ہم ہفتے کی شام کے دھندلکے میں ’باریلوچی‘ میں اپنا ہنی مون منا کر بیونس آئرس واپس پہنچے تھے اور مشتاق تھے کہ اپنے نِگھے ایک بیڈ روم والے اپارٹمنٹ میں اپنی پہلی رات گزاریں۔
جیسے ہی ہم نے بیڈ روم کا دروازہ کھولا، ہم نے وہاں ایک پنجرہ پایا۔
دیکھنے میں تو یہ ایک طوطے کا پنجرہ لگتا تھا لیکن اس سے کہیں بڑا تھا۔ اس کا پیندا لگ بھگ تین گز ڈایا میٹر کا تھا اور اس کی عمودی سلاخیں اوپر جا کر آپس میں ایک نوکیلے گنبد کی شکل میں ملتی تھیں، جو چھت سے لگا ہوا تھا۔
بیڈ روم میں اسے رکھنے کے لئے ہمارا بستر اور اس کے ساتھ کی تپائیاں وہاں سے اٹھا کر ڈائننگ روم میں رکھ دی گئی تھیں اور ڈائننگ ٹیبل اور اس کی چار کرسیوں کو دیوار کے دھکیل دیا گیا تھا۔ الماریوں کے پٹ اور دراز بستر کی وجہ سے کھولنے ممکن نہ تھے جبکہ دیواروں، فرشوں کے ساتھ ساتھ فرنیچر پر بھی ڈھیروں کھرونچیں لگی ہوئی تھیں۔
پنجرے میں لال بالوں اور زرد چہرے والا ایک آدمی تھا۔ وہ صاف ستھرا لیکن قدرے دقیانوسی لگ رہا تھا۔ اس نے کالا، سرمئی دھاریوں والا ڈبل بریسٹ سوٹ، مائع لگی سفید قمیض، کالی ٹائی اور چمکتے کالے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ اس نے اپنا سرمئی ہیٹ گھٹنوں پر رکھا ہوا تھا؛ یہ صاف ستھرا اور قدیمی فیشن کا تھا لیکن اس بندے کے مقابلے میں زیادہ نیا لگتا تھا۔ اس کی ساری اشیاء جو کہ تازہ تازہ تیار کی گئی تھیں، اس کی شخصیت کا ایک عجیب تاثر چھوڑ رہی تھیں، جیسے آثار قدیمہ کے کسی کھنڈر کو پھر سے تعمیر کیا گیا ہو یا یہ کہ وہ کوئی بہروپیا ہو۔
یہ سب، ہم نے ذرا بعد میں نوٹ کیا۔ پہلے تو ’سوسانا‘ اور میں ہکا بکا رہ گئے تھے۔ آدمی نے اس وقت تک انتظار کیا جب تک ہم پُرسکون نہ ہو گئے، پھر اس نے یک اسلوبی انداز میں کہنا شروع کیا؛
”میں آج، آپ لوگوں کے آنے کی توقع نہیں کر رہا تھا ۔ میری اطلاع کے مطابق (اس نے ایک کتابچہ دیکھا) آپ نے کل رات کو پہنچنا تھا۔ وقت کی ترتیب بہت واضح ہے؛ جمعہ، بارہ تاریخ، سیکھنے والوں کی شمولیت۔۔ ہفتہ، تیرہ تاریخ جسمانی و ذہنی طور پر ماحول سے ہم آہنگی پیدا کرنا۔۔ اتوار، چودہ تاریخ ، ٹیوٹروں (tutores) کی آمد، اور اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو آج ہفتہ ہے اور تاریخ بھی تیرہ ہے۔“
”تم ٹھیک کہہ رہے ہو“ میں نے کہا، ”ہم ایک دن پہلے آ گئے ہیں۔ گھر لوٹنے کے چند گھنٹوں بعد ہی کام پر واپس جانا کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہوتا۔“
”مہمانوں کی جلد آمد بھی کچھ کم ناخوشگوار نہیں ہوتی۔ مسٹر روچی قاعدے کی اس رُوگردانی سے خوش نہیں ہوں گے اور ویسے بھی اس سے، رات کے حوالے سے میری منصوبہ بندی میں بھی خلل پڑے گا۔“
”مسٹر روچی؟ ریئل اسٹیٹ فرم کا مالک؟“
