سائنسدانوں نے ایک شہاب ثاقب دریافت کیا ہے، جو خلا سے سفر کرتے ہوئے تیر کے پھل یا نوک میں تبدیل ہو گیا تھا اور تین ہزار سال پہلے یورپ میں فروخت کیا گیا تھا
یہ دریافت اس وقت کی گئی جب سائنس دانوں کی ایک ٹیم، جس کی سربراہی نیچرل ہسٹری میوزیم آف برن کے ماہر ارضیات بیڈا ہوفمین اور سوئٹزرلینڈ کی برن یونیورسٹی نے کی، قدیم میٹیوریٹک لوہے کے نمونوں کی تلاش شروع کی۔ جرنل آف آرکیالوجیکل سائنس کے ستمبر کے ایڈیشن میں شائع ہونے والے اپنے مطالعے میں ، سائنسدانوں نے تجویز پیش کی کہ کانسی کے دور میں لوگ اوزار اور ہتھیار بنانے کے لیے الکا کا استعمال کرتے تھے۔
آئرن شہابیوں میں پایا جانے والا سب سے عام مواد ہے کیونکہ یہ زمین کے ماحول میں داخل ہونے کے دباؤ کو برداشت کر سکتا ہے۔ چونکہ ہزاروں سال پہلے لوہے کو حاصل کرنا مشکل تھا، اس لیے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس عرصے کے دوران بنائے گئے زیادہ تر اوزار میٹیوریٹک آئرن پر مشتمل تھے، جیسا کہ سائنس الرٹ نے رپورٹ کیا ہے
لہٰذا جرنل آف آرکیالوجیکل سائنس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے برن ہسٹری میوزیم میں رکھا ہوا تین ہزار سال پرانا تیر کا پھل یا نوک (ہیڈ) ایک شہاب ثاقب سے حاصل ہونے والے لوہے کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا
جریدے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں محققین تیر کی نوک کی خصوصیات اور اس میں استعمال ہونے والے لوہے سے بھرپور شہابی مادے کے ممکنہ ذرائع کی وضاحت کرتے ہیں
گذشتہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ قدیم انسانی معاشروں میں آسمان سے گرنے والے شہاب ثاقب سے حاصل ہونے والا لوہا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یورپ میں ابتدائی شہابی لوہے کے استعمال کی ایسی بہت سی مثالیں دریافت ہوئی تھیں
نئے مطالعہ میں محققین نے سوئٹزرلینڈ میں آثارِ قدیمہ کے مجموعوں کا جائزہ لیا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا ان میں سے کوئی نمونے فلکی دھات سے بنے تھے یا نہیں؟
انہوں نے پایا کہ برن ہسٹری میوزیم میں موجود تیر کی نوک جزوی طور پر ایسی ایلومینیم دھات سے بنائی گئی تھی، جو قدرتی طور پر کرہ ارض پر نہیں پائی جاتی
برن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں معدنیات اور میٹیورائٹس کے سربراہ اور کیوریٹر مصنف بیڈا ہوفمین نے بتایا، ”باہر سے یہ زنگ میں لپٹے ایک عام تیر کی نوک کی طرح لگتا ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ان کے تجزیے سے ظاہر ہوا کہ ابھی بھی بہت ساری دھاتیں محفوظ ہیں
ایک بیان کے مطابق، تجزیہ سے پیسنے کے نشانات کا بھی انکشاف ہوا جب شہابی ٹکڑے کو تیر کی نوک کی شکل دی گئی تھی، اور ٹار کی باقیات، جو ممکنہ طور پر تیر کے شافٹ سے پوائنٹ کو جوڑنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں
اس تیر کے پھل میں محققین کو لوہے اور نِکل کا مرکب بھی ملا ہے، جو صرف شہابیوں میں پایا گیا ہے
تیر کی نوک موریگن میں دریافت کی گئی تھی، سوئٹزرلینڈ کی اس بستی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ کانسی کے زمانے میں تقریباً 800 سے 900 قبل مسیح کے دور کے درمیان رہتے تھے
میں ترقی ہوئی تھی۔ یہ بستی ایک کھیت سے صرف پانچ میل کے فاصلے پر ہے، جو ہزاروں سال پہلے کے ایک شہاب ثاقب کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی تھی
محققین کا ابتدائی خیال تھا کہ تیر کی نوک ٹوانبرگ شہابیے کی دھات کا استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی تھی، جو اُس جگہ سے آٹھ کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر گر کر تباہ ہوا، جہاں سے یہ ہتھیار دریافت ہوا تھا
تاہم انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جرمنییم اور نِکل کی ارتکاز شہابیے کے نمونے اور تیر کے پھل کے درمیان مماثل نہیں ہے
شہابیوں کے ارضیاتی ڈیٹا بیس میں ایک اور ممکنہ ذرائع کی تلاش میں سائنس دانوں نے پایا کہ یورپ میں پہلے دریافت ہونے والے صرف تین دیگر شہابیوں میں دھاتوں کا وہی مجموعہ پایا گیا جو تیر میں دیکھا گیا تھا۔
یہ شہابیے جمہوریہ چیک، سپین اور ایسٹونیا میں دریافت ہوئے تھے۔
محققین کو اب یقین ہے کہ ایسٹونیا سے ملنے والا شہابی مادہ تیر کے پھل کی تیاری کے لیے سب سے زیادہ ممکنہ ذریعہ رہا ہوگا۔
نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ وسطی یورپ میں کانسی کے زمانے کے دوران ایسٹونیا اور سوئٹزرلینڈ کے ابتدائی مقامات کے درمیان ایک وسیع تجارتی نیٹ ورک موجود تھا
سائنس دانوں نے مطالعہ میں لکھا ہے ’مناسب کیمیائی ساخت کے ساتھ صرف تین بڑے یورپی شہابیوں میں ایسٹونیا سے ملنے والا کالیجاروف شہابی مواد تیر کا سب سے زیادہ ممکنہ ذریعہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ایسٹونیا میں شہابیے کا بڑا گڑھا بننے کا واقعہ ممکنہ طور پر کانسی کے زمانے سے 1500 قبل مسیح میں پیش آیا، جس کے بہت سے چھوٹے ٹکڑے بکھر گئے
محققین نے لکھا ہے ’اس طرح کے چھوٹے لوہے کے ٹکڑوں کی دریافت اور اس کے نتیجے میں نقل و حمل یا تجارت کا امکان دفن ہونے والے بڑے شہابیے کے مقابلے میں بہت زیادہ نظر آتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسی مادے کے اضافی نمونے دیگر آثار قدیمہ کے مجموعوں میں موجود ہو سکتے ہیں
اس قسم کے قدیم ہتھیاروں کی دریافت مشرق وسطیٰ، مصر اور ایشیاء میں کہیں زیادہ عام ہے، لیکن یہ صرف تیسرا میٹیوریٹک آرٹفیکٹ ہے جو یورپ میں پایا گیا ہے۔ اس نے محققین کو ایک اور امر کا انکشاف کیا: تجارتی راستے پہلے کی سوچ سے کہیں زیادہ وسیع ہو چکے ہوں گے۔ اگرچہ تیر کی نوک انیسویں صدی کے دوران سوئٹزرلینڈ میں دریافت ہوئی تھی، لیکن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس کی ابتدا ایسٹونیا سے ہوئی تھی۔