یہ جولائی 1945 کی بات ہے، جب امریکہ کے خفیہ ’مین ہیٹن پراجیکٹ‘ کے تحت پہلے ایٹم بم کا تجرباتی دھماکہ کیا گیا تو اس کے کچھ دیر بعد چند شرمن ٹینکوں کو دھماکے کے مقام کی طرف روانہ کیا گیا، جن میں بیٹھے اہلکار بھاری بھرکم حفاظتی سوٹ میں ملبوس تھے، ان کا مقصد زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے اس جگہ کے نمونے اکھٹے کرنا تھا
یہ سب نیو میکسیکو میں ’جورناڈو ڈیل مئیرتو‘ نامی مقام پر ہو رہا تھا، جہاں ’گیجٹ‘ نامی پروٹو ٹائپ ایٹم بم نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دھماکہ کیا تھا
اس کامیاب تجربے کے چند دن بعد اگست میں آسمان نے دنیا کی تاریخ کی ہولناک تباہی دیکھی، جب امریکہ نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو ایٹم بم گرا کر دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ کر دیا تھا
دسمبر 1945ع تک ان دونوں شہروں میں محتاط اندازوں کے مطابق ایک لاکھ دس ہزار افراد ہلاک لقمہ اجل بن چکے تھے
مین ہیٹن منصوبے کے سربراہ رابرٹ اوپن ہائمر تھے، جنہیں ’ایٹم بم کا خالق‘ کہا جاتا ہے، جن پر بنائی گئی فلم حال ہی میں ریلیز کی گئی ہے
نیو میکسیکو کو ایٹم بم کے تجربے کے مقام کے لیے چنے جانے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں میلوں تک کوئی انسانی آبادی نہیں تھی
لیکن یہ مکمل طور پر درست نہیں تھا۔ تجربے کے مقام سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر کچھ مویشی پالنے والے لوگ آباد تھے۔ جبکہ لگ بھگ اَسی کلومیٹر کے دائرے میں دیگر چھوٹے قصبے بھی موجود تھے، جن میں مجموعی طور پر ہزاروں افراد بستے تھے
تاہم 16 جولائی 1945 کی صبح ساڑھے پانچ بجے ہونے والے دھماکے سے قبل ان لوگوں کو خبردار نہیں کیا گیا کہ ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے۔ یہ دھماکہ اتنا طاقتور تھا کہ میلوں دور ایل پاسو جیسے شہروں تک میں اس کی روشنی دیکھی گئی
ٹینا کورڈووا نے امریکی چینل ’پی بی ایس‘ کو 2021ع میں انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا ”مجھے علم ہوا کہ بستر میں سوئے ہوئے لوگ دھماکے کے بعد نیچے زمین پر گر گئے۔ انہوں نے ایک ایسی روشنی دیکھی، جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، کیونکہ دھماکے کے بعد سورج سے زیادہ روشن اور حدت والی چمک پیدا ہوئی تھی۔۔ لوگوں کو لگا کہ دنیا ختم ہونے والی ہے“
ٹیسٹ کے بعد امریکی ایئر فورس بیس الاموگورڈو نے ایک بیان جاری کیا کہ بارودی اسلحہ جس میں کافی دھماکہ خیز مواد موجود تھا، پھٹ گیا ہے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا
ایک مقامی اخبار میں کہا گیا کہ اسلحہ ڈپو میں دھماکے کے بعد موسمی حالات کی وجہ سے فوج نے چند شہریوں کو عارضی طور پر گھروں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا ہے
اس بیان میں دھماکے کے مقام پر خطرناک تابکاری مواد کے بارے میں کسی قسم کی وضاحت نہیں دی گئی نہ ہی لوگوں کو خبردار کیا گیا
