الیکٹرک نینو جنریٹر (ٹی ای این جی) نامی آلہ شامل ہے، جو مائع اور ٹھوس مادے کے درمیان اتصال سے بجلی پیدا کرتا ہے
یہ جنریٹر عام طور پر لہروں سے بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، کیوں کہ قبل ازیں برساتی پانی کی مدد سے بجلی بنانے والے ٹی ای این جیز (ڈی۔ٹی ای این جیز) تکنیکی خامیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر استعمال نہیں کیے جا سکتے تھے
محققین نے دریافت کیا ہے کہ شمسی پینلز کو استعمال میں لا کر اس طرح کی رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے
مذکورہ تحقیق کی قیادت کرنے والے پروفیسر زونگ لی کا کہنا ہے ”سولر پینلز کے ڈیزائن کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں بجلی کی فراہمی کے لیے شمسی توانائی پیدا کرنے والے متعدد یونٹ متوازی طور پر منسلک ہوتے ہیں، ہم بارش کے قطروں سے بجلی بنانے کا ایک آسان اور موثر طریقہ تجویز کر رہے ہیں“
پروفیسر زونگ کہتے ہیں ”ایک دوسرے سے جڑے سولر پینلوں کی زیادہ سے زیادہ بجلی بنانے کی صلاحیت بڑی سطح پر گرنے والے بارش کے قطروں کی مدد سے بجلی تیار کرنے کے مقابلے میں تقریباً پانچ گنا زیادہ ہے۔ اس تحقیق کے نتائج سے بڑی سطح پر گرنے والے بارش کے قطروں سے بجلی بنانے کا قابل عمل منصوبہ ملے گا“
یہ تحقیق، جس میں بجلی بنانے کے حوالے سے پیشرفت کی تفصیل دی گئی ہے، اسے ’بارش کے قطروں کی مدد سے بڑے پیمانے پر بجلی کی تیاری‘ کا عنوان دیا گیا ہے، جو آئی انرجی نامی جریدے میں شائع ہوئی
تحقیق کے مطابق ”قدرتی توانائی اور آبی گردش کے اہم حصے کے طور پر بارش کے قطروں میں بڑے پیمانے پر قابل تجدید توانائی پائی جاتی ہے، تاہم اس قسم کی قابل تجدید توانائی کے آج موثر استعمال کا فقدان ہے، اس لیے بارش کے قطروں سے بڑے پیمانے پر بجلی بنانے کے لیے ڈی ٹی ای این جیز کی قدرتی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے معقول طریقہ تلاش کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے“
سولر پینل کی کارکردگی بڑھانے والا انقلابی مواد
اس سے قبل سائنس دانوں نے شمسی بجلی پیدا کرنے والے پینلز کی کارکردگی بڑھانے کے لیے ایک ’معجزاتی مواد‘ کا استعمال کرتے ہوئے بڑی کامیابی بھی حاصل کی ہے
جولائی کے پہلے ہفتے میں شائع ہونے والے دو الگ الگ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح پیرووسکائیٹ مادہ فوٹوولٹک کی پاور کنورژن کی کارکردگی کی شرح 30 فیصد سے بڑھا سکتا ہے، جو روایتی سلیکون (پی وی) شمسی سیلز 29 فیصد کی نظریاتی حد سے زیادہ ہے
جرنل ’سائنس‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مادی سائنس کے محققین اسٹیفن ڈی وولف اور ایرکان آئدین نے لکھا ہے ”یہ حد عبور کرنے سے یہ اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ اچھی کارکردگی والے، کم لاگت پی وی کو مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔“
