سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط37)

شہزاد احمد حمید

”سکندر کی اگلی منزل پانچ دریاؤں کی سر زمین پنجاب تھی۔ سکندر اعظم ٹیکسلا سے دریائے جہلم ’ہائیڈوپس‘ (یونانی دریائے جہلم کو hydespes کہتے تھے) کے کنارے ’مونگ‘ (منڈی بہاؤالدین کا نواحی قصبہ) پہنچا، جہاں راجہ پورس اور یونانی افواج کے درمیان گھمسان کا رن پڑا، راجہ پورس نے شکست تو کھائی لیکن ہندوستانی سپاہ کی بہادری کے سامنے سکندری افواج دل اور ہمت دونوں ہار بیٹھی۔ سکندر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو بیشتر بوڑھے ہندوستانی امراء نے اُس کا ساتھ نہ دیا۔ روایت کے مطابق (میرے خیال میں یہ روایت درست نہیں ہے کہ ایسا شاید ممکن نہ تھا کہ کوئی قاصد ہندوستان سے یونان جائے اور اتنی جلدی واپس آ جائے) اس نے اپنے استاد ارسطو سے اس کا حل بذریعہ قاصد پوچھا۔قاصد نے تمام واقعہ ارسطو کو سنایا۔ تمام بات سن کر ارسطو قاصد کو اپنے ساتھ لئے ایک باغ میں آیا جہاں کئی باغبان پودوں اور درختوں کی آبیاری میں مصروف تھے۔ اس نے باغبانوں کی حکم دیا تمام سن رسیدہ شجر جڑوں سے کاٹ دئیے جائیں اور ان کی جگہ نئے پودے لگائے جائیں۔ باغبان حکم کی تکمیل میں مصروف ہو گئے۔ ارسطو حکم دے کر گھر چلا گیا۔ قاصد سوال کے جواب میں کچھ دیر انتظار کرتا رہا۔ جواب نہ پا کر واپس چلا آیا اور سکندر کو سارا ماجرا سنایا۔بسکندر نے تمام بوڑھے امراء کو بلا کر قتل کر دیا اور ان کی جگہ نئی نسل کو تعینات کیا جو سکندر کی طرح پر جوش اور ویسے ہی جذبے سے سر شار تھی۔ یہ سب تبدیلیاں بھی یونانی سپاہ کی بددلی ختم نہ کر سکیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ سکندر اور اس کی سپاہ کی بددلی کی ایک جزوی وجہ پورس سے لڑائی بھی تھی۔ بڑی وجہ؛ سکندر اعظم جب ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو گرمی کا موسم تھا اور پنجاب کے سبھی دریا سیلابی کیفیت میں تھے۔ یوں پورس کی جی داری، یونانی سپاہ کی عرصے سے گھروں سے دوری اور پنجاب کے دریاؤں کی طغیانی نے مل کر ایسی صورت حال پیدا کردی، جس میں سکندری سپاہ کا بددل ہونا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔ دریائے سندھ کا غضب وہ دیکھ چکا تھا۔ پنجاب میں داخل ہوا تو مون سون کا موسم اپنے جوبن پر تھا۔ دریائے جہلم اور چناب بھی بپھرے انتہائی چوڑائی میں بہہ رہے تھے۔بقول ’آریان‘ ان دریاؤں کا دوسرا کنارا نظر نہیں آتا تھا۔“

سکندر جس نے شہرہ آفاق نظم ’ایلیڈ‘ کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ (ایلیڈ اور اوڈیسی یونان کے شہرہ آفاق اندھے شاعر ’ہومر‘ کی لازوال تخلیق ہیں۔ انہیں پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کیسے ایک نابینا شخص واقع نگاری، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، حالات و واقعات بیان کرکے شہکار تخلیق کیا کہ یقین کرنا ناممکن ہے کہ یہ کسی ایسے شخص کی تحریر ہے جس کی بینائی نہیں تھی۔ ایلیڈ میں ہیلن آف ٹرائے کی محبت اور ٹرائے کی جنگ کی کہانی بیان ہوئی ہے اور شاید مشہور مقولے؛ ’جنگ اور محبت میں سب جائز ہے۔‘ کا ماخذ بھی ٹرائے کی جنگ ہی ہے۔ اوڈیسی میں ٹرائے سے واپسی کا سفر بیان ہوا ہے۔ ان دو نظموں کے تخلیق کار ہومر کو تاریخ انسانی کا سب سے اعلیٰ اور پر اثر تخلیق کار سمجھا جاتا ہے۔) ہندوستان کے بپھرے دریاؤں کو دیکھ کر سکندر کو ضرور ایلیڈ کے سمندر یاد دلائے ہوں گے

