”’مجھے نہ مارو، مجھے نہ مارو۔۔۔“ یہ خوف میں ڈوبی آواز ایک بچی کی ہے۔۔ جو اتنی سہم چکی ہے کہ کوئی بھی اس کے قریب آئے تو وہ چیخنے لگتی ہے، حتیٰ کہ اب وہ والدین کو دیکھ کر بھی خوش نہیں ہو پاتی
اسلام آباد میں سول جج عاصم حفیظ کے گھر پر مبینہ طور پر ان کی اہلیہ سومیہ کے ہاتھوں جان لیوا تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ خوف کے مرض کا شکار ہو گئی ہے
بچی کا طویل عرصے تک علاج نہ ہونے سے سر کے زخم میں کیڑے پڑ گئے تھے، جبکہ سر کا انفیکشن آنکھوں میں اتر گیا اور گردے اور جگر بھی متاثر ہوئے ہیں۔۔ اس کے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں۔ جہاں زخم موجود نہ ہوں۔ پندرہ بڑے زخم ہیں۔ جن میں سر پر دو فریکچر اور دونوں بازوؤں سمیت پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق رضوانہ کے بازووں کو ٹوٹے کئی ماہ ہو چکے ہیں اور اب تو اس کی روح پر لگے زخم بھی اس کی آنکھوں سے رسنے لگے ہیں
دوسری جانب اسلام آباد پولیس گھریلو ملازمہ پر انسانیت سوز تشدد کرنے والی سول جج کی اہلیہ ملزمہ کو گرفتار کرنے میں اب تک ناکام ہے۔
زخمی بچی کے والد نے پولیس پر مقدمہ ختم کرانے کیلئے دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا ہے تاہم پولیس اس الزام کو مسترد کر رہی ہے
دوسری جانب بچی کو اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنانے والے سول جج کے والد اپنی بہو اور بیٹے کو بچانے کے لئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ فیڈرل پولیس سے رابطہ کر کے انہوں نے کہا کہ بے فکر رہیں، وہ سارا معاملہ سیٹل کر لیں گے
معاملہ کیا ہے؟
چودہ سالہ رضوانہ کا تعلق سرگودھا سے اور ان کی والدہ کے بقول گذشتہ کئی ماہ سے وہ اسلام آباد میں ملازمہ کے طور پر گئی تھیں، تاہم اس کے بعد ان سے بچی کی ملاقات نہیں کروائی گئی اور 23 جولائی اتوار کے روز اسلام آباد بس اسٹینڈ پر بلا کر بچی کو زخمی حالت میں ان کے حوالے کیا گیا
شمیم بی بی نے بتایا ’میری بیٹی جن کے پاس کام کرتی تھی، وہ لوگ بڑی گاڑی میں آئے اور مجھ سے جگہ کی نشاندہی کر کے بچی کو میرے قریب پھینک کر گاڑی دوڑا دی۔ بچی درد اور خوف کی شدت سے کانپ رہی تھی۔ میں نے گھر اپنے میاں کو فون پر بتایا اور اس کے بعد بس میں دو سیٹیں کرائے پر لیں اس کی حالت دیکھتے ہوئے اسے لٹایا اور خود کھڑی ہو کر سرگودھا رات دو بجے پہنچی۔‘
سرگودھا پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ چودہ سالہ بچی رضوانہ کو چھ ماہ قبل ایک جاننے والے کے توسط سے اسلام آباد میں سول جج عاصم حفیظ کے گھر ملازمہ کے طور پر بھجوایا گیا تھا
