یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ ذیابیطس یاڈائیبٹیز، جسے عام طور پر شوگر کی بیماری بھی کہا جاتا ہے، کے کنارے پہنچنے والے افراد ’پری ڈائبیٹیز‘ کہلاتے ہیں۔ ان کی اکثریت میں جلد یا بدیر ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور اس کیفیت کے شکار افراد کی اکثریت شوگر کی مریض بن جاتی ہے
اس حوالے سے ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے، جس میں 900 افراد کا پچیس سال تک مطالعہ کیا گیا۔، جج ہاں، پورے پچیس سال!
اس مطالعے میں ماہرین نے ذیابیطس سے پہلے کی کیفیت کو بہت سے بایومارکرز یعنی گلوکوز کی مقدار، جگر کی چکنائی، جسمانی چکنائی کی تقسیم، خون میں لائپڈ کی مقدار اور جینیاتی خطرات کی بنا پر دیکھا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 6 ذیلی اقسام میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ مختلف ہوتا ہے اور اس سے ڈاکٹروں کو قدرے مؤثر علاج میں بھی مدد مل سکے گی۔
جرمن سینٹر برائے ذیابیطس ریسرچ کے پروفیسر ہانس الرخ ایرنگ کے مطابق ہماری تحقیق سے پہلے یہ بتانا مشکل تھا کہ پری ڈائبیٹس کے کونسے افراد آگے چل کر ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہوسکتےہیں، کن کے گردے متاثر ہوں گے یا کون ایسے ہیں جنہیں زیادہ فرق نہیں ہوگا؟
مرض کو مختلف گروہ یا کلسٹر کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ موٹاپے، میٹابولزم، جسم میں انسولین کی فطری پیداوار، جگر پر چربی، رگوں کی موٹائی اور دیگر عوامل کی بنا پر انہیں مختلف درجوں میں رکھا گیا ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ذیابیطس جیسے مرض کو بہتر طور پر قابو کرنے میں مددگار ثابت ہوگی.