”اور کون؟ اس نے ذاتی طور پر سارے ضروری انتظامات کئے تھے جو نہ تو جلدی ممکن تھے اور نہ ہی آسان۔ اور یہ کہ مسٹر روچی اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ سارے شہری پُرجوش طریقے سے نہ صرف خود قوانین کی پابندی کریں بلکہ یہ بھی یقینی بنائیں کہ دوسرے بھی ان کی پاسداری کریں۔“
میں نے فیصلہ کیا کہ اسے تو میں ذرا سیدھا کروں۔ ”قوانین؟ یہ کون سے قوانین ہیں؟ اور یہ کب سے ہوا کہ اس نام نہاد مسٹر روچی، جو بس ایک کاروباری آدمی ہے، کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ قانون کو لاگو کرواتا پھرے؟“
آدمی نے اپنے پہلے والے لہجے میں ہی بات جاری رکھی؛ ”آپ، یقیناً ایسے بندے ہیں، جنہوں نے ابھی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں سیکھا۔ مزید برآں آپ کی شادی کے جشن نے آپ کو اس بات سے بھی آگاہ نہیں ہونے دیا کہ ریئل اسٹیٹ کے قانون میں کئی مخصوص تبدیلیاں متعارف ہو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر مسٹر روچی اب مجسٹریٹ ہیں اور آپ بھی، کچھ اختیارات کے ساتھ ایک طرح کے مجسٹریٹ ہیں۔“
”میں اور مجسٹریٹ!؟“ میں بے یقینی سے ہنسا
”پورے مجسٹریٹ تو نہیں لیکن مجسٹریٹ کے نائب جیسے۔“
”تب تواس کا مطلب یہ ہوا کہ میں مسٹر روچی کا ایک نائب ہوں؟“
”میرے لئے سرکاری فیصلے سے آگے بڑھ کر بات کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔ بہرحال (یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی آواز دھیمی کی) میں آپ پر اعتماد کر سکتا ہوں کہ آپ یہ بات خود تک ہی رکھیں گے۔“
”تو تم یہ خفیہ بات مجھے کیوں بتا رہے ہو؟“
”جناب، میرا سنہری اصول یہ ہے کہ وقت کے ساتھ کیسے چلنا ہے۔۔ اور اب جبکہ ہمیں ایک ہی چھت تلے، طویل عرصے کے لئے ساتھ ساتھ۔۔۔“
”طویل عرصے کے لئے ایک چھت تلے!؟“
”جی جناب۔ میں آپ سے کم از کم تیس سال بڑا ہوں۔ میں نے بہت کم ترقی کی ہے؛ میں قید کی سیڑھی کا سب سے نچلا ڈنڈا ہوں؛ میں فقط ایک قیدی ہوں۔ اس کے برعکس آپ ایک آزاد انسان ہیں اور قید کی اس سیڑھی پر اپنی پہلی ترقی پا چکے ہیں؛ اور اسسٹنٹ بن چکے ہیں۔“
اب سوسانا پھٹ پڑی؛ ”میں نے اس طرح کی فضول بکواس اپنی ساری زندگی میں نہیں سنی! سیدھے لفظوں میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ بندہ اپنے اس خوفناک پنجرے کے ساتھ ہمارے بیڈ روم میں کیا کر رہا ہے!؟ اور یہ بھی کہ کس نے اور کیوں، ہمارے بیڈ روم کا سامان ڈائننگ روم میں جا رکھا ہے اور ان بندوں نے جو نقصان کیا ہے، اس کا ازالہ کون کرے گا؟“
”محترم خاتون، میں آپ کی شکایت کی مخرش ٹون کو معاف نہیں کر سکتا۔ یہاں کچھ عملی مسائل ہیں۔ بستر کو اس لئے ہٹانا پڑا کیونکہ اس کے بغیر میرا پنجرہ قواعد کے مطابق یہاں رکھا نہیں جا سکتا تھا۔ رہا سوال نقصانات کے ازالے کا، تو حکام کا منصوبہ ہے کہ وہ مختلف پیشوں سے وابستہ محنت کشوں کی ایک ٹیم بنائیں گے جو انتہائی کم اجرت پر آپ کے فرنیچر اور دیواروں کو اپنی اصلی حالت میں لے آئے گی۔ اور رہی یہ بات کہ میں اپنے اس خوفناک پنجرے کے ساتھ آپ کے کمرے میں کیا کر رہا ہوں تو اس پر میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ میں یہاں اپنی مرضی سے آیا ہوں؟ کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ میں ایک قیدی بننا پسند کرتا ہوں؟“
”مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ تم اپنی مرضی سے قید میں ہو یا کسی دوسرے نے تمہیں قیدی بنا دیا ہے۔ میں تو صرف یہ جانتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ تمہارا پنجرہ ہمارے بیڈ روم سے باہر نکلے!“
”یہ پنجرہ نہیں ہے۔ یہ لفظ وہ منفی تاثر دیتا ہے جو قید کئے ہوئے جانوروں کے ساتھ جُڑا ہے اور یہ اس مطلب کے بالکل الٹ ہے جو ہمارے سرکاری حکام نے انسانیت کی روح کو سمجھتے ہوئے اسے دیا ہے۔ یہ نہ تو جیل کی کوٹھری ہے اور نہ ہی اس کی کوئی کال کوٹھری۔ اس کا تکنیکی نام ’دوبارہ داخلے کی جگہ‘ ہے۔“
آدمی کی طرف سے اس طرح کی اصلاح نے سوسانا کو اور چِڑ چڑھا دی۔ ”یہ ہمارے ہی بیڈ روم میں کیوں ہے؟ ہمارے بیڈ روم میں کیوں؟ ہمارے بیڈ روم میں کیوں؟ کیوں؟ کیو؟ کیوں؟“
”ارجنٹائن کے ہمارے نمائندے اور سینیٹر بہت ذہین، پڑھے لکھے، صنعتکار، ایماندار، سادگی پسند اور بے لوث ہیں۔ انہی گُنوں کی روشنی میں انہوں نے ایسے نئے قوانین وضع کئے ہیں، جنہیں مجموعی طور پر ’سماج میں دوبارہ داخلے کے اصول و ضابطے‘ کہا جاتا ہے اور یہ۔۔۔۔“
”کیا تم مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو کہ میں تم پر یہ یقین کروں۔۔“ میں نے اس کی بات کاٹی، ”کہ تم ہمارے بیڈ روم میں کسی نئے ضابطے کی وجہ سے موجود ہو؟“
اس نے ہیٹ کو اپنے بائیں ہاتھ کی شہادتی انگلی پر ٹکایا اور دائیں ہاتھ سے اس کے کنارے کو گھماتے ہوئے اپنا سر ہلایا۔ ”میں تو صرف ایک قیدی ہوں۔ قید و بند کے اس نظام میں میرا کردار تو بہت چھوٹا ہے۔ آپ جو مجھ سے ایک درجہ اونچے ہیں تو اس حساب سے ایسے معاملات کے بارے میں آپ کو مجھ سے زیادہ معلوم ہونا چاہیے۔ لیکن عملی طور پر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔۔ جیسا کہ میں اس نظام میں کئی برسوں سے ہوں جبکہ آپ تو اس میں ابھی داخل ہوئے ہیں۔ آپ کو تو اس داخلے پر خوش ہونا چاہیے، جبکہ آپ نہیں ہو۔ ایسا مظہر اکثر لوگوں میں کسی طور بھی پہلے موجود نہیں ہوتا لیکن بعد میں اس کا ظہور ہو ہی جاتا ہے۔ جب آپ یہ نئے ضابطے پڑھ لیں گے تو آپ نہ صرف خوشی محسوس کریں گے بلکہ ان پر فخر بھی کریں گے۔“
سوسانا اپنے ہاتھ کستی ہے اور مُکے تان لیتی ہے۔
”اگر آپ مجھے اجازت دیں“ آدمی مزید کہتا ہے، ”تو میں ’سماج میں دوبارہ داخلے کے اصولوں اور ضابطوں‘ کے بارے میں کچھ معلومات آپ کو دے سکتا ہوں“
”میں انہیں جاننے کے لئے بیتاب ہوں“ اس کا دھیما پن اور پُرسکون انداز میرے لئے ناقابل برداشت تھا