پولیس کے مطابق کئی ماہ تک والدین کی بچی سے فون پر بات نہیں ہو سکی تو وہ چند روز قبل اس سے ملنے خود اسلام آباد پہنچ گئے۔ جج کی اہلیہ سومیہ نے بچی کو بس اسٹاپ پر لا کر والدین کے حوالے کر کے یہ کہا کہ یہ درست طور پر کام نہیں کرتی اور چوری بھی کرتی ہے۔ والدین نے دیکھا کہ بچی زخمی حالت میں ہے اور نیم بے ہوشی کی حالت میں مسلسل رو رہی ہے۔ چنانچہ والدین بچی کو وہاں سے لے کر سرگودھا روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر اسے سرگودھا کے سرکاری اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں بچی کی حالت دیکھتے ہوئے اسے لاہور لے جانے کا کہا گیا۔ چنانچہ رضوانہ کے گھر والے اسے لے کر لاہور جنرل اسپتال گئے۔ جہاں بچی کا معائنہ کیا گیا تو اس کے جسم پر پندرہ کے قریب بڑے گھاؤ ملے۔ جن میں سر کے فریکچر بھی شامل ہیں۔
بچی اس وقت بھی ناگفتہ حالت میں ہے۔ ہوش میں آنے پر چودہ سالہ رضوانہ نے بتایا کہ اس پر جج کی بیوی روزانہ تشدد کرتی تھی اور بے دریغ مارتی پیٹتی تھی۔ بچی نے بتایا کہ جج کی بیوی اسے ڈنڈوں اور ڈوئی سے پیٹتی تھی اور روزانہ مار پڑتی تھی کہ وہ درست طور پر کام نہیں کرتی۔ اس کے بعد کھانا دیئے بغیر ایک کمرے میں بند کر دیتی تھی۔ ادھر سرگودھا پولیس نے چوہدری مختار نامی اس شخص کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ جس نے بچی کو اسلام آباد بھجوایا تھا۔ جب کہ اسلام آباد پولیس نے جج کی بیوی کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے
دوسری جانب رضوانہ کے والدین اور خاندان والوں نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ، رضوانہ کو دس ہزار روپے ماہانہ پر اسلام آباد بھجوایا گیا تھا۔ لیکن چھ ماہ تک اس پر جج کی بیوی سومیہ مسلسل تشدد کرتی رہی اور آخر میں والدین کے حوالے کر کے کہا کہ، یہ کام نہیں کرتی اور چوری کرتی ہے۔ جب بچی کو والدین نے دیکھا تو اس کی کھوپڑی سے چمڑی اتری ہوئی تھی اور اس کے زخم اتنے خراب ہو چکے تھے کہ ان میں سے بدبو آرہی تھی۔ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ زخموں میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے چہرے پر استری سے جلنے کے نشانوں کے ساتھ ساتھ دونوں بازوؤں کی ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں اور پسلیاں بھی فریکچر ہیں۔ ٹانگوں پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہے۔ جسم کے ہر حصے پر تشدد کے نشان موجود ہیں
ہسپتال میں موجود رضوانہ کے والدین نے بتایا ”اسلام آباد سے نیلی وردی والی پولیس بھی یہاں(ہسپتال میں) آئی تھی، لیکن ان کا رویہ ہمارے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ ہمیں نہیں پتا وہ کیا لکھ کر لے گئے ہیں۔۔ جب ہم نے انہیں کہا کہ ہمیں پڑھ کر سنائیں کہ کیا لکھا ہے تو وہ اس بات پر ناراض ہوئے“
رضوانہ کی والدہ شمیم بی بی کا کہنا ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے، اپنی بیٹی پر تشدد کا علم ہوتا تو کبھی اسے وہاں نہ چھوڑتی
تشدد کا شکار 14 سالہ گھریلو ملازمہ رضوانہ اس وقت لاہور کے جنرل اسپتال میں زیر علاج ہے
اسپتال انتظامیہ کے مطابق اس کے جسم پر تشدد کے پرانے نشان ہیں جو بروقت علاج نہ ہونےکے باعث خراب ہوگئے،لڑکی کی ٹانگیں بھی فریکچرہیں اور سر پر بھی چوٹ ہے۔