نارتھ کیرولینا یونیورسٹی کے ڈاکٹر ولیم کنسیلا بتاتے ہیں ”ٹیسٹ کے بعد پیدا ہونے والے بادل دور دور تک پھیل گئے۔ ان میں اسٹرونٹیئم، ٹیکنیشیئم، سیزیئم جیسے خطرناک مواد موجود تھے“
امریکی ایئر فورس نے بیان میں مبہم طور پر نقل مکانی کی وجہ ’ایک خطرہ‘ بتائی تھی، جو بعد میں حقیقت کا روپ دھار گیا۔ یہ خطرہ ایٹمی دھماکے کے بعد پیدا ہونے والے بادلوں سے تھا، جن میں موجود گیسیں انتہائی خطرناک تھیں
کہا جاتا ہے کہ مین ہیٹن پراجیکٹ کے منصوبہ سازوں نے ’ٹرینیٹی ٹیسٹ‘ کے لیے نیو میکسیکو صحرا کا مقام اس لیے چنا تھا، کیوں کہ 1940 میں یہاں آبادی نہیں تھی اور موسم بھی کافی حد تک ایک جیسا ہوتا تھا
تاہم تجرباتی دھماکہ منصوبہ سازوں کی توقع سے کہیں زیادہ طاقتور تھا، جس کے بعد ذرّات سے پیدا ہونے والے بادل پندرہ ہزار سے اکیس ہزار میٹر اونچائی تک پہنچے
رواں ماہ ہی شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق، اس دھماکے کے بعد پھیلنے والے ذرّات جنوبی کینیڈا اور شمالی میکسیکو سمیت امریکہ کی چھیالیس ریاستوں میں پائے گئے تھے
دھماکے کے بعد تقریبا چار سو کلومیٹر طویل اور تین سو بیس کلومیٹر چوڑا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ تابکاری مواد کی سب سے زیادہ مقدار اس مقام سے اڑتالیس کلومیٹر دور پائی گئی۔ تابکاری کے ’فال آؤٹ‘ کا سب سے زیادہ ارتکاز ٹیسٹ سائٹ سے اڑتالیس کلومیٹر دور چپاڈیرا میسا میں ہوا
ڈاکٹر ولیم کنسیلا کا کہنا ہے کہ ہوا کے رخ کے حساب سے آبادیاں متاثر ہوئیں اور ایسا ٹرینیٹی ٹیسٹ کے علاوہ دیگر تجرباتی دھماکوں میں بھی ہوا
لیکن اس وقت اس بات کا علم نہیں ہوا اور یہ اثرات بعد میں جا کر واضح ہوئے کیونکہ امریکی حکومت کے مطابق تو ’یہ دھماکہ اسلحہ ڈپو کی وجہ سے ہوا تھا‘
تاہم منصوبہ ساز اس بات سے واقف تھے کہ نیو میکسیکو میں دراصل کیا ہوا تھا۔ امیلیو سیگرے مین ہیٹن پراجیکٹ کا حصہ تھے۔ انہوں نے بعد میں واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو میں کہا ”ایک لمحے کے لیے مجھے ایسا لگا کہ دھماکہ آسمان کو آگ لگا دے گا اور زمین کو مٹا دے گا اگرچہ میں جانتا تھا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے“
ٹینا کورڈووا نے ٹرینیٹی ٹیسٹ کے بعد بیمار ہو جانے والے افراد کے شواہد اکھٹے کیے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ نیو میکسیکو کے اس علاقے میں رہنے والوں کے پاس اس زمانے میں ٹی وی یا ریڈیو نہیں ہوا کرتا تھا اس لیے ان کو حقیقت کے بارے میں علم نہیں ہوا
اس علاقے میں بسنے والے پانی کے لیے بارش یا پھر زیرِ زمین موجود وسائل پر انحصار کرتے تھے اور پھر پانی کو ذخیرہ کر لیتے تھے۔ لیکن اس ذخیرے میں دھماکے کے بعد تابکاری مواد ملی مٹی یا ریت گھسنے کے امکانات موجود تھے۔ ان کے مویشی بھی تابکاری مواد سے متاثر ہو سکتے تھے
ٹینا کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل گئیں اور ان کی زندگی میں اس تجربے کے بعد تابکاری مواد شامل ہو گیا