”حکام نے پرانے نظام کی پڑتال اور تجزیہ کر کے یہ جانا کہ یہ جدید سماج کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا، چنانچہ انہوں نے دیر نہیں لگائی اور اسے ایک دوسرے نظام سے بدل دیا، جس پر سب متفق تھے۔ کیا آپ میری بات سمجھ رہے ہیں۔۔۔؟“
”ہاں، ہاں، کیوں نہیں، تم بولتے جاﺅ۔“ ، میں نے بے صبری سے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا
”سماج میں دوبارہ داخلے کا ضابطہ دو اصولوں ، ’اے‘ اور ’بی‘ پر مبنی ہے جو آپس میں جڑے ہوئے بھی ہیں۔ ’اے‘ کا مقصد قیدیوں کا بتدریج سماج میں دوبارہ داخل کیا جانا شامل ہے جبکہ ’بی‘ کا مقصد قید خانوں کے پرانے اجتماعی نظام کو انفرادی قید کے یونٹوں میں بدلنا ہے۔ ریئل اسٹیٹ فرموں نے قیدیوں کو نئے مقامات سکونت عطا کئے ہیں اور اسی پالیسی کی دین ہے کہ پرانی جیلیں گِرا دی گئی ہیں اور وہاں باغات اور پلازے بن گئے یا بن رہے ہیں۔“
”لیکن نئے مقامات سکونت میں کیوں؟“
”پرانے جیل خانوں کی ہیت خوشگوار نہیں تھی اور یہ قیدی کی نفسیات پر منفی اثر ڈال رہی تھی جبکہ اب جدید قید کے نظام میں اُس، چاہے قیدی مرد ہو یا عورت، کے سماج میں دوبارہ داخلے کے حوالے سے، مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دوسرے قیدی کو گھر میں رکھنے سے گھر والے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے۔۔۔۔“
”ایک منٹ رکو؛ تو کیا سوسانا اور میں تمہارے محافظ اور تم ہمارے قیدی ہو؟“
اس نے ناامیدی میں سر ہلایا۔
”حکام اب محافظوں اور قیدیوں کی اصطلاحیں استعمال نہیں کرتے۔ وہ اب ’tutores‘ (سکھانے والے) اور ’tutelados‘ (سیکھنے والے) کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں، جو نظام کے اصول نمبر ’اے‘ ؛ بتدریج سماج میں دوبارہ داخلے ، کے لئے بہترین ہیں۔ کیا آپ اس سے اتفاق نہیں کرتے؟“
”لیکن میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم اور حکام، دونوں ’قیدی‘ کی ہی اصطلاح برت رہے ہو۔“
”یہ صرف ایک شاعرانہ استعارہ ہے تاکہ ’ٹیوٹرز‘ یہ جان سکیں کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔“
”ذمہ داریاں۔۔۔۔؟“
”ہم اسے فرائض بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بہت کم اور سادہ ہیں۔ آپ نے مجھے مناسب معیار کا اور کافی مقدار میں کھانا، کپڑے، ورزش اور آرائش کے لوازمات مہیا کرنے ہیں اور طبی و نفسیاتی طور پر میری مدد کرنی ہے۔ مختصراً یہ کہ آپ نے میری ان تمام ضروریات کا خیال رکھنا ہے، جو ایک انسان کو درکار ہوتی ہیں۔ ’سیکھنے والوں‘ کی روحانی بحالی کے لئے اسے معلومات اور تفریحی مواقع بھی فراہم کرنا ’ٹیوٹرز‘ کا فرض ہے۔ اخبار، رسائل، کتابیں، ٹیلیویژن اور صوتی آلات میرا استحقاق ہیں۔۔۔ ہفتے میں دو راتیں، منگل اور جمعرات، ایک خاص عمر کے دوست مجھ سے مل سکتے ہیں۔ یہ میرے ساتھ پانسہ بازی اور تاش کھیل کر لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ آپ ان کی تواضع مشروبات اور سنیکس سے کریں گے۔“