پیرووسکائٹ گذشتہ پندرہ برسوں میں ایک ایسے مواد کے طور پر ابھرا ہے، جو قابلِ تجدید توانائی سے لے کر انتہائی تیز رفتار مواصلات تک کی صنعتوں کی ایک بڑی تعداد کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے
یونیورسٹی آف یوٹاہ سے تعلق رکھنے والے میٹریل سائنس کے پروفیسر زیو ولی ورڈینی نے 2017 میں پیرووسکائٹ کو ’ناقابلِ یقین، ایک معجزاتی مواد‘ قرار دیا تھا، کیونکہ یہ سورج کی روشنی سے توانائی پیدا کرنے کی شمسی خلیات کی کارکردگی کو بنیادی طور پر بہتر بنانے میں کامیاب رہا تھا
پیرووسکائیٹ اپنی خصوصیات کے باعث روشنی اسپیکٹرم کی ایک بڑی رینج سے توانائی حاصل کر سکتا ہے، تاہم تاحال یہ اس قابل نہیں تھا کہ لیبارٹری کے باہر استعمال کیا جا سکے
محقیقین صنعت کے معیارات برقرار رکھتے ہوئے، ایک ٹینڈم ڈیوائس میں سیلیکون کے اوپر پیرووسکائیٹ کی ایک پرت چڑھا کر تجارتی پی وی ٹکنالوجیز کی کارکردگی کو نمایاں طور پر بڑھانے میں کامیاب رہے
پروفیسر ڈی وولف اور آئدین لکھتے ہیں ”ٹینڈم سولر سیل بجلی کی لاگت کم کرنے کی جانب سب سے سیدھا راستہ ہے، جو سنگل جنکشن سولر سیلز کے لیے ناممکن ہے۔“
حالیہ پیش رفت کے پیچھے چین اور جاپان کی ٹیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ جدید ترین ڈیزائن انتہائی موثر شمسی پینلز کی بڑے پیمانے پر پیداوار کی راہ ہموار کرے گا
مستقبل کے شمسی سیل کی کارکردگی کا موجودہ ریکارڈ 33.7 فیصد ہے، جو اس سال کے شروع میں سعودی عرب میں کاسٹ سولر سینٹر کے انجینئروں نے حاصل کیا تھا، جو 2009 میں چار فیصد سے بھی کم کارکردگی سے بڑھ گیا ہے
نانجنگ یونیورسٹی کے پروفیسر ٹین ہیرن کے مطابق گذشتہ ماہ چین میں ایک اسٹارٹ اپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ٹینڈم سولر سیلز کی پیداوار شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں پیرووسکائٹ کی لاگت ’روایتی سولر سیلز کے صرف بیسویں حصے کے برابر ہے۔‘
تازہ ترین تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان کے طریقہ کار سے بالآخر ’35 فیصد سے زائد‘ کارکردگی کی شرح حاصل کی جا سکتی ہے، حالانکہ حقیقی دنیا کے حالات میں ٹینڈم سیلز کو زیادہ پائیدار بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی پیداوار روایتی شمسی پینل کے سائز تک بڑھانے پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے
اس تحقیق کی تفصیل ’سائنس‘ نامی جرنل میں شائع ہونے والے دو الگ الگ مقالوں میں بیان کی گئی ہے۔
یہ دو پیشرفت حالیہ مہینوں میں سولر پینل ٹیکنالوجی کے استعمال میں کئی امید افزا پیشرفتوں میں سے ہیں۔ قبل ازیں محققین کی ایک آسٹریلوی ٹیم نے خلائی تابکاری کی وجہ سے خراب ہونے کے بعد اپنی اصل کارکردگی کو سو فیصد بحال کرنے کی صلاحیت رکھنے والے خلیات تیار کیے ہیں، یہ خلیات خود کو صحت مند بنا سکتے ہیں
جبکہ اس سے قبل امریکی محکمہ توانائی کی نیشنل رینیوایبل انرجی لیبارٹری (این آر ای ایل) کے سائنس دانوں نے سورج کی منعکس ہونے والی روشنی کی مدد سے کارکردگی کی شرح کو 20 فیصد تک بڑھانے کے قابل دوہرے رخ والا شمسی پینل متعارف کروایا تھا۔