جوہری تجربے کے بعد مقامی لوگ بیمار پڑنا شروع ہو گئے، لیکن کافی عرصے تک کسی کو شک نہیں ہوا کہ ان بیماریوں کا تعلق اس تجربے سے ہے
ٹینا کہتی ہیں ”تجربے کے دس سال بعد کینسر سے اموات ہوئیں۔ ان لوگوں نے کبھی کینسر کا لفظ بھی نہیں سنا تھا۔ میں اپنے خاندان کی چوتھی نسل میں سے ہوں، جو کینسر سے متاثر ہے“
ان کے ایک ہمسائے نے انکیں بتایا کہ ان کی ایک حاملہ عزیزہ دھماکے کے مقام پر گئی تھیں اور جب ان کا بچہ پیدا ہوا تو اس کی آنکھیں نہیں تھیں
ٹینا کا کہنا ہے ”انہوں نے لوگوں کے لیے دھماکے کے مقام کو بند تک نہیں کیا۔ 1950ع تک اس مقام پر جانے کے لیے کوئی قدغن نہیں تھی۔ آج اگر آپ اس جگہ جائیں تو وہاں خبردار کرنے والے پیغامات نظر آتے ہیں۔ سوچیں کہ ٹیسٹ کے مہینوں اور چند برسوں بعد تک وہ جگہ کیسی ہوگی۔۔۔“
ٹیسٹ کے مقام پر قرب و جوار میں رہنے والے لوگ جاتے رہے۔ حتیٰ کہ لوگ وہاں پکنک تک مناتے تھے کیونکہ ان سے حقیقت چھپائی گئی تھی اور انہیں کوئی خوف نہیں تھا۔ چند لوگوں نے ٹرینائٹ نامی عجیب و غریب لیکن خطرناک پتھر بھی دریافت کیا، جس کا جنم دھماکے سے ہوا تھا
ٹینا کورڈووا نے پی بی ایس کو بتایا کہ لوگوں کو وہاں سے جو سامان ملا، انہوں نے اسے استعمال کر لیا۔ ٹینا کے ہمسائیوں کو اسٹیل ملا، جس سے انہوں نے بچوں کا جھولا بنا لیا۔ کسی کو پیراشوٹ ملا جس کے پردے بنا لیے گئے
لیکن پھر پیدا ہونے والے بچوں میں ایسے مسائل نظر آنا شروع ہوئے، جو سمجھ سے بالاتر تھے۔ شروع میں یہ سمجھا گیا کہ شاید یہ پیٹ کی کوئی بیماری ہے۔ ہر ایک ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں سے سو کی وفات ہو گئی
ایک کیس بارہ بچیوں کا تھا۔ تراسی سالہ باربرا کینٹ بھی ان میں سے ایک تھیں، جنہوں نے سانتا فے نیو میکسیکن اخبار کو 2015ع میں بتایا ”ٹیسٹ کے بعد ہم نے ایک ناقابل یقین چیز دیکھی۔۔ ہم نے سوچا جولائی میں برف باری۔۔۔! لیکن وہاں بہت گرمی تھی۔۔ ہم نے اسے اپنے ہاتھوں پر مَلا، اپنے چہروں پر مَلا۔ ہم سب دریا میں کافی مزہ لے رہے تھے اور اس چیز کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے، جسے ہم برف سمجھ رہے تھے“
ان بارہ بچیوں میں سے صرف دو ہی چالیس سال سے زیادہ عمر تک پہنچ پائیں۔ باقی سب کی موت کینسر یا ایسی ہی خطرناک بیماریوں سے ہوئی۔ خود باربرا کو بھی جلد کے کینسر کا سامنا کرنا پڑا
ڈاکٹر کنسیلا کا کہنا ہے ”دھماکے کے بعد چَین ری ایکشن میں بم میں موجود پلوٹونیئم کی زیادہ مقدار استعمال نہیں ہوئی، جو ہوا میں خارج ہو گئی۔ یہ کافی تشویش ناک چیز تھی کیونکہ اس کے اثرات دیر تک رہتے ہیں اور یہ کافی خطرناک ہوتی ہے۔۔ دھماکے میں صرف پندرہ فی صد پلوٹونیئم کی کھپت ہوئی اور باقی ماندہ دھماکے کے مقام کے قریب ہی رہی، جبکہ فژن مواد دور تک گیا۔۔ زمین میں جذب ہو کر یہ تابکاری مواد زیرِ زمین سفر کرتا ہوا زرعی مصنوعات میں مل گیا اور یوں خوراک میں شامل ہو گیا مثال کے طور پر دودھ میں۔۔ ٹرینیٹی کے تجربے کے بعد زمین کے ٹیسٹوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے۔“