”یہ کتنے لوگ ہوں گے؟“
”یہ آٹھ یا دس سے زیادہ کبھی نہیں ہوئے۔ اسی طرح میں نے ابھی اپنی جنسی زندگی کو بھی تیاگا نہیں ہے؛ ہر ہفتے کی رات کو مس کوکوئی مجھے ملنے آتی ہے، وہ ایک حسین، دل موہ لینے والی، پڑھی لکھی جوان عورت ہے۔ اس طرح کی عورت، ظاہر ہے مجھ سے محبت نہیں کرتی، اس لئے آپ کو اسے، میرے ساتھ سونے کا معاوضہ دینا ہوگا۔ مجھے اس معاوضے کے بارے میں علم نہیں ہے کیونکہ میں پیسوں جیسی گھٹیا شے استعمال کرنے سے نفرت کرتا ہوں۔ اس کے برعکس میں آرٹ سے لطف اندوز ہوتا ہوں اور ہفتے میں تین بار، پیر، بدھ اور جمعہ، ایک نوجوان راک موسیقار، جو دھیمی موسیقی کا شوقین ہے، سے ڈرم بجانے کا سبق لیتا ہوں۔ اس کی فیس کچھ زیادہ نہیں ہے۔“
”لیکن“ ، سوسانا نے مداخلت کی، ”ہم یہ سارے اخراجات کیسے پورے کریں گے؟“
”یہ میری قسمت ہے۔“ اس نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا، ”میرے دوسرے ساتھی ایسے گھروں میں رکھے گئے ہیں جو مالی لحاظ سے تگڑے ہیں۔۔۔ افسوس ہے کہ زندگی میرے ساتھ اتنی مہربان نہیں ہے۔۔۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ یہ ساری صورت حال، حکام کے نام ایک خط میں تحریر کریں اس کے ساتھ الگ کاغذ پر تفصیلات لکھیں؛ ایک اصل اور اس کی چار کاپیاں اشٹام پیپرز پر بنوائیں اور کسی سرکاری اکاﺅنٹنٹ اور نوٹری پبلک سے دستخط کروا کر حکام کو دیں۔ منسلک کاغذوں پر آمدن اور اخراجات کی مکمل تفصیل ہونی چاہیے تاکہ ’ٹیوٹر‘ اپنی مالی مشکلات کو ثابت کر سکے۔ حکام ایسے معاملات کو حل کرنے میں خاصی سردردی مول لیتی ہے، ورنہ ٹیوٹروں کو ایسے مسائل لاحق ہو جاتے ہیں، جن کا بعد میں کوئی حل نہیں ہوتا، بہت ممکن ہے کہ وہ آپ کو ’ٹیوٹر گرانٹ‘ دے دیں۔“
پھر وہ یک دم چُپ کر گیا، جیسے اس نے گرانٹ والی بات بتا کر بہت آگے کی معلومات فراہم کر دی ہوں۔ مجھے اس سے پوچھنا پڑا؛
”اس ٹیوٹر گرانٹ کے ساتھ کیا کچھ نتھی ہے؟“
”اس کے ساتھ حقوق اور ذمہ داریاں جڑی ہیں۔ پہلے کے حوالے سے حکام آپ دونوں کے لئے رات کی کوئی نوکری تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ مثال کے طور پر آپ کے لئے کسی مضافاتی ریلوے اسٹیشن پر ریلوے کی ملازمت اور جہاں تک خاتون کا تعلق ہے، میرا خیال ہے کہ مس کوکوئی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ وہ انہیں وزارتِ آرٹ میں کسی کام پر لگوا دے۔ لیکن اس سے پہلے آپ کو ٹیوٹرز کے لئے جامع اور مربوط تربیت حاصل کرنا ہو گی۔ اس تربیتی کورس کی فیس بہت کم ہے اور یہ ’لُوجان‘ کے شہر میں ہوتی ہے۔“
”لوجان؟“ میں ہکلا کر رہ گیا، ”یہ تو بہت دور ہے!“
”یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ گرانٹ کے لئے درخواست دیں۔“ اس نے کہا اور پھر جماہی لیتے ہوئے مزید کہا، ”اب ڈنر کا وقت ہو گیا ہے۔ میری کوئی خاص ترجیحات نہیں ہیں؛ میں ہر طرح کا کھانا کھا لوں گا بشرطیکہ یہ زیادہ مقدار میں ہو، مختلف النوع ہو، مناسب مرچ مصالحے کے ساتھ بنا ہو اور اس کے ساتھ اچھے معیار کی سرخ وائن ہو۔“