لاہور کے جنرل اسپتال میں متاثرہ بچی کے سرکا آپریشن کر لیا گیا اور زخم میں پڑے کیڑے صاف کرکے پٹی کر دی گئی، دونوں فریکچر بازوں کی کلائی سے کہنی تک آپریشن کیا جائے گا
جنرل ہسپتال میں 15 سالہ رضوانہ کا علاج جاری ہے جہاں آئی سی یو کے باہر پولیس پہرہ دے رہی ہے جبکہ 13 ڈاکٹروں کی ٹیم وقفے وقفے سے متاثرہ بچی کا معائنہ کر رہی ہے
چوتھی منزل پر بنے آئی سی کے کمرے کے باہر ایک ہی خاندان کے کئی افراد جن میں خواتین اور مرد شامل ہیں کھڑے ہیں اور ان کی نظریں آئی سی یو پر ہیں، جہاں انہیں جانے کی اجازت نہیں صرف اندر رضوانہ کی والدہ اور والد کو ہے
اچانک آئی سی یو کا دروازہ کھلا اور پولیس کی ایک ٹیم باہر نکلی اور ان کے ساتھ رضوانہ کی والدہ بھی تھیں جن کو آئی سی یو سے باہر نکلتے ہی ایک اور خاتون نے تھام لیا اور سیڑھیوں پر بٹھا دیا
پولیس جا چکی تھی لیکن دو اہلکار ابھی بھی آئی سی یو کے باہر موجود تھے۔ رضوانہ کے والد مانگا اندر بیٹی کے پاس واپس چلے گئے جبکہ والدہ شمیم فکرمند آنکھوں سے آئی سی یو دروازے کو دیکھ رہی تھیں
ہسپتال کی طرف سے بنائے گئے میڈیکل بورڈ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر جودت سلیم بتاتے ہیں ’ہمارے ٹیم میں ہر طرح کے ڈاکٹرز شامل ہیں۔ دماغ سے لے کر جسم کے مختلف اعضا کے سپیشلسٹ بھی ہیں۔ بچی کے جسم پر مختلف حصوں پر چوٹیں ہیں لیکن سب سے اہم اس کے دماغ کو پہنچنے والی چوٹ اور دماغ کی سوزش ہے۔ ہم انتہائی احتیاط سے اس کا علاج کر رہے ہیں اور ہماری ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ برین سرجری کی فی الحال ضرورت نہیں ہے۔‘
شمیم بی بی آئی سی یو سے باہر نکلیں تو وہ غم سے نڈھال تھیں۔ انہوں نے بتایا ’میری بیٹی کی حالت پہلے سے بہتر ہے لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہو رہا۔ اس سے ٹھیک طرح سے بات نہیں ہوتی اور وہ بہت ڈری ہوئی ہے۔ لیکن ہم خدا کا شکر کرتے ہیں کہ حکومت نے اسے پوری توجہ دی ہے۔‘
جنرل ہسپتال کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر الفرید ظفر نے بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ بچی انتہائی ٹراما میں ہے ہم ہر طرح سے کوشش کر رہے ہیں کہ اس کی صحت میں بہتری لائی جا سکے۔ اس لیے اب ہم نے میڈیکل بورڈ میں ایک سائیکٹرسٹ کا اضافہ کر دیا ہے تاکہ بچی کی ذہنی صحت کی بحالی کا کام بھی ساتھ ہی شروع ہو۔‘
بچی کے دائیں بازو کی ہڈی اور دماغ میں ہونے والی سوزش اور زخموں کا علاج جاری ہے۔ میڈیکل بورڈ میں ایک گائناکالوجسٹ کو بھی شامل کیا گیا ہے
دوسری جانب فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں تعینات سول جج عاصم حفیظ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ بچی رضوانہ ہمارے گھر ملازمہ تھی، بچی نے ایک ماہ قبل گملوں سے مٹی کھائی، جس کی وجہ سے اس کی اسکن خراب ہو گئی
سول جج عاصم حفیظ کے بقول، ”میں نے گوجرانوالہ کے ڈاکٹر سے بچی کی بیماری کی تشخیص کروا کر دوا لگا دی تھی، بچی اسکن ٹھیک ہونے کے کچھ دن بعد زخم کو چھیل دیتی تھی، مجھے بچی کے سر میں موجود چوٹوں کا علم نہیں ہے کیونکہ بچی سر پر اسکارف باندھتی تھی“