امریکہ نے 1945 سے 1962 تک دو سو جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے۔ یہ تجربے جن مقامات پر ہوئے، ان کے قریب بسنے والی آبادی پر اثرات دہائیوں میں نظر آئے لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کی وجہ جوہری تجربہ ہی تھا
آسٹریلیا کی ملبرن یونیورسٹی اور سونبرن یونیورسٹی سے تعلق رکھتے والے ٹلمین رف اور ڈیمیتری ہاکنز نے ایک مقالے میں وضاحت کی ہے کہ دنیا بھر میں ایٹمی دھماکوں کے تجربات کے بعد کینسر سے ہونے والی اموات کا تخمینہ بیس لاکھ سے چوبیس لاکھ تک لگایا گیا ہے۔ تاہم ان کے مطابق یہ تعداد اصل میں کافی زیادہ ہو سکتی ہے
ان کی تحقیق کے مطابق فرانس، برطانیہ، امریکہ سمیت دیگر ممالک میں جوہری شعبے میں کام کرنے والوں پر ہونے والی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ تابکاری مواد کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے سے بھی موت ہو سکتی ہے
یہی صورتحال ہمیں پاکستان کی جانب سے بلوچستان کے علاقے چاغی میں کیے گئے ایٹمی دھماکے کے بعد نظر آتی ہے، جہاں کینسر کے کیسز میں بے تحاشہ اضافہ ہوا
نیو میکسیکو کے قرب و جوار میں متاثرہ افراد کی تعداد کا اندازہ لگانے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی
بیسویں صدی کے اختتام کے قریب کہیں جا کر امریکی حکومت اور کانگریس نے اس مسئلے کی جانب توجہ دینا شروع کی، لیکن انہوں نے صرف نیواڈا جیسی ریاستوں میں ہی یورینیئم انڈسٹری میں کام کرنے والوں کی طرح متاثرہ افراد کے لیے ڈھائی ارب ڈالر مالیت کا امدادی پروگرام متعارف کروایا، جبکہ نیو میکسیکو کے رہائشی اب تک کسی قسم کی مدد یا شناخت حاصل نہیں کر پائے
ڈاکٹر کنسیلا کا کہنا ہے کہ ان آبادیوں میں اب تک جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے اثرات کو چھپایا جاتا ہے یا انکار کیا جاتا ہے۔ چند کیسوں میں مدد کی گئی لیکن یہ بہت محدود حد تک ہوا
امریکی محکمہ توانائی کی ایک رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا جا چکا ہے کہ نیو میکسیکو ریاست میں ایک سو سات مقامات کی صفائی ضروری ہے
لاس ایموس نیشنل لیبارٹری، جہاں جوہری تجربے کا منصوبہ تیار ہوا تھا، نے گزشتہ سال بیریلیئم نامی زہریلے مواد کی موجودگی کا پتہ چلایا تھا، جو کینسر اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کی وجہ بن سکتا ہے
ٹینا کارڈووا نیو میکسیکو کے لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں، تاکہ انہیں ٹرینیٹی ٹیسٹ کے متاثرین کی شناخت مل سکے۔ ناواجو نیشن جیسے قصبوں میں بھی ایسے ہی مسائل ہیں
اس قصبے کے مقامی سربراہ کا کہنا ہے ”ہسپانوی اور مقامی امریکی لوگ حکومتی امدادی پروگرام میں شامل نہیں کیے گئے۔۔ حکومتی اہلکار کہتے ہیں کہ ’اس پر بہت پیسہ خرچ ہوگا‘ اور یہ ہماری قربانی پر نمک چھڑکنے جیسا ہے۔“