ایک نیم ریٹائرڈ صحافی دوست ہیں، وہ ہم صحافیوں کی طرح اخبار پہلے صفحے سے نہیں پڑھتے بلکہ اخبار کا بزنس سیکشن نکال کر پڑھنا شروع کرتے ہیں۔
بین الاقوامی اخباروں میں بھی صرف وال اسٹریٹ جنرل اور فنانشل ٹائمز کو مستند سمجھتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ سیاست اور طاقت کے کھیل کو ہم نے خواہ مخواہ گورکھ دھندا بنایا ہوا ہے، حالانکہ یہ صرف ایک دھندہ ہے۔
سیاسی تجزیوں میں اپنا حال اور مستقبل تلاش کرنے کی بجائے صرف سرمائے کی نقل و حرکت پر نظر رکھو تو اپنے دیس کی بھی سمجھ آئے گی اور دنیا کی بھی۔
اپنے ایک تازہ دردمندانہ مضمون میں انھوں نے اعداد و شمار کا کچھ انبار سا لگایا ہے اور پھر ملک کو اس معاشی اندھے کنویں سے نکالنے کے لیے کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔
مضمون کا نام انھوں نے رکھا ہے ’دیوالیہ دیس کے شہزادے۔‘ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں چھبیس ہزار سے زیادہ شہزادے ایسے ہیں، جن کے پاس ایک ملین ڈالر سے زیادہ پیسے ہیں اور پھر پوچھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے ٹیکس دیتے ہیں۔ پھر بتایا ہے کہ پاکستانی امارات میں بڑے بڑے پراپرٹی انویسٹر ہیں، اس پر کوئی ٹیکس کیوں نہیں لگ سکتا؟
پھر پاکستان میں فارن کرنسی کے کاروبار کرنے والوں کے اعدادوشمار کے مطابق بتایا ہے کہ یہ پاکستانی شہزادے سال میں چار ارب ڈالر صرف اپنے کریڈٹ کارڈ کے بل کے طور پر دیتے ہیں۔
میرے جیسا معیشت سے نابلد شخص بھی یہ رقم دیکھ کر چونک جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا ہم نے آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر لینے کے لیے پورا سال اپنی جگ ہنسائی نہیں کروائی۔
ہماری اتنی بڑی معیشیت کہ ہم ایک ہاتھ سے کریڈٹ کارڈ گھما کر چار ارب ڈالر خرچ کر دیں اور دوسرا ہاتھ تین ارب ڈالر کے لیے صبح شام پھیلائے رکھیں؟
کیا ہمارے گلشن کا کاروبار صرف اتنی چھوٹی سی رقم کا محتاج ہے؟ بزنس کے صفحات سے دن کا آغاز کرنے والے میرے دوست نے یاد کرایا کہ نہیں ان تین ارب ڈالر سے ہمارا گزارا نہیں ہوگا، اس سے ہم صرف اپنا پرانا سود چکائیں گے اور پھر نئے قرضے لیں گے اور شاید ہماری ساکھ تھوڑی بہتر ہو، کہ ہو سکتا ہے ہم لگتے دیوالیہ ہیں لیکن ہیں نہیں۔
کبھی کبھی کوئی نیوز اسٹوری بزنس کے صفحات سے آزاد ہو کر پہلے صفحے پر بھی آجاتی ہے۔ میں نے بھی ابھی ابھی حال ہی میں پڑھا ہے کہ پاکستان کا تنخواہ دار طبقہ سارے سیٹھوں اور تاجروں سے مل کر دوگنا ٹیکس دیتا ہے۔
ان سیٹھوں میں ٹیکسٹائل کے ایکسپورٹر بھی شامل ہیں، جن کی دہائی آپ فرنٹ پیج اشتہار میں ہمیشہ پڑھتے رہتے ہوں گے کہ ہم لُٹ گئے یا بس لُٹا ہی چاہتے ہیں۔
جم خانہ وغیرہ کلبوں کی زمین کا بھی تذکرہ ہوتا ہے، جو تقریباً مفت میں دستیاب ہے تاکہ ہمارے شہزادے اور ان کے حواری سارا دن ٹیکس بچانے کی محنت کرنے کے بعد شام کو گالف کھیل سکیں اور یاروں دوستوں سے گپ لگا سکیں، جس کا موضوع یہی ہوتا ہے کہ یار یہ ملک جا کدھر رہا ہے!
میرے حسابی کتابی دوست نے دیوالیہ ملک کے شہزادوں کی دولت کا حساب کتاب لگانے کے بعد کچھ تجاویز بھی دی ہیں کہ انہیں کچھ ایسی ترغیبات دی جائیں کہ وہ ٹیکس دینے پر آمادہ ہو جائیں۔
ہر حکومت کوئی نہ کوئی ایمنسٹی اسکیم جاری کرتی رہی ہے کہ ہمیں کچھ تھوڑا سا ٹیکس دے دو گے تو ہم نہیں پوچھیں گے کہ آپ کے پاس آخر سرمایہ ہے کتنا اور کہاں سے آیا ہے۔
ان سکیموں کے نتیجے میں سرکار کے خزانے میں کچھ آیا ہو نہ ہو، ہمارے شہزادوں کے کریڈٹ کارڈ کچھ تیزی سے گھومتے رہے ہیں
میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اگر اس طرح کی ترغیبات پہلے کام نہیں آئیں تو اب کیوں آئیں گی؟ انہوں نے فرمایا کہ اب کوئی چارہ نہیں اور مجھے ملکی قرضوں اور گردشی قرضوں کے ایسے اعداد و شمار بتائے، جو میرے چھوٹے دماغ میں سما بھی نہ سکے۔
میں نے عرض کیا کہ جن لوگوں کو آپ نے ’شہزادے‘ کہا ہے، ہو سکتا ہے وہ خود کو باقاعدہ شہزادے ہی سمجھتے ہوں۔ بادشاہت کی اور شہزادہ ہونے کی پہلی شرط یہی ہے کہ آپ ٹیکس نہیں دیتے۔ جن ملکوں میں براہِ راست بادشاہت ہے، وہاں بھی شاہی خاندان ٹیکس نہیں دیتا۔
خلیجی ممالک میں ان گنت شہزادے ہیں، ٹیکس نہیں دیتے۔ ملکہ الزبتھ بھی ٹیکس نہیں دیتی تھی۔ اس کا بادشاہ بیٹا بھی ٹیکس نہیں دیتا۔ اگر بادشاہ ہو کر، شہزادے بن کر ٹیکس دینا پڑے تو پھر ایسی بادشاہت کا کیا فائدہ۔۔
ٹیکس دینا رعایا کا کام ہے اور وہ ٹیکس ریاست مزدور کی جیب سے نکال بھی لیتی ہے۔ جب تک ہم اپنے سرمایہ داروں کو شہزادہ بنا کر رکھیں گے، کوئی ترغیب کام نہیں آئے گی۔
ان کا ایک ہاتھ کریڈٹ کام گھماتا رہے گا اور دوسرا سرکاری خزانے سے اپنا خرچ وصول کرتا رہے گا۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)