عاصم حفیظ کے مطابق اہلیہ نے بتایا کہ بچی کام نہیں کرتی تو میں نے کہا اسے اس کے گھر چھوڑ آؤ، میری اہلیہ ڈرائیور کے ہمراہ بچی کو سرگودھا اس کے والدین کے پاس چھوڑ آئی تھیں
سول جج کے مطابق ”بچی ہمیں کہتی تھی کہ اگر میں واپس گئی تو میری والدہ مجھے ماریں گی، بچی گھر جانا نہیں چاہتی تھی لیکن ہم اس کو چھوڑ آئے، لاہور جا رہا ہوں بچی کو وہیں ریفر کیا گیا ہے، چاہتا ہوں بچی جلد صحتیاب ہو جائے۔“
بعد ازاں اسلام آباد میں سول جج عاصم حفیظ نے اہلیہ کے ہاتھوں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن بچی کی والدہ سے رابطہ کر کے صلح کی پیشکش کی
تاہم متاثرہ بچی کی والدہ نے بتایاکہ سول جج نے رابطہ کرکے صلح اور رقم کی پیش کش کی لیکن ہم نے پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا
خیال رہے کہ اس سے پہلے سال 2018 میں اسلام آباد میں ہی ایک ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم علی اور ان کی اہلیہ کو طیبہ نامی گھریلو ملازمہ پر تشدد کا الزام ثابت ہونے ایک ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، جبکہ اسلام آباد میں تعینات سول جج اور ان کی اہلی پر بھی یہی الزام ہے
کم عمر ملازمائیں اور بنگلوں کی بیگمات کی نفسیات
معروف مضمون نگار عفت حسن رضوی کا کہنا ہے ”ننھی پری رضوانہ پر مبینہ طور پر ایک جج کی بیوی کا وحشیانہ تشدد اور جج صاحب کی مجرمانہ معاونت کا معاملہ ایسا ہے کہ سخت سے سخت دل بھی لرز کر رہ جائے۔ رضوانہ تشدد کیس کی تفصیل تصاویر سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ سوشل میڈیا پر نہ چاہتے ہوئے بھی زخمی رضوانہ کی تصاویر اور ویڈیوز کا ڈھیر لگا ہوا ہے“
عفت حسن کہتی ہیں ”پاکستان سے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہر شخص نے اس معصوم کے زخمی چہرے اور سر کی ادھڑی ہوئی، خون میں لتھڑی ہوئی کھال کی تصاویر لگا رکھی ہیں اور بچی کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ننھی رضوانہ کی تصاویر کے بجائے ہمیں جرم ثابت ہونے پر اس وحشی خاتون کا دیدار کروایا جائے، جو تشدد میں اس حد تک آگے بڑھ گئیں، جج صاحب کی منہ دکھائی بھی ہو تاکہ علم ہو سکے کہ قانون و آئین کے نام نہاد محافظ خود کس قدر اس کی پاسداری کرتے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا میں سماجی موضوعات کے لیے مہم چلانے کا ایک اہم طریقہ ’نیم اینڈ شیم‘ کہلاتا ہے، جس میں زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ متاثرہ افراد نہیں بلکہ کسی جرم میں ملوث مجرم کا چہرہ سرعام لایا جائے۔
رضوانہ یا اس جیسی کسی بھی بچی کے والدین اگر اپنی بیٹیوں کو کام پر لگاتے ہیں تو یہ موجودہ معاشی صورت حال میں ان کی وہ مجبوری ہے، جس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ یا تو پھر ہم ان تصاویر کے لیے تیار رہیں جس میں فاقہ کشی سے تنگ آ کر باپ اپنے چار بچوں اور بیوی سمیت گلے میں پھندا ڈال لیتا ہے۔