سوسانا باورچی خانے کی طرف دوڑی۔
”میں ڈنر کرنے سے پہلے ہمیشہ نہاتا ہوں۔ یہ پنجرے کی چابی ہے۔“
اس نے سلاخوں کے درمیان سے مجھے چابی پکڑائی۔ میں نے دروازہ کھولا اور وہ باہر نکلا ۔ اس نے ایک چھوٹا ’ڈفل‘ تھیلا اٹھا رکھا تھا جو اس کے رسمی لباس کے بالکل برعکس تھا۔ اور صحت، توانائی اور تنومندی کے اعتبار سے بھرپور، پچھلے زمانے کا یہ بندہ، مجھے چلتا ہوا نظر آیا۔
”آپ کو چابی رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اسے خود ہی رکھتا ہوں تاکہ آ جا سکوں۔ میں کسی دوسرے کو اس کے لئے تکلیف نہیں دیتا۔ مادام۔۔۔۔!“ اس نے آواز دی ، ”مہربانی کریں اور ہیٹر ذرا تیز کر دیں۔“
”اور آپ“ اس نے میری طرف مُڑتے ہوئے کہا، ”مجھے ایک صاف تولیہ لا دیں اور کل دن کے کام کرتے وقت میرے لئے اُس شیمپو کی بڑی بوتل لانا مت بھولیئے گا، جو ہلکے اور خشک بالوں کے لئے ہوتا ہے۔“
میں نے اسے تولیہ لا دیا۔ اس نے اسے اپنی گردن کے گرد لپیٹا۔ ہم بیڈ روم سے نکلے اور غسل خانے کے سامنے رک گئے۔
”میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آج ہفتہ ہے اور یہ وہ دن ہوتا ہے جب مس کوکوئی نے آنا ہوتا ہے۔ چونکہ وہ بہت شرمیلی ہے، اس لئے وہ اجنبیوں سے مل کر پریشان ہو سکتی ہے، اس لئے مہربانی ہوگی کہ آپ اور آپ کی بیوی ساڑھے گیارہ بجے سے پہلے ہی اِدھر اُدھر ہو جائیں۔“
غسل خانے کے دروازے کی ہتھی پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے مزید کہا؛ ”میں آپ لوگوں کا بستر استعمال کروں گا۔ دراصل حکام یہ بات سمجھنے میں ناکام ہیں کہ ’ریگولیشن‘ والی کھٹیا ایسے معاملات کے لئے اتنی آرام دہ نہیں ہوتی۔ اور ہاں، ذرا دیکھ لیں کہ بستر کی چادریں صاف ہونی چاہئیں۔“
”ہوں ۔۔۔ اور اس کام میں کتنا وقت۔۔۔۔ لگے گا؟“
”آپ اپنے بستر پر ساڑھے تین اور چار بجے کے درمیان واپس آ سکتے ہیں۔ ایک دفعہ دروازے کی گھنٹی بجا دیں؛ اگر کوئی جواب نہ ملے تو دوبارہ مت بجائیے گا۔ مِس کوکوئی بہت گرم عورت ہے اور جب وہ اپنا کام ختم کر لیتی ہے تو میں عام طور پر گہری نیند سو جاتا ہوں، جس کی، مجھے تھکاوٹ کی وجہ سے ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اس صورت میں دوبارہ ٹھیک دس بجے گھنٹی بجائیں، اس سے پہلے نہیں کیونکہ میں تب بھی آرام کر رہا ہوں گا اور دس کے بعد بھی نہیں کہ میں عام طور پر سوا دس بجے ناشتہ کرتا ہوں۔“
جیسے ہی وہ باتھ روم میں گھسنے لگا تو میں یہ پوچھنے میں کامیاب ہو ہی گیا، ”تمہاری سزا کتنی لمبی ہے؟“
”یہ عمر قید ہے۔“ اس نے جواب دیا ،اس کے الفاظ چلتے پانی کی آواز میں ڈوب کر ابھرے تھے ۔ #اپنی محبوبہ ’کے‘ کی یاد میں۔
Original Title (Spanish): Reinserción en la sociedad
English Title: Re-Entry into Society
By: Fernando Sorrentino