”راجہ پورس کو اپنا گورنر مقرر کر کے وہ آگے تو ضرور بڑھا مگر دریائے چناب ’ایسی نیس‘ (یونانی اس دریا کو acesines کہتے تھے) کی طغیانی اور خوفناک لہروں نے اسے گھیر لیا۔ سکندری سپاہ کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی۔ اُس نے اس بار بھی الفاظ کی جادوگری دکھانے کی کوشش کی مگر یہ بازی گری ناکام ہوئی تو ساتھ ہی دنیا فتح کرنے کی مہم بھی۔۔

”آج کا پنجاب بارانی اور نہری زمین کا امتزاج ہے۔ پنجاب کے کھیت مختلف اقسام کی فصلیں اگلتے ہیں لیکن سکندر کے دور میں اس زمین کا زیادہ رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا۔ یہاں گینڈے، چیتے اور دوسرے جانور رہتے تھے۔سکندر کی سپاہ نے فارس اور افغانستان کی خشک زمین کو تو باآسانی عبور کر لیا تھا مگر پنجاب میں اسے یکسر مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر قدم اُسے نئے حالات سے دو چار کر رہا تھا۔ دن کو دریاؤں کی موجوں سے سامنا ہوتا تو رات میں سانپوں کے ڈسنے کا خوف۔۔ کہیں سیلابی دریا تھے تو کہیں پورس کے بہادر شیر دل جوانوں سے مقابلے کا خوف تھا۔ یورپ سے آئی اس فوج کے لئے مشکلات اور صبر کا امتحان ناقابل برداشت ہونے لگا تھا۔ ایسی مزاحمت کے شاید وہ عادی بھی نہ تھے۔ اُن کا سپہ سالار سکندر اعظم بہادر، جوان اور جنگجو تھا۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے فوج اُس سے محبت کرتی تھی۔ ہندوستانی مہم جوئی سے پہلے بھی اس کی فوج کے حوصلے کئی بار پست ہوئے لیکن ایسے موقعوں پر سکندر کا ولولہ انگیز اور پرجوش خطاب اُس کی سپاہ کے حوصلے بلند کرتا اور اُن کے جذبات کو دوبارہ سے انتہا پر پہنچا دیتا تھا اور یونانی افواج پھر سے اپنے سپہ سالار کے حکم پر کٹ مرنے کو تیار ہو جاتی تھی۔پورس سے مقابلے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ فوج کا جذبہ پھر سے دم توڑ رہا ہے تو اس نے اپنا آزمودہ نسخہ دوبارہ آزمانے کے لئے سپاہ کو اکٹھا کیا اور اُن سے بڑا جذباتی خطاب کیا لیکن جہاں اُس سپاہ کو ہندوستانی دریاؤں کی طغیانی نے بددل کیا، وہیں پورس کی بہادر افواج نے اُن کے لڑنے اور حوصلے کی سکت کو بھی کمزور کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں انہیں اپنے خاندانوں سے بچھڑے عرصہ بیت گیا تھا۔ کسی کو ماں باپ کی یاد ستانے لگی تھی تو کسی کو بیوی بچوں کی۔ کچھ دوستوں سے ملاقات کو ترس گئے تھے تو کچھ اپنی محبوباؤں سے دور ہونے کے غم میں بے چین تھے اور کچھ حالات سے دل برداشتہ۔ ایسی صورت حال میں سکندر کا پرجوش اور جذباتی خطاب بھی اُن کے حوصلوں کو جِلا دینے میں ناکام رہا۔ وہ سکندر کے اس پیغام کو بھی نہ سمجھ سکے کہ دنیا فتح کرنے کے عزم کے کس قدر قریب ہیں اور ان کا نام بس تاریخ کا حصہ بننے ہی والا ہے۔ تقریر سن کر جب سکندر کی بے حوصلہ سپاہ نے کسی مثبت ردعمل کا اظہار نہ کیا تو وہ خود بھی مایوس ہو گیا۔ اس موقع پر آریان لکھتا ہے؛ ’سکندر جو ہمیشہ انہونی کو ہونی کرنے کی خوبی سے مالا مال تھا اور یہی ایک خوبی شاید اسے اپنے دیس سے اتنی دور تک لے آئی تھی۔ وطن سے اتنی دور قسمت اور اس صلاحیت، دونوں نے ہی سکندر کا ساتھ چھوڑ دیا۔ مایوس ہو کر اس نے با دلِ ناخواستہ واپسی کا اعلان کر دیا‘

”اس نے واپسی کے لئے نیا راستہ چنا۔ وہ افغانستان کے راستے واپس جانے کو تیار نہ تھا۔ اس نے سندھو سے ہوتے بحیرہ عرب کے راستے واپسی کا ارادہ کیا۔ وہ عظیم سندھو سے دور رہنا چاہتا تھا کہ اس کی طغیانی اور غصے کو وہ دیکھ چکا تھا۔ یہ ممکن بھی نہ تھا۔ شاید وہ خود بھی ہندوستانی دریاؤں کی طغیانی سے خوف زدہ تھا۔ پنجند اور اوچ شریف (بہاول پور شہر سے باسٹھ(62) کلو میٹر دور) کے قریب اس نے پنجاب کے دریاؤں کا سنگم دیکھا تو اُس کا رہا سہا حوصلہ بھی دم توڑ گیا۔ ملتان میں اس کی سپاہ کو جنگجو مقامی قبائل cathians کی شدید مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ دوران سفر اس کے بہت سے ساتھی یا تو مارے گئے یا دریاؤں میں ڈوب گئے۔ وہ خود بھی ڈوبتے بچا۔ اس کی ایسے پسپائی میں شاید یہ پیغام تھا؛ ’ہندوستان کی دھرتی ابھی بہادروں اور دلیر دشمنوں سے خالی نہیں ہوئی ہے۔‘

”سارا راستہ وہ دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے جانوروں کی قربانی دیتا گیا مگر مٹھن کوٹ کے مقام پر میری (سندھو) کی موجیں دیکھ کر وہ دیوتاؤں کے قدموں میں بیٹھ گیا حالانکہ تم تو جانتے ہو کہ میں تو خود بھی دیوتا ہوں۔ اس بار میں بھی اُسے معاف کرنے کو تیار نہ تھا کہ اُس نے میرے نام کی قربانی نہ دی تھی۔ سکندر میرے ڈیلٹا تک تو پہنچا مگر اس سفر میں اُس کی کئی کشتیاں میری بپھری موجوں کی نظر ہو گئیں، سینکڑوں سپاہی ڈوب گئے۔ دریاؤں کے ساتھ سفر کرتے کرتے اُسے نو ماہ کا عرصہ بیت گیا تھا۔ بالآخر بحیرہ عرب سے وہ اسکندریہ روانہ ہو گیا۔۔۔

”سکندر اعظم دنیا فتح کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے بحیرہ عرب کے راستے اسکندریہ (مصر) پہنچا جہاں موت اس کی منتظر تھی۔ اسکندریہ پہنچنے کے دو سال کے اندر وہ مر گیا۔ مورخین کے مطابق اس کی موت کی وجہ وہ زہر آلود تیر تھا جو ہندوستان کی مہم جوئی کے دوران اسے لگا تھا اور بعض کے نزدیک ہندوستان میں لاحق ہونے والا ملیریا بخار اس کی موت کی وجہ بنا۔ اس کی موت کی وجہ جو بھی تھی لیکن یہ بات طے ہے کہ اپنی موت کے وقت وہ عرب پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، جہاں کے بسنے والے اسے دیوتا ماننے سے انکاری تھے۔ وہ دنیا سے جاتے وقت یہ تاریخی جملہ بھی کہہ گیا یا اس جملے کو اس کے نام سے منسوب کر دیا گیا؛ ’دیکھو آدھی دنیا کا فاتح دنیا سے خالی ہاتھ لوٹ رہا ہے۔“
میرا داستان گو یہاں تک کی داستان سنا کر خاموش ہوا تو میں نے بھی کچھ سکھ کا سانس لیا ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close