ریاست سے فی الحال اپنا قبلہ سیدھا نہیں ہو رہا، ایسے میں حکومتی اداروں کے لیے ناممکن ہے کہ ہر گھر میں جھانک کر دیکھا جائے کہ کون سی باجی گرم چمٹے سے اپنی ننھی میڈ کو جلا رہی ہیں۔ کم از کم ہمارا معاشرہ خود ہی اپنی کوئی ایک ذمہ داری اٹھا لے۔
والدین بھوک و غربت کی صورت میں بچوں سے مزدوری نہ کروائیں تو ان کے پیٹ کا جہنم کون بھرے گا؟ مان لیا کہ بچوں کے کھیلنے کے دن ہوتے ہیں، مار کھانے کے نہیں، تو ہاتھ سے جھاڑو چھین کر کھلونے کون دے گا؟ انہیں تعلیم کے لیے بھیجا تو آنے جانے، کھانے پینے، لکھنے پڑھنے کا خرچہ کون اٹھائے گا ؟ ریاست اس پر مکمل خاموش ہے
ریاست کے پاس غربت کے ہاتھوں مجبور والدین کو دینے کے لیے مفت کے مشورے ہیں، آئین و قانون کی موٹی موٹی کتابیں ہیں اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی گئی خصوصی کمیٹیاں
چھوٹے بچوں کو کام پر لگانا تو چلیں سمجھ آگیا کہ افلاس زدہ والدین کی معاشی مجبوری ہے اور فی الحال پاکستان کے کمزور معاشی حالات میں ریاست پاکستان اس لائق نہیں کہ ملک کے کم سن شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرسکے، لیکن یہ بنگلے والی میڈموں کے وہ کون سے مسائل ہیں جو آئے روز کام والی بچیوں کے سر کھول دیتی ہیں، تھپڑوں سے ان بچیوں کے چہرے لال کر دیتی ہیں، ان کے جسم کو جلاتی ہیں اور مکے مار کر ان کی آنکھیں نیلی کردیتی ہیں۔ جسمانی تشدد کے علاوہ گھریلو کم عمر ملازماؤں کو جنسی استحصال کا کس قدر سامنا رہتا ہوگا یہ الگ پیچیدہ اور تحقیق طلب معاملہ ہے
ان باجیوں کا طریقہ واردات اتنا خونی، وحشی اور جان لیوا ہوتا ہے کہ یہ ملازماؤں کو خود مارتی ہیں، اپنے بچوں سے پٹواتی ہیں، دل نہ بھرے تو شام کو شوہر آئے تو اس سے بھی ہڈیاں تڑواتی ہیں
کم عمر گھریلو ملازماؤں کے پچھلے تمام کیسز اٹھا کر دیکھیں تو تشدد کا ایک اکلوتا واقعہ نہیں ہوا ہوتا کہ میڈم صاحبہ کا دماغ گھوما اور مار دیا۔ ہر کیس کی تفصیل ایک سی ہے کہ یہ تشدد تواتر، مسلسل ہوتا ہے اور اسی تشدد زدہ جسم کے ساتھ ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ بچی کام بھی کرے۔
یہ جاننا اب لازمی ہوگیا ہے کہ ایسے شدید تشدد کی کیا نفسیاتی و معاشرتی وجوہات ہوسکتی ہیں، آیا ان خواتین کو کسی بھی قسم کے قانون کا کوئی ڈر ہے بھی کہ نہیں؟ اور اب تک ایسی کتنی وحشی خواتین کو کیا کیا سزائیں ہوئی ہیں، ان خواتین کے با اثر شوہر حضرات کیسے قوانین کے تکنیکی سقم سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس بارے میں عوام کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔
اگر کل کو یہ خبر آجائے کہ زخمی بچی کے والدین نے پیسے لے کر ملزمہ سے صلح کرلی اور تشدد کے تمام چارجز کو واپس لے لیا تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوگا کیونکہ اس پورے معاملے کا آغاز بہرحال متاثرہ فریق کے پاس پیسے نہ ہونے کی مجبوری سے ہوتا ہے اور اس بات کا اندازہ بنگلے والی میڈم کو اچھی طرح ہوتا ہے، اسی لیے بنا خوف و خطر ڈنڈے چلاتی ہیں۔