پاکستان میں حکومت سے اربوں روپے کی سبسڈیز لینے والے ایکسپورٹرز اور روزانہ اربوں کا کاروبار کرنے والے ریٹیلرز ملک کے تنخواہ دار طبقے سے بھی کم انکم ٹیکس دیتے ہیں
پاکستان کے تنخواہ دار طبقے نے مالی سال دو ہزار بائیس تئیس میں ریٹیلرز اور ایکسپورٹرز سے تقریبا 200 فیصد زیادہ انکم ٹیکس دیا ہے۔ دو مالدار طبقات کی طرف سے کم ٹیکس دینے پر ملک کے کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر ان طبقات کا احتساب کیوں نہیں ہوتا؟
انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ مالی سال میں 264.3 ارب روپے کا ٹیکس دیا ہے جبکہ ایکسپورٹرز اور ریٹیلرز کی طرف سے ادا کی جانے والی ٹیکس کی رقم نواسی اعشاریہ پانچ ارب تھی، جو تنخواہ دار طبقے کی طرف سے ادا کی جانے والی ٹیکس رقم سے 175 ارب روپے کم بنتی ہے
اخبار کے مطابق ایکسپورٹرز نے گزشتہ مالی سال میں ستائیس اعشاریہ سات ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ کی لیکن انہوں نے انکم ٹیکس کی مد میں صرف 74 ارب روپے ادا کیے، جبکہ ریٹیلرز نے 15.6 ارب روپے ادا کئے۔ رپورٹ کے مطابق تنخوادار طبقہ ود ہولڈنگ ٹیکس دینے میں چوتھے نمبر تھا
لاہور سے تعلق رکھنے والے ٹیکس امور کے ماہر طالب حسین کا کہنا ہے ایکسپورٹرز کے لیے انکم ٹیکس کی ایک خاص شرح ہے، جس کے مطابق وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
کیونکہ حکومت کو ڈالر یا بیرونی کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے، جو سروسز یا اشیا کی ایکسپورٹ کی شکل میں آتی ہیں۔
انہوں نے بتایا، ”ایکسپورٹرز کو گراس ریسیٹ یعنی جتنا پیسہ آیا ہوتا ہے، اس پر ایک فیصد انکم ٹیکس دینا ہوتا ہے۔ اس میں چاہے انہیں نقصان ہو یا فائدہ انہیں ایک فیصد ہی دینا پڑتا ہے۔ اس لیے ان کا ٹیکس کم ہوتا ہے۔‘‘
لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے ایکسپورٹرز حکومت سے بے تحاشہ سہولیات اور مراعات لیتے ہیں لیکن جب انکم ٹیکس دینے کا معاملہ آتا ہے تو حکومت اس کو بڑھانے کی ہمت نہیں کرتی
ڈاکٹر اکرام اللہ کہتے ہیں ”ہمارے ایکسپورٹرز آسان شرائط پہ قرض لیتے ہیں۔ خام مال کی مد میں حکومت سے سہولیات طلب کرتے ہیں۔ بجلی اور انرجی کی قیمتوں میں بھی وہ حکومت سے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود انکم ٹیکس کی شرح گراس ریسیٹ پر صرف ایک فیصد ہوتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق جس فراخ دلی سے حکومت ایکسپورٹرز کو مراعات دیتی ہے، اس کے حساب سے ان سے کم از کم 10 فیصد انکم ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں میں بڑے پیمانے پہ صنعت نہیں لگی لیکن ریٹیلرز کے کاروبار میں کافی وسعت آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بیس لاکھ سے زیادہ ریٹیلرز ہیں۔ ریٹیل سیکٹر کا جی ڈی پی میں پندرہ فیصد حصہ ہے اور ملک کی پندرہ فیصد لیبر فورس اس سے وابستہ ہے۔ یوں یہ ملکی معیشت کا تیسرا بڑا سیکٹر اور روزگار فراہم کرنے والے دوسرا بڑا سیکٹر ہے۔ اس وسعت کے باوجود ریٹیل سیکٹر میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرنے والے سرمایہ دار بہت کم انکم ٹیکس دیتے ہیں
واضح رہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے حال ہی میں ریئل اسٹیٹ پر مزید ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا ہے، جبکہ تنخواہ دار طبقے پر حالیہ بجٹ میں بھی ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب اگست کے بلوں میں بجلی صارفین سے اضافی 29 ارب کی رقم بٹورنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب پہلے ہی بجلی کی اوسط قیمت میں ساڑھے 7 روپے فی یونٹ سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے
پاکستان کی اشرافیہ اور امراء کو ٹیکس نیٹ میں لانے یا ان پر ٹیکس بڑھانے کی بجائے حکومت اپنے اللوں تللوں کی وجہ سے ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کی خاطر اپنی نظر صرف غریب کی جیب پر رکھے ہوئے